غورطلب
محمد امین میر
جموں و کشمیر میں زمینوں کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کو حکمرانی کے شعبے میں ایک انقلابی قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ کمزور کاغذی جمع بندیاں، جو کبھی پٹواری خانوں میں پڑی دھول کھا رہی تھیں، اب ایک آن لائن عوامی نظام کا حصہ بن چکی ہیں جو شفافیت، رسائی اور انصاف کا وعدہ کرتی ہیں۔مگر اس بڑی کامیابی کے پیچھے ایک خاموش مگر سنگین بحران پنہاں ہے۔نامکمل سروے نمبرز، خاندانوں کے اندر مشترکہ حصوں کی غیر واضح تقسیم اور زمینی حقائق و ڈیجیٹل ریکارڈ کے درمیان بڑھتا ہوا تضاد۔لاکھوں زمینوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل کرنے کے باوجود حکومت ابھی تک ایک نہایت اہم پہلو،زمین کی اصل ملکیت اور عملی تقسیم کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے، خاص طور پر خاندانوں کے درمیان۔ اس خاموش کوتاہی کا بوجھ ہزاروں دیہی خاندانوں پر پڑ رہا ہے جو پرانے ریکارڈ اور قانونی رکاوٹوں کے درمیان پھنستے جا رہے ہیں۔جیسا کہ عالمی بینک کے سینئر لینڈ اکنامسٹ ڈاکٹر کلاوس ڈیننگر کہتے ہیں:’’ڈیجیٹلائزیشن آسمان کے نقشے کی مانند ہے، لیکن جب تک ستارے — یعنی آپ کے اصل پلاٹ — زمین پر درست طور پر طے نہ ہوں، آپ اندھیرے میں ہی رہیں گے۔‘‘جنوبی اور شمالی کشمیر کے کئی دیہات میں ایک جیسی صورتحال سامنے آ رہی ہے۔ڈیجیٹل ریکارڈ میں ایک ہی سروے نمبر، متعدد خاندانی شرکاء، لیکن عملی قبضہ صرف ایک یا دو افراد کے پاس۔
مثال کے طور پر کولگام کے ایک گاؤں میں سروے نمبر 792 میں پانچ بھائیوں کو مشترکہ مالک کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ حقیقت میں، پچھلے بیس برسوں سے صرف ایک بھائی زمین کاشت کر رہا ہے جبکہ باقی بھائی غیر رسمی خاندانی تقسیم کے تحت دوسری جگہ منتقل ہو چکے ہیں۔ اب جبکہ جمع بندی آن لائن ہو گئی ہے، یہ تضاد مزید واضح اور پیچیدہ ہو گیا ہے۔جب بھی قرض کی درخواست، فصل بیمہ کلیم یا زمین کا کوئی تنازعہ سامنے آتا ہے تو اصل قبضے اور درج ریکارڈ کے درمیان فرق الجھن، تاخیر اور کبھی کبھار قانونی کشمکش کا سبب بنتا ہے۔اس تضاد کو دور کرنے کا قانونی طریقہ خاندانی سیٹلمنٹ کے ذریعے ہے جو سب رجسٹرار کے دفتر میں رجسٹر کیا جاتا ہے، لیکن اس میں اسٹامپ ڈیوٹی، قانونی دستاویزات اور طویل کارروائی شامل ہے،جو کہ ایک غریب کسان خاندان کے لیے بہت بڑا بوجھ ہے۔یہی نہیں، رجسٹرڈ سیٹلمنٹ کے بعد بھی فرد بدلی (میوٹیشن) اور ’’تتیمہ شجرا‘‘ یعنی ذیلی نقشہ بنوانا ضروری ہوتا ہے تاکہ ریکارڈ کو عملی طور پر قابل استعمال بنایا جا سکے۔ بصورت دیگر، قانونی طور پر رجسٹر شدہ دستاویز بھی عملی میدان میں غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔زمین سے متعلق پالیسی ماہر ڈاکٹر رولف سٹیگمن کا کہنا ہے:’’جب قانونی طریقہ کار بہت مہنگا ہو جائے تو زمین کی انتظامیہ ناکام ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے ایسے حل درکار ہیں جو سستے اور مقامی طور پر قابلِ عمل ہوں۔‘‘
جموں و کشمیر میں زمینوں کی دوبارہ جامع حد بندی شاید ممکن نہ ہو، لیکن ریونیو ڈیپارٹمنٹ ایک کم خرچ اور فیلڈ پر مبنی طریقہ اختیار کر سکتا ہے تاکہ سروے نمبرز کو عملی طور پر درست اور اپ ڈیٹ کیا جا سکے۔اس طریقہ کار کی شکل یہ ہو سکتی ہے۔تحصیلدار کی نگرانی میں گاؤں کی سطح پر کیمپ منعقد کیے جائیں۔ پٹواری، گرداور، لمبردار اور چوکیدار کے ساتھ مل کر ہر سروے نمبر کی جسمانی جانچ کریں۔ خاندانی ارکان کو بلایا جائے، قبضے کی تصدیق کی جائے اور ایک ابتدائی ’’تتیمہ‘‘ (ذیلی خاکہ) تیار کیا جائے۔ اگر سب کا اتفاق ہو، تو فرد بدلی کی جائے، اور اگر اختلاف ہو تو اسے زیر التوا رکھا جائے۔ایسے کیمپس سے نہ صرف شفافیت آئے گی بلکہ لوگوں کا زمین کے ریکارڈ سسٹم پر اعتماد بھی بحال ہوگا۔ یہ ماڈل عالمی لینڈ گورننس کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے، جہاں مقامی اور عوامی شراکت پر زور دیا جاتا ہے۔اگر زمین پر جسمانی تصدیق نہ کی گئی تو ڈیجیٹل جمع بندیاں وقت کے ساتھ غیر معتبر ہو جائیں گی۔ یہ ماضی کی ملکیت دکھاتی ہیں، حال کی نہیں۔
مثال کے طور پر کولگام ضلع میں ایک بیوہ عورت کو فصل بیمہ اسکیم کے تحت معاوضہ نہیں ملا کیونکہ ریکارڈ میں اب بھی اس کے مرحوم سسر کا نام بطور مالک درج ہے۔ ایسے معاملات میں سرکاری فلاحی اسکیمیں — جیسے پی ایم کسان، اراضی معاوضہ، یا سبسڈی — پرانے ڈیٹا کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں۔اکثر ریونیو اہلکاروں کو تاخیر اور تضادات کا مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ بغیر قانونی دستاویزات یا تصدیق شدہ قبضے کے ریکارڈ اپ ڈیٹ نہیں کر سکتے۔
فوری اقدامات کی تجاویز:
(۱) سیٹلمنٹ کیمپس کا انعقاد: بلاک کی سطح پر دو روزہ کیمپس شروع کیے جائیں تاکہ زمینی قبضے اور خاندانی حصص کی تصدیق کی جا سکے۔(۲) فیلڈ اسٹاف کو بااختیار بنائیں: پٹواریوں اور گرداوروں کو وقت، سفر الاؤنس اور قانونی مدد فراہم کی جائے۔(۳) فرد بدلی کے اصول آسان بنائیں: جہاں تمام قانونی وارث متفق ہوں، وہاں موجودہ قبضے کی بنیاد پر فرد بدلی کی اجازت دی جائے، بغیر عدالت کے حکم کے۔(۴) تتیمہ یونٹ تعینات کریں: ذیلی نقشہ تیار کرنے کے لیے جونیئر اسٹاف یا ٹھیکے پر سروے کرنے والے اہلکاروں کو ان کیمپس میں شامل کیا جائے۔(۵) پنچایتوں کو شامل کریں: سرپنچ حضرات کو ثالثی اور خاندانی اتفاق کی تصدیق کے لیے شامل کیا جائے۔(۶) پائلٹ اور توسیع: اننت ناگ، بارہمولہ اور بڈگام جیسے اضلاع میں 50 آزمائشی گاؤں سے آغاز کیا جائے اور کامیابی کی بنیاد پر پورے خطے میں اس کا اطلاق ہو۔
ڈورو کے72الہ کسان عبدالغنی کا کہنا ہے:’’ہمارے والد کی زمین اب بھی ان کے نام پر ہے۔ ہم نے آپس میں کئی سال پہلے تقسیم کر لی تھی، مگر رجسٹری کرانے کی سکت نہیں تھی۔ اب پٹواری کہتا ہے بغیر رجسٹری کے کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘
گاندر بل کی نور جہاں کہتی ہیں:’’میرے شوہر نے وفات سے قبل زبانی طور پر زمین مجھے دی تھی۔ گاؤں کا ہر شخص جانتا ہے یہ زمین میری ہے، مگر آن لائن ریکارڈ کچھ اور کہتا ہے۔ میرے پاس عدالت جانے کے پیسے نہیں۔‘‘یہ صرف چند مثالیں نہیں بلکہ وادی بھر میں جاری ایک خاموش جدوجہد کی نمائندگی کرتی ہیں۔
ڈیجیٹلائزیشن اپنی جگہ، لیکن اس کی اصل قدر تبھی ہے جب یہ زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو۔ موجودہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ گاؤں بہ گاؤں، خاندان بہ خاندان، مقامی علم اور عوامی شراکت سے سروے نمبرز کو درست کیا جائے۔جیسا کہ معروف محقق پروفیسر لِز آلڈن ویلی نے کہا:’’نقشے زمین پر انصاف نہیں لاتے، یہ کام لوگ کرتے ہیں۔‘‘کشمیر میں انصاف کا سفر صرف سرورز سے نہیں بلکہ کھیتوں سے ہو کر گزرتا ہے۔
رابطہ۔9541104955
[email protected]