رضوان احمد طارق
ماحول کے لیے خطرناک گیسز کا اخراج آج دنیا بھر میں بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ انسان جوں جوں ترقی کرتا جارہا ہے اس کی سرگرمیاں ماحول کے لیے خطرات میں اسی قدر اضافہ کرتی جارہی ہیں۔ با الفاظِ دیگر دنیا میں انسان کا کاربن فُٹ پرنٹ بڑھتا جارہا ہے۔ کاربن فُٹ پرنٹ کی اصطلاح کی تاریخی اعتبار سے یہ تعریف کی جاتی ہے: ’’کسی ادارے، سرگرمی، مصنوع یا کسی فرد کی وجہ سے خارج ہونے والی ماحول کے لیے تمام مضر گیسز (گرین ہائوس گیس) کا مجموعہ‘‘۔
آج دنیا بھر میں کسی ملک کے ماحول کو سمجھنے کے لیے ماہرین سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس ملک کا کاربن فُٹ پرنٹ کیسا ہے۔ کسی ملک یا علاقےکے مجموعی کاربن فُٹ پرنٹ کا حساب کتاب کرنا ناممکن ہے، کیوں کہ ایسا کرنے کے لیے متعدد اقسام کے اور بہت زیادہ ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فطری طریقوں سے بھی پیدا ہوسکتی ہے جو گرین ہائوس گیسز کا بہت اہم اور بڑا حصہ ہوتی ہے۔ بعض ماہرینِ ماحولیات نے اس ضمن میں کئی طریقے بیان کئے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ گرین ہاؤس گیسز متعدد انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً ٹرانسپورٹ سے، زمین سے، جنگلات یا درخت ختم کرنے سے، اجناس اُگانے یا غذائی اشیاء تیار کرنے ، ایندھن جلانے ، مختلف اشیاء تیار کرنے سے، مواد، خام مال، سڑکیں، عمارتیں بنانے، مختلف خدمات فراہم کرنے سےوغیرہ وغیرہ۔ سادہ الفاظ میں بیان کرنے کے لئے گرین ہائوس گیسز کے بجائے یہ لکھا جاتا ہے کہ کس سرگرمی سے کتنی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوئی یا اس کے مساوی کتنی گرین ہائوس گیسز پیدا ہوئیں۔
کاربن فُٹ پرنٹ اورکاربن اکاؤنٹنگ :
کاربن فُٹ پرنٹ کی اصطلاح 1990ء کی دہائی میں شروع ہونے والی ایک بحث کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ یہ بحث اس نکتے پر ہو رہی تھی کہ کائنات کا ہر فرد ماحول پر جس طرح اپنے اثرات چھوڑ رہا ہے، اگر اس کا حساب کتاب کیا جائے تو ہمیں اپنی دُنیا جیسی کتنی دُنیائوں کی ضرورت ہوگی۔ تاہم یہ اصطلاح ایکولوجیکل فُٹ پرنٹ کے مقابلے میں زیادہ مخصوص ہے، کیوں کہ اس کے زمرے میں بہ راہ راست یہ حساب آتا ہے کہ ماحول کے لیے مضر گیسز کتنی مقدار میں خارج ہو رہی ہیں جو کرۂ ارض کا ماحول تبدیل کرنے کی ذمے دار ہیں۔
کسی شخص یا ادارے کے کاربن فُٹ پرنٹ کا حساب کتاب کرنے کے لیے مختلف ذرایع استعمال کرکے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کی کِن کِن سرگرمیوں سے مجموعی طور پر کتنی گرین ہاؤس گیسز خارج ہوئیں۔ اسے سادہ لفظوں میں کاربن اکائونٹنگ بھی کہا جاتاہے۔ ایک مرتبہ جب کسی شخص یا ادارے کے کاربن فُٹ پرنٹ کا حساب کتاب کرلیا جاتا ہے تو اس کے لیے ماہرین یہ حکمت عملی طے کرتے ہیں کہ وہ کس طرح اس میں کمی کرسکتا ہے۔ مثلاً کون سے تیکنیکی اور منطقی طریقے یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کئے جاسکتے ہیں، پراسیسنگ اور پراڈکٹ منیجمنٹ کے ضمن میں کیا سُدھار لایا جاسکتا ہے، کن اشیاء اور مواد کا استعمال کم کیا جاسکتا ہے اور انہیں استعمال کرنے کے کون سے محفوظ طریقے اختیار کئےجاسکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ انٹرنیٹ پر کاربن فُٹ پرنٹ کا حساب کتاب کرنے کے لیے کئی مفت کیلکولیٹرز موجود ہیں۔ ان میں سے ایک بہت معروف کیلکولیٹر یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور برکلے ،کُول کلائمٹ نیٹ ورک ریسرچ کنسورشیم کے تعاون سے نیٹ پر موجود ہے۔
مسئلے کا حل :۔
آج ہمارے کرۂ ارض کا اصل مسئلہ کاربن فُٹ پرنٹ کا حساب لگانا نہیں ہے بلکہ اسے کم کرنا ہے۔ اس ضمن میں جو روایتی حل بتائے جاتے ہیں ان میں متبادل منصوبوں میں سرمایہ کاری اور ان کی جانب توجہ مرکوز کرنا (مثلاً شمسی اور ہوا کی توانائی کا استعمال) بنیادی نکتہ ہے۔ لیکن ماحولیاتی سائنس کی ترقی کے بعد اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ ایسے بہت سے حل موجود ہیں جن کی مدد سے ہم کرۂ ارض پر اپنا کاربن فُٹ پرنٹ کم کرسکتے ہیں۔ یہ حل آج کی اصطلاح میں کاربن آفسیٹنگ کہلاتے ہیں۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کاربن فُٹ پرنٹ بڑھنے کے ضمن میں چند عوامل کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے۔ مثلاً آبادی میں بے تحاشا اضافہ، اقتصادی اور معاشی ترقی کا بڑھتا ہوا حجم، توانائی کے استعمال میں بے تحاشا اضافہ اور اقتصادیات کے شعبے میں کاربن کی بڑھتی ہوئی شدت۔ واضح رہے کہ کاربن فُٹ پرنٹ کی اصطلاح ایجاد ہی اس لئے ہوئی کہ ماحول کے لیے مضر قرار دی جانے والی گیسز میں سب سے زیادہ خطرناک کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے ،جس کے نام ہی سے عیاں ہے کہ اس کا بنیادی ماخذ کاربن (یا کوئلہ) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے جو دوسرا روایتی حل پیش کیا جاتا ہے وہ جنگلات میں اضافے یا کاٹے گئے جنگلات دوبارہ لگانے کا ہے۔ لیکن تحفظِ ماحول کے جدید نظریات پر یقین رکھنے والوں کا موقف ہے کہ اس مسئلے پر صرف روایتی حل کے ذریعے قابو نہیں پایا جاسکتا بلکہ اس کے ساتھ درجِ بالا عوامل کو بھی بہ طورِ خاص مدنظر رکھنا ہوگا۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی پیداوار کے لئے درکار توانائی کی مقدار کم کرنا ہوگی یا پھر کاربن خارج کرنے والے ایندھن (یعنی رکازی ایندھن، مثلاً پیٹرول، ڈیزل اور قدرتی گیس) پر انحصار کم سے کم کرنا ہوگا۔
امریکی شہری سب سے آ گے: ۔
دنیا بھر میں ماہرین وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہتے ہیں کہ کون سا ملک، اس کا کون سا علاقہ اور دنیا کے کس ملک کے ادارے اور افراد سب سے زیادہ گرین ہائوس گیسز خارج کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے طے شدہ اصولوں کے مطابق دنیا بھر کا ڈیٹا جمع کر رکھا ہے جسے وقتاً فوقتاً اَپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے لوگوں کے مقابلے میں امریکی شہری اس ضمن میں سب سے آگے ہیں۔ ہر امریکی گھرانہ اوسطاً سالانہ48 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ اس ضمن میں گیسولین کا کردار سب سے اہم بتایا جاتا ہے۔ ساری دنیا میں ٹرانسپورٹ (گاڑیاں، ہوائی جہاز، پانی کے جہاز) کو ماحولیاتی آلودگی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب گردانا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہائوسنگ کا نمبر آتا ہے جس میں بجلی، قدرتی گیس، کچرا اور تعمیرات شامل ہیں۔ تیسرے نمبر پر خوراک اور غذا آتی ہے (جس میں زیادہ حصہ سرخ گوشت، ڈیری کی مصنوعات اور سی فوڈ پراڈکٹس سے آتا ہے، تاہم دیگر اشیائے خورونوش سے بھی کافی کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے)۔
پھر اشیاء کا نمبر آتا ہے اور سب سے آخر میں خدمات کا شعبہ آتا ہے۔ امریکا کے گھرانوں کا کاربن فُٹ پرنٹ دنیا بھر کے گھرانوں کے مقابلے میں اوسطاً پانچ گنا زیادہ ہے۔ امریکا کے علاوہ دنیا بھر کے گھرانوں کی یہ شرح اوسطاً 10 ٹن فی سال فی گھرانہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر امریکا کے شہری صرف گاڑی چلانا کم کردیں یا موجودہ گاڑیوں کی جگہ ایسی گاڑیاں استعمال کرنا شروع کردیں جو ایندھن موثر طریقے سے اور کم شرح سے استعمال کریں تو امریکا کے فُٹ پرنٹ میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔اسی طرح دنیا میں متعدد ادارے اور تنظیمیں ایسی بھی ہیں جنہوں نے یہ تک اندازہ لگایا ہے کہ کون سی مصنوع تیار کرنے کے عمل میں کتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس یا دیگر مضر گیسز پیدا ہوتی ہے۔ ان ہی خطوط پر امریکا کی تحفظِ ماحول کی ایجنسی نے کاغذ، پلاسٹک، شیشے، کینز ، کمپیوٹرز، قالین اور گاڑیوں کے ٹائرز تیار کرنے والے اداروں کے لیے سخت معیارات مقرر کئے ہیں اور انہیں پابند کیا گیا ہے کہ وہ مختلف تیکنیکی اور ماحول دوست تبدیلیاں کرکے اپنا کاربن فُٹ پرنٹ کم کریں۔(جاری)