بلا شبہ جب انسان اللہ کی کائنات کے سربستہ رازوں پرغور وفکر کرتا ہے تو اُسےعلم ہوجاتا ہےکہ اس کائنات کی کوئی بھی چیز بے کار نہیں ہے، اگر کسی انسان کو اس کی افادیت کا ادراک نہیں تو یہ اس کی عقل وفہم کا قصور ہے کہ وہ اِس کائنات کے تحفظ کے لئے فکرمند نہیں، جس پر اُس کی زندگی کا مدار ہے۔انسان نے ہی خشکی و تری پر اپنے ہاتھوں بگاڑ وفساد پیدا کردیا ہے،جس کا عذاب اب وہ جھیل رہاہے ۔ ماحولیات کے بگاڑ کی وجہ سے نہ صرف موسم میں تبدیلی آئی ہے بلکہ ہَوا اتنی خراب ہوگئی کہ سانس لینے میں گھٹن محسوس ہوتی ہےجبکہ صاف پانی اور ہوا بھی نایاب ہورہا ہے۔اس لئےانسان کو اپنے اُن اعمال بلکہ کرتوت کا جائزہ لینا چاہیے، جس کی وجہ سے ہمارے لئے صحت مند زندگی گذارنا دشوار ترین ہوتا جارہا ہے۔ظاہر ہے کہ دنیا میں صنعتی انقلاب سے قبل زمین پر سارے قدرتی وسائل پانی، ہوا، جنگل، زمین اور فضا کا نظام انسان، حیوان، نباتات بلکہ جمادات تک کے لئے معتدل و متوازن تھا اور یہ سب قدرتی نظام کے مطابق اپنا کام کر رہے تھے، پھرجب صنعتی انقلاب آیاتو آبادیاں بڑھیں اور ضرورتیں بھی بڑھیں، ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیےانسان نے قدرتی وسائل کا غلط استعمال شروع کیا۔جبکہ ایندھن کے غیرضروری استعمال نے فضا میں حرارت کی چادر تن دی، برف پگھلنے لگے، درخت اور پہاڑ کو کاٹ کاٹ کر مکانات و تعمیرات کے لئے زمین، دروازے، چوکھٹ اور پتھروں کا کثرت سے استعمال کیا جانے لگا،جس کی وجہ سے زمین کا نظام بگڑ گیا، فضائی آلودگی بڑھی، صاف پانی اور ہَوا کی قلت ہوگئی اور ہماری صحت وتوانائی نے ہم سے منہ پھیرلیا، اب ہر آدمی مرض نہیں امراض کا شکار ہے، جس کا اثر اس کے روزمرہ کے کاموں کے پر پڑا ہے اوروہ گھٹن اور کرب میں جی رہا ہے۔فضا کی شفافیت کو سب سے زیادہ متاثر اور آلودہ پلاسٹک کے استعمال نے کیا ۔ دنیا میں دس لاکھ پلاسٹک پانی کےبوتل ہر ایک منٹ میں خریدے جارہے ہیں، ایک سال میں پانچ لاکھ کروڑ پلاسٹک بیگ استعمال ہورہے ہیں، یہ پلاسٹک پانی، ہوا اور زمین کی قوت ِنمو تک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ انسانوں کے ذریعہ پانی کا بھی غیرضروری استعمال ہورہا ہے، پہلے پانی، کنویں، تالاب اور دریاؤں میں جمع ہوجاتا تھااور ان کا مصرف سال بھر لیا جاتا تھا، لیکن اب کنویں اور تالاب ماضی کی داستان بن گئے ہیں۔ زمین میں انگنت وجوہات سے پانی جذب کرنے کی صلاحیت کمزور ہوگئی، اس لئے پینے کے پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خارجی طورپر سینچائی کے نظم کی وجہ سے پیداوار پر اخراجات بڑھ گئے ہیں، اشیائے خوردنی اور غذائی اجناس مہنگے ہوگئے۔فصل اور پھلوں کے وزن بڑھانے سے لے کر، کپڑے، برتن دھونے، انسانی اعضاء کو جلد جوانی کی دہلیز تک پہونچا نے تک کے لئے قانونی اور غیرقانونی طورپر کیمیکل اور کھاد کا استعمال ہوتا ہے۔ پھلوں کو خوشنما، دیدہ زیب، خوبصورت دِکھنے کے لئے بھی کیمیکل کا لیپ کیا جاتا ہے۔ کھاد اور کیمیکل کے جو ذرات باہر رہ جاتے ہیں،وہ فضائی آلودگی پیدا کرتے ہیں اور جو غذائی اجناس اور پھلوں کے ذریعہ ہمارے جسم میں پہونچتے ہیں وہ ہماری صحت کو متاثر کرتے ہیں، یہی حال کھانے کے تیل اور مصالحہ جات کا ہے۔ کیمیکل کے علاوہ مصالحہ جات میں اینٹوں کو پس کر ملانے کی روایت بھی عام ہے۔ یہ کیمیکل نالے کے راستے دریاؤں کے پانی تک پہونچتے ہیں جو پانی میں موجود مخلوق کو بھی موت کی نیند سلادیتے ہیں۔ ماحول کو آلودہ کرنے میں کچڑا کا بھی بڑا کردار ہے، اس کی ری سائکلنگ اور آبادی سے اٹھانے اور اس کو ختم کرنے کا موثر نظام موجود نہیں ہے، جو فضائی آلودگی کا ایک اہم سبب ہے۔موٹر گاڑیوں کے دھنویں سے بھی فضا آلودہ ہوتی ہے، اس لئے اگر کائنات کو بچانا ہے تو گاڑیوں کے دُھنویں سے بچانے کے لئےکوئی طریقہ ڈھونڈنا ہوگا۔ ہمیں اس فضائی آلودگی کے نقصان کا اندازہ ہو یا نہ ہو لیکن سچ یہی ہے کہ اس سے کائنات اور حیاتیاتی امور کو سخت نقصان پہونچ رہا ہے۔ان حالات میں کائنات کے تحفظ کے لئے فکرمند ہونا ہر فرد کے لئے ضروری ہے ۔ہرآدمی اگر عہد کرے کہ ہم اس کام کے لئےکوشش کریں گےاور حکومتیں تحفظ کائنات کے لئے بنائے گئے منصوبوں کو ایمانداری سے زمین پر اُتاریں تو ہم زمین پر منڈلاتے خطرات کو ختم تو نہیںکرسکتے تاہم کم ضرورکرسکتے ہیں۔