ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
ڈپریشن ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو انسان کے آج پر اثر انداز ہو کر اسکے آنے والے کل کی خوشیوں کو نگل جاتی ہے ۔ ایک چھوٹا سالفظ ’’ ڈپریشن‘‘اصل میں کتنا وزن دار ہےاس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ ڈپریشن انسان کو زندگی کے ایک ایسے موڑ پر لے جاتا ہے جہاں اس کو خود یاد نہیں رہتا کہ اصل میں اس کیفیت کی وجہ کیا تھی۔
یہ اندر ہی اندر انسان کو دیمک کی طرح کھاتا جاتا ہے ۔ بظاہر وہ انسان ایک عمارت کی طرح کھڑا ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ عمارت كھوکھلی ہوتی ہے اور دیمک لگی ہر چیز کی طرح ، ایک دن ایسا آتا ہے جب یہ كھوکھلی عمارت گر جاتی ہے ، انسان ٹوٹ جاتا ہے، ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے، مایوسی کی گھٹا میں ایک کالے بادل کی مانند چھا جاتی ہے ۔
ڈپریشن ایک ایسی کیفیت ہے جس میں سب کچھ مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ ایسے جیسے ہر وہ چیز جو کبھی خوشی کا باعث تھی، اب خوشی نہ دیتی ہو ۔ جیسے زندگی کے سارے رنگ پھیکے پر جائیں۔ انسان سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ کیا وہ کبھی خوش بھی تھا ؟نہ صبح اٹھنے کا من کرے اور نہ رات کو سونے کا ۔ جیسے ایک گہرا سمندر ہو اور انسان اس کے اندھیروں میں ڈوبتا چلا جائے ۔ گہرا اور گہرا ۔ اور پھر اتنی گہرائی کہ بس چاروں طرف گھپ اندھیرا۔
ڈپریشن شروع میں ایک رد عمل کی طرح ہے ۔ اس زندگی کا رد عمل جو ہمارے ہاتھ میں نہ کبھی تھی اور نہ کبھی ہوگی ۔ ان پریشانیوں کا رد عمل جن کو ختم کرنا انسان کے لئے ناممکن محسوس ہوتا ہے۔درحقیقت یہ ہر اس چیز کا انکار ہے، جسے ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں،ڈپریشن کی علامات میں شامل ہوسکتے ہیں۔
افسردہ مزاج:۔ لطف اندوز ہونے والی سرگرمیوں میں دلچسپی کم ہونا یا اس طرح کی خوشی محسوس نہ ہونا جیسی پہلے ہوا کرتی تھیں،جنسی خواہش میں کمی ،بھوک میں تبدیلی،غیر ارادی وزن میں کمی یا زیادتی،بہت زیادہ یا بہت کم سو جانا،اشتعال انگیزی ، اور بےچینی،سست تحریک اور تقریر،تھکاوٹ یا توانائی کا کم ہونا،بے وقعت یا جرم کا احساس،سوچنے ، دھیان دینے ، یا فیصلے کرنے میں دشواری،موت یا خودکشی کی کوشش کے بار بار خیالات،جدید ترین تحقیق کے مطابق ، مردوں کے مقابلے میں خواتین میں افسردگی کا تناسب تقریبا دو گنا عام ہے۔ذیل میں ڈپریشن کی کچھ علامتیں ہیں جو خواتین میں اکثر دکھائی دیتی ہیں۔چڑچڑاپن،اضطراب،موڈ کا بار بار بدلنا،تھکاوٹ، منفی خیالات پر روشنی ڈالنا،نیز کچھ قسم کا ڈپریشن خواتین میں بھی انوکھا ہوتا ہے۔ جیسےپوسٹ پارٹم ڈپریشن،پری مینسٹروول ڈسفورک ڈسآرڈر۔ڈپریشن کے شکار مرد خواتین سے زیادہ شراب پینے ، غصہ ظاہر کرنے اور رسک لینے میں مشغول ہونے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔مردوں میں افسردگی کی دیگر علامات میں یہ شامل ہوسکتے ہیں۔خاندانوں اور معاشرتی حالات سے گریز کرنا،بغیر وقفے کے کام کرنا،کام اور خاندانی ذمہ داریوں کو برقرار رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا،تعلقات میں بدسلوکی یا قابو پانے کا رویے رکھنا۔
اسکول یا کالج میں شخص ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے ،اس میں شخص پہلی بار دوسرے طرز زندگی ، ثقافتوں اور تجربات سے پہلی بار نمٹ رہا ہوتا ہے۔کچھ طلباء کو ان تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ ڈپریشن ، اضطراب یا دونوں کو پیدا کرسکتے ہیں۔اسکول یا کالج کے طلباء میں ڈپریشن کی علامات شامل ہوسکتی ہیں۔اسکول کے کام پر توجہ دینے میں دشواری،نیند نہ آنا،بہت زیادہ سونا،بھوک میں کمی یا اضافہ،ان معاشرتی حالات اور سرگرمیوں سے گریز، جس سے وہ لطف اندوز ہوتے تھے۔جسمانی تبدیلیاں ، ہم مرتبہ کے دباؤ اور دیگر عوامل نوعمروں میں ڈپریشن کا باعث بن سکتے ہیں۔وہ مندرجہ ذیل علامات میں سے کچھ کا تجربہ کرسکتے ہیں:
دوستوں اور رشتہ داروں سے کنارہ کشی کرنا،اسکول کے کام پر توجہ دینے میں دشواری،مجرم ، لاچار ، یا بیکار محسوس کرنا،بےچینی ، جیسے خاموش بیٹھنے سے قاصر ہونا۔
ڈپریشن ک یہ تمام مذکورہ بالا حالتوں پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ جب بھی ڈپریشن کی ابتدائی کیفیات نمودار ہوں۔ آپ اپنے آپ کو مصروف کر لیں۔ چہل قدمی کا اہتمام کریں، عبادت کریں، قرآن مجید کی تلاوت زیادہ سے زیادہ کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر زیادہ سے زیادہ کریں، منفی سوچوں کو ذہن میں جگہ نہ دیں۔ زیادہ سے زیادہ خوش رہنے کی کوشش کریں، آپ کے اردگر دلوگوں میں کوئی نہ کوئی ایک شخص ایسا ہوتا ہے جس سے آپ اپنے دل و دماغ کی کیفیت بیان کر سکتے ہیں جو آپ کو سمجھ سکتا ہے، ایسے کسی بھی شخص کیساتھ ہمیشہ رابطے میں رہیں تاکہ آپ زندگی میں اپنی کھوئی ہوئی امید واپس حاصل کر سکیں ،اس کے علاوہ وقت کو بھی مہلت دیں کہ وہ آپ کو اس کیفیت سے نکال سکے یعنی صبر کا مظاہرہ کریں اور اپنے اندر ہمت پیدا کریں ۔کیونکہ ہر چیز کو واقع ہونے میں میں بھلے وقت نہ لگتا ہو لیکن ختم ہونے میں وقت لگتا ہے ۔انسان کی اپنی انفرادی قوت اور ارادہ بھی اس بیماری پر قابو پانے پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ڈپریشن زندگی کا حصہ ہے ، زندگی صرف دھوپ ہی دھوپ نہیں، نہ چھائوں ہی چھائوں ہے، بلکہ یہ دھوپ اور چھائوں کا ملا جلا سفر ہے ۔ اسلئے ڈپریشن کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے دیں اور نہ ہی اسے اپنے اندر جگہ بنا کر بیٹھنے کی اجازت دیں ، مخالفت اور تردید زندگی کا حصہ ہیں ان کا سامنا کرنے سے نہ گھبرائیں۔
ان سب باتوں کا خیال رکھ کر انسان ڈپریشن جیسی بیماری پر قابو پا سکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر ڈپریشن کسی آکٹوپس کی طرح اس کی ذات کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتا ہے اور پھر باہر نہیں نکلنے دیتا۔
اب اسلام کی نظر میں ڈپریشن کو دیکھتے ہیں۔سب سے پہلی بات کہ ایک مومن کبھی depress ، اللہ کی رحمت سے نا امید و مایوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اللہ کی رحمت سے تو مایوس کافر لوگ ہی ہوتے ہیںجبکہ مومن کا معاملہ ہی الگ ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث نبویؐ میں ہے۔
’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ اس کے ہر کام میں اس کے لئے خیر و بھلائی ہے اور یہ مومن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے ، اگر اسے آسودگی(خوشحالی) حاصل ہو تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، یہ بھی اس کے لئے خیر ہےاور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہےیہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔(مسلم)جب ماضی و مستقبل کے غموں کا دور دورہ ہو ، زندگی غموں میں لپٹی دکھائی دے اور کوئی راہ فرار بھی نہ ملے تو یہ وہ مقام ہے جب بندہ اللہ کا شکر ان انعامات پر کرے تو اللہ حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں اور مزید عطا کرنے کی نوید بھی دیتے ہیں جیسا کہ:’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گااور ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی شدید ہے۔‘‘(ابراہیم:07)
ایک حدیث کے مطا بق ہر بچہ فطرت اسلام پہ پیدا ہوتا ہے۔ جب ہم فطرت سے ہٹ کر چلتے ہیں تو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جب ہم اسلام کے وضع کردہ اصول سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو مسئلہ اس وقت نمودار ہوتا ہے جب یہاں خلل واقع ہوتا ہے۔اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ:’’تمہیں جو کچھ بھی مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرماتا ہے۔‘‘ (الشوریٰ: 30)
اسلام کے ذریعے ہی ہم خوشیاں اور قلبی اطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ چاہنا کہ انسان کی زندگی دکھوں، تکلیفوں اور غموں سے مبرا ہو تو ایسی چاہت ما فوق الفطرت کے سوا کچھ نہیں۔اللہ نے ہمیں ان سے نبٹنے کے طریقے بھی سیکھائے ہیں ،بس ہمیں ان کو عملی جامہ پہنانا ہے۔جیسے کسی بہت پیارے کی وفات پہ ہمارا کیا ردعمل ہونا چاہئے؟ رسول اللہؐ نےاس کا بہترین نمونہ دیا۔ حدیث میں ہے کہ:’’صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے۔‘‘(بخاری:1283)
کوئی بھی تکلیف ملے تو بجائے اس پہ واویلا کرنے کے ہمیں خاموشی اختیار کرنی چاہئےاور کوئی بھی منفی سوچ کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہیں دینا چاہئے، مثلاً میں ہی رہ گیا تھا ؟ ایسا میرے ہی ساتھ ہونا تھا؟ یا میں تھا ہی اسی قابل وغیرہ بلکہ تقدیر کا فیصلہ مانتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے۔شیطان کا کام ہی انسانی دماغ کو وسوسوں سے بھرنا ہے اور اللہ کی رحمت سے دور و نا امید کرنا ہے۔جبکہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔جب انسان کی روحانی طاقت کمزور پڑتی ہے تو شیطان کا وار اور آسان ہو جاتا ہے۔ وہ ہمیں ہر طرح سے خوف و ناامیدی میں مبتلا کی کوشش کرتا ہےجبکہ اللہ فرماتے ہیں:’’کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟‘‘(الزمر:36)جب لگ رہا ہو کہ ہمارے لئےکچھ نہیں اس دنیا میں ، ہمارا کوئی نہیں جسکو ہماری فکر ہو ، جسے ہم سے محبت ہو تو جان لیں ایک عظیم ہستی ایسی بھی ہے جو ہمیں کبھی نہیں بھولتا ، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:’’اور تمہارا ربّ( تمہیں) بھولنے والا نہیں۔‘‘ (المریم:64)
ہمیں اسلام کو اپنی زندگیوں سے ظاہر کرنا ہے، ہمیں اسلام کی تعلیمات کو من و عن قبول کرنا چاہیے۔اسلام ہمیں آداب معاشرت بھی سیکھاتا ہے اور حقوق العباد پر بھی زور دیتا ہے، جب ہم اسلامی اخوت و بھائی چارے پر عمل کریں گے تو ہمارے مسائل کے لئے اچھے سامع بھی ملیں گے اور ہماری تسلی و تشفی بھی ہوجائے گی۔ اگر ہم سے کوئی کسی معاملے میں پریشان ہے اور حل بھی نظروں سے اوجھل ہے تو دعاکریں۔کہا جاتا ہے کہ دعا تو ہوتی ہی قبول ہونے کے لیے ہے، دعا تو عبادت کا مغز ہے۔لہٰذا دعا کو چھوٹا نہ جانئے اور پھر نماز اور صبر سے مدد مانگیں جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے۔ نماز اور صبر سے مدد مانگو۔اپنا ٹارگٹ دنیا کی بجائے آخرت کو بنائیں ، ہر کام میں اللہ کی رضا و خوشنودی کو اولیت دیں۔ انسانوں سے بلاوجہ امیدیں نہ لگائیں بلکہ ہر اُمید اللہ سے باندھیں دنیوی مسائل کا کم شکار ہوں گے۔ ماضی کی پریشانیوں اور مستقبل کے خوف کی بجائے حال پر نظر رکھیں جو ہونا تھا ہو گیا۔ اب ہم بدلنے سے قاصر ہیں، ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں ۔ اللہ تبارک تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط بنانے کی حتی المقدور سعی و کوشش کریں پھر کوئی ٹینشن ٹینشن نہیں اور نہ کوئی غم ۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں خود سے مضبوط تعلق بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
(مضمون نگار ایک معروف اسلامی اسکالر ہیں )
[email protected]