ڈپٹی نذیر احمدانگریزی علوم کو انگریزی میں ہی پڑھنے کو ضروری سمجھتے تھے۔ان کے بقول انگریزی سے فرار اب نا ممکن ہے کیونکہ اب ہر طرف انگریزی کا دو دورہ ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ان علو کو ترجمے کے بجائے انگریزی میں ہی سیکھا جائے۔وہ اپنے بیٹے بشیر احمد کو ایک خط میں لکھتے ہیں :"اب انگریزی کا یہ حال ہے کہ گنجینہ علوم ہے۔یونانی اور عربی اور سنسکرت اور لیٹن وغیرہ میں جو ذخیرے تھے ،انگریزوں نے سب اپنی زبان میں جمع کرلئے ہیں"۔نذیر احمد ،موعظہ حسنہ:37) وہ مسلمانوں کو یورپ کی مثال دیتے ہیں کہ آج جو ترقی ہم وہاں دیکھ رہے ہیں ،اس کے پیچھے "علم و ہنر" کا راز ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اس کو سیکھنا چا ہئے۔وہ مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ تعلیم کو نوکری کے حصول کے لئے نہ پڑھیں۔وہ تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ادنیٰ اور اعلیٰ۔ادنیٰ تعلیم سے وہ مروجہ تعلیم مراد ہے جس کو اکثر لوگ حاصل کریں۔وہ کہتے ہیںکہ اس درجے کی تعلیم کے حصول کے بعد اگر انسان سماج کیلئے نفع بخش نہ ہو ،نقصان دہ بھی نہ ہونا چا ہئے۔اس کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم سماج کے کم لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں۔انھیں ہر حال میں سماج کیلئے فائدہ مند ہونا چا ہئے۔ وہ دینی تعلیم کو بھی دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں۔عام اور خاص۔''عام وہ ہے جس کو شریعت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور خاص وہی درویشی فقیری وغیرہ جس کیلئے خدا خاص خاص طبیعتیں پیدا کرتا ہے۔"(لکچروں کا مجموعہ اول ،ص:495)
جدید علوم کے حصول کی ضرورت کو اجاگرکرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ آج کل اس تعلیم کے بغیر اسلام کا عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہنا مشکل ہے۔ان کے بقول ورنہ اسلام "محتاج اور ذلیل خوار" ہو کر رہے گا۔(لکچروں کا مجموعہ اول :267) وہ مسلمانوں کو برٹش حکومت کی وفادار رعایا بن کر جدید علوم کے ذریعے دنیوی عزت ودولت حاصل کرنے کو اعلائے کلمۃ اللہ قرار دیتے ہیں۔ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ جو پڑھنے سے جی چرائے انھیں چاہئے کہ وہ دوسروں کو پیسہ دے کر پڑھوائیں۔اس طرح ان کا یہ عمل بھی اعلائے کلمۃ اللہ میں شمار ہوگا کیونکہ حضورؐ کا فرمان ہے ''انما الاعمال با لنیات''۔وہ آسودگی ، قائم مزاجی ،استغنااور سیر چشمی جیسے صفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ چیزیں کسی دولت یا حکومت سے نہیں بلکہ علم سے حاصل ہوتی ہیں۔ وہ علم کو جنت کا میوہ قرار دیتے ہیں اور اس کی لذت وہی جان سکتا ہے جو اس کو حاصل کرے کیو نکہ بیان کرنے سے اس کی کیفیت ظا ہر نہیں ہوتی۔(نذیر احمد ،بنات النعش،ص:32)
ڈپٹی نذیر احمد کا ماننا ہے کہ اسلام کو زیادہ مسلمانوں سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔اْس وقت چو نکہ عیسائیت کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی تھی ،لہٰذا لوگ انگریزی علوم کو پڑ ھنے سے گریز کر تے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اندیشہ تھا کہ انگریزی پڑھنے سے عیسائی ہوجائیں گے۔وہ خدشہ جب جاتا رہا تو دوسرے خدشے نے جنم لیا کہ انگریزی تعلیم لا مذہبی سکھاتی ہے اور یہ خیال پہلے وا لے خیال سے کہیں زیادہ بے بنیاد ہے۔وہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اسلام ،عیسائیت اور انگریزی تعلیم تینوں سے واقف ہیں۔اگر انگریزی تعلیم سے اسلام کو خطرہ ہے تو اسے زیادہ عیسائیت کو خطرہ ہے۔وہ نہ صرف مسلمانوں کی بہتری اسی میںسمجھتے تھے کہ جدید علوم کو تکمیل کے ساتھ حاصل کریں بلکہ جدید علوم کے حصول کو وقت کا جہاد تک قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مولوی حضرات اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے۔(لکچروں کا مجموعہ اول :170) وہ مسلمانوں کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں۔ایک قسم ا ن لوگوں کی ہے جو بامقدور ہیں یعنی جو اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچ تو اٹھا سکتے ہیں لیکن یہ لوگ تعلیم کو اپنے لئے ضروری نہیں سمجھتے۔یہ جدید تعلیم کو اس لئے ضروری نہیں سمجھتے کیو نکہ ان کے نزدیک یہ تعلیم حصول معاش کیلئے ہے ،جس کی انھیں ضرورت نہیں۔جہاں تک دینی تعلیم کا تعلق ہے ،وہ تو ان کیلئے موجب عار ہے۔ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ اس طرح کے لوگوں کی اصلاح دیر طلب ہے۔لہٰذا کسی طرح ان سے پیسے وصول کر کے غریب لوگوں کی تعلیم کا بندو بست کیا جائے۔(لکچروں کا مجموعہ اول،ص :250) دوسری قسم کے مسلمان ان کے نزدیک وہ ہیں جو پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن غربت کی وجہ سے تعلیم کا خرچہ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ان کے مطابق مروجہ تعلیم میں تعاون کرنا ثواب ہے اور یہ مدد"خیرات کے مروجہ طریقوں سے بہتر ہے۔" جو لوگوں کے لئے نفع بخش اور اللہ کے ہاں مقبول بھی ہے۔ وہ چا ہتے تھے کہ لوگ جدید تعلیم حاصل کر کے کسی ایک میدان میں مہارت حاصل کریں۔وہی لوگ سماج کیلئے فائدہ مند ہیں۔لکھتے ہیں:" تھوڑے پورے تعلیم یافتہ بہت زیادہ مفید ہوں گے اپنے حق میں ،قوم کے حق میں ،ملک کے حق میں ،گونمنٹ کے حق میں بہ نسبت بہت سے ادھورے جیک آف آل ماسٹر آف نن کے۔"(لکچروں کا مجموعہ اول ،ص:252)
مولوی نذیر احمد اخلاقیات پر بہت زور دیتے نظر آتے ہیں۔ان کے نزدیک تعلیم اخلاقیات کے بغیر فائدہ پہنچانے والی نہیں ہے اور اخلاق مذہب کے بغیر درست نہیں ہو سکتے۔جو اخلاق سماج کے اثرات سے پیدا ہوں گے وہ مضبوط نہیں ہوں گے۔ان کی بنیاد کمزور ہوگی۔اسلام ایک جامع دستور العمل ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں :’’تعلیم کیسی ہی مکمل کیوں نہ ہو مارلز کے فارمیشن میں دخل عظیم ہے لیکن جو مارلز صرف سوسائٹی کے انفلو نس پر مبنی ہوں راسخ نہیں ہو سکتے۔کمثل العنکبوت اتخذت بیتا وان اوھن البیوت لبیت العنکبوت اگر دین و مذہب سے الگ رہ کر لوگوں کو تعلیم دی جائے تو میرے نزدیک اس کی ایسی مثال ہوگی کہ چلبلے اور شریر لڑے کو راجرز کا چاقو کھیلنے کے لئے پکڑا دیا جائے وہ ضرور اپنا ہاتھ کاٹ کر رہے گا۔"(لکچروں کا مجموعہ :265)
تعلیم نسواں
مولوی (ڈپٹی )نذیر احمد مرد اور عورت دونوں کو کوئی ہنر سیکھنے پر زور دیتے ہیں جو زندگی میں ان کے کام آئے۔ان کے مطابق جن عورتوں نے وقت کی قدر کر کے ہنر سیکھنے کے ساتھ لیاقت بھی حاصل کی ،وہ مردوں کے مقابلے میں پیچھے نہیں ہے۔ وہ ان لوگوں پر افسوس کرتے نظر آتے ہیں جو عورتوں کے پڑھانے کو عیب اور گناہ تصور نہیں کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ کیا علم انسان کی اصلاح کرتا ہے یا بگاڑتا ہے۔اگر علم اصلاح کے بجائے بگاڑ پیدا کرتا ہے تو اس صورت میں مردوں کو بھی پڑھانے سے گریز کرانا چاہئے تاکہ وہ بگڑنے سے بچ جائیں اوراگر مرد بگڑیں گے تو اس صورت میں ان کا اثر عورتوں پر بھی پڑے گا۔(نذیراحمد ،مراۃلعروس،ص:9) وہ مزید لکھتے ہیں :" پس جو لوگ عورتوں کو علم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں گویا ان کو سچی اور حقیقی اور پاکیزہ اور بے لوث اور کھری اور پائیدار نیک دلی سے روکتے ہیں۔"(مراۃ العروس،ص11)۔نذیر احمد کے مطابق علم انسان میں بگاڑ کے بجائے اچھی خوبیاں پیدا کرتا ہے۔
مسلم معاشرہ میں جہالت عام تھی اس لیے لوگ سمجھتے تھے کہ عورتوں کو پڑھنا پڑھانا نہیں چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ آنکھوں کے اندھوں کے مقابلے میں قابل رحم انسان وہ ہے جو تعلیم سے محروم ہو کیوں کہ وہ دل کا اندھا ہوتا ہے۔انھوں نے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ عورتوں کے فرق کو واضح کیا اور کہاجاہل عورتوں کے عقا ئد نا درست اور بد سلیقہ بھی ہوتے ہیں اور یہ مختلف توہمات میں گرفتار بھی ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ نقصان اٹھاتی ہیں۔یوں وہ تعلیم کو صرف مردوں تک محدود نہیں رکھنا چاہتے تھے بلکہ عورتوں کو بھی تعلیم کے نور سے پردے میں رہتے ہوئے منور کرنا چاہتے تھے۔ان کا ماننا ہے کہ پردے سے عورت کی عفت و عصمت کی حفاظت ہوتی ہے اور ساتھ ہی معاشرہ بھی برائیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ سرسید ،حالی ،نذیر احمد علی گڑھ تحریک کے تینوں اساطین پردے کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک حجاب میں رہ کر بھی مسلم خاتون آگے بڑھ سکتی اور ترقی کر سکتی ہے۔نذیر احمد نے پردے کے مخالفین کو خدا کے معترضین میں شمار کیا ہے۔
قدیم تعلیم نصاب
نذیر احمد نے جب جدید علوم و فنون کے رول کو ترقی یافتہ دنیا میں دیکھاتو انھیں ہندوستان کا مسلم ظام تعلیم فرسودہ ظر آنے لگالہٰذانھوں نے اس روایتی تعلیمی نظام پر تنقید کی۔ان کے مطابق قدیم علوم و فنون کی اگر چہ ایک لمبی فہرست پیش کی جاسکتی ہے لیکن بنیادی طور پر اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔"زبان دانی اور معقولات"۔انھوں نے مسلمانوں کی خرابیوں کی اصل جڑ قدیم علوم اور روایتی ادب کو قرار دیا۔وہ قدیم علوم میں زیادہ تر ادب (لٹریچر )کے مخالف تھے کیوں کہ یہ لٹریچر"جھوٹ اور خوشامد "سے بھرا پڑا ہے اور توہمات اور مفروضات بے اصل کو حقائق بناتا ہے۔وہ مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب اسی قدیم تعلیمی نصاب کو بتاتے ہیں کیوں کہ یہ اس وقت کا تعلیمی نصاب تھا جب مسلمان ہر میدا ن میں آگے تھے۔ان کے مطابق قدیم نصاب تعلیم کو پڑھنے سے انسان پاگل اور دیوانہ ہو جا تا ہے اور یہ تعلیم انسان کو جھگڑالو اور بحث وتکرار کا عادی بناتا ہے۔ یہ انسان کو حقائق سے دور رکھتا ہے۔ نذیر احمد اس علم کو جہل قرار دیتے ہیں جو دینی و دیناوی لحاظ سے فائدہ مند نہ ہو۔ایک جگہ اپنی تقریر میں اس طرح کا اظہار خیال کرتے ہیں "مسلمانوں میں ایز اے نیشن(بحیثیت قوم )جتنی خرابیاں ہیں کل تو نہیں اکثر اسی لٹریچر نے پیداکی ہیں۔یہ لٹریچر جھوٹ اور خوشامد سکھاتا ،یہ لٹریچر واقعات اور موجودات کی اصلی خوبی کو دباتا اور مٹاتا،یہ لٹریچر توہمات اور مفروضات بے اصل کو فیکٹس بناتا،یہ لٹریچر نالائق مولویوں کو شورش دلاتا،خیالات اور مضامین کے اعتبار سے تمام دنیا کے لٹریچروں میں اس زبان کے لٹریچر سے بدتر اور کوئی لٹریچر نہیں۔اس نے قومی مذاق کو ایسا بگاڑا اور اس قدر تباہ کیا کہ ہم لوگوں کو واقعات میں مزا نہیں ملتا۔ مسلمانوں کی تعلیم کی اصلاح میں مجھ کو سب سے زیادہ خدشہ اسی کا ہے کہ ان کی طبیعتیں کہیں مدتوں میں جا کرتعلیم جدیدسے مناسبت پیدا کر دیں گے''۔(مظہر مہدی،مسلم معاشرے کی تشکیل نو ،سرسید،نذیر احمد ،حالی اورشبلی کے افکار کا مطالعہ،ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز دلی ،1996،ص33)
ڈپٹی نذیر احمدمسلمانوںمیں جدید تعلیم کی کمی ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے کیو نکہ اس کے بغیر ترقی کرنا مشکل ہے۔جس سے انسان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ان کے مطابق اللہ نے دنیاوی علوم کو بندوں پر چھوڑ دیا ہے تا کہ لوگ اسے حاصل کرکے مطمئن زندگی گزار سکیں لیکن علمائے وقت طلب دنیا کو کفر سمجھتے ہیں اور انگریزی تعلیم سے تعصب برتتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ علماء ریل کے سفر کے ذریعے فائدہ تو اٹھاتے ہیں لیکن ریل ایجاد کرنے والے علم سے تعصب برتتے ہیں جو ایک حماقت ہے۔