ایس معشوق احمد
نظم میں کائنات کی ہر ظاہری اور باطنی شئے کو موضوع بنایا جا سکتا ہے اور ایک شاعر نظم میں اپنے احساسات و جذبات، شوریدہ سری ، رنج و الم ، مصیبت اور مصائب ، دُکھ سُکھ، ذہنی اور سیاسی خلفشار ، اپنوں سے بچھڑنا ، ماضی کا کرب ، مستقبل کے خواب اور بیتے لمحات کی یادوں کو بھی موضوع بنا سکتا ہے۔بعض شعراء نے مناظر فطرت کے گیت گائے تو کچھ نے ارد گرد کے حالات و واقعات کو دوام بخشا۔ڈاکٹر گلزار احمد وانی نے تنقید اور تخلیق دونوں میں اپنی پہچان بنائی ہے۔اب تک تنقیدی مضامین اور انشائیوں کی ایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر لا چکے ہیں۔ اب شاعری میں بھی اپنے قلم کے جلوے بکھیرے رہے ہیں اور حال ہی میں ان کی نظموں کا پہلا گلدستہ منظر عام پر آیا ہے۔مسافر گرد سفر کی پرواہ نہیں کرتے لیکن ڈاکٹر گلزار وانی نے ادبی دنیا کا جو دو دہائیوں سے سفر طے کیا، نہ صرف ان تجربات کو قلمبند کیا بلکہ اس گرد کی بھی قدر کی اور’’ گرد سفر‘‘ کے عنوان سے شعری مجموعہ 2023 ء میں منظر عام پر لایا۔ اس مجموعے میں مختلف النوع تہتر نظمیں شامل ہیں۔غزل بدنام بھی ہیں اور ازحد مقبول بھی ۔ایسی نہایت ہی قلیل شعری کاوشیں ہیں جن میں کوئی بھی غزل شامل نہ ہو۔ڈاکٹر گلزار نے یہ تجربہ کیا ہے اور ’’گرد سفر‘‘ میں فقط نظموں کو شامل کیا ہے۔
’’گرد سفر‘‘ میں گلزار وانی نے نوبہار کا استقبال کیا ہے اور بہار آنے تک حوصلہ رکھنا اور انتظار کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے، کبھی زندگی کو آواز دی کہ زندگی اے زندگی میرا کارواں کہاں ہے؟ تو کبھی یہ دعویٰ کیا کہ تم میرے ہو، چاہیے عہد مہربان رہے نہ رہے، کبھی کرب ہستی کی رات کی ادھوری بات سنائی تو کبھی زندگی لرزاں ہے، کا خدشہ ظاہر کیا۔ کبھی یہ باور کراتے ہیں کہ میرے خواب ہر گھڑی بے نام منزل کا ادراک رکھتے ہیں تو کبھی کوچہ دل سے منہ موڑ کر آگئے اور اس احساس میں ایک نظم سنائی کہ جانے خدا اب آگے۔گلزار وانی نے سائے چنار کے کبھی محبت اور گلاب کا قصہ چھیڑا تو کبھی یہ ناگزیر سچ لبوں پر لائے کہ لفظ کبھی مرتے نہیں ہیں۔ انہوں نے جلوہ خورشید سڑک پر بیٹھ کر وہاں دیکھا جہاں میل کا پتھر ہے اور وہیں بیٹھ کر زیست ، اداس شہر ، شکستگی ، درد اور سناٹے پر خامہ فرسائی کی۔انہوں نے گرد سفر میں صبح فردا ، دھند ، فصل خزاں کا جستہ جستہ تذکرہ بھی کیا اور سرزمین آبشار کی باتیں راستے اور رہگزر پر بیٹھ کر کیں۔’’گرد سفر ‘‘میں گلزار وانی کا اسلوب اور انداز بیان کیسا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
موسم دبے پاؤں آتے ہیں اور
آکر چلے جاتے ہیں
پر کوئی اپنی زردی بکھرا کر
جاتا ہے
کوئی اپنی تابندگی پتیوں میں
بھر کر جاتا ہے
کوئی اپنی حدت سے
نیل کنول کھلاتا ہے
تو کوئی اپنی سرسراہٹ سے
پتیوں کو گراتا ہے
ہر کوئی اپنا کام کرکے
چلا جاتا ہے
( نظم _ ۔بہار آنے تک )
پہاڑوں کے اس پار سے
چاند چمک رہا ہے
میں اسے پکڑنے کے لئے
برہنہ پا دوڈ رہا ہوں
پر جتنا بھی دوڈتا ہوں
وہ مجھ سے اتنا بھاگتا ہے
( نظم _ ۔محبت )
گاؤں کی راہیں ہے کیسی راہیں
پھیلا رہی ہیں محبت کی باہیں
نہ انس و محبت میں کچھ کمی ہے
وہ کھیتوں میں جو رس گھولتی ہے
وہ پانی میں مینڈکیں جو بولتی ہیں
وہ تتلیوں کے خوشنما سے پر ہیں
بنے منڈھیروں پر جن کے گھر ہیں
گاؤں کی راہیں ہے کیسی راہیں
ہیں پھول بن بن کے چومتی ہیں
میرے اردگرد جو گھومتی ہیں
وہ تتلیاں وہ بلبل و مینا
وہ دھوپ اور وہ رینا
گاؤں کی راہیں ہے کیسی راہیں
( نظم _ ۔راستے )
گرد سفر میں شامل نظموں میں عروضی پابندیوں کا خیال رکھا گیا ہے یا نہیں، اس سے مجھے بحث نہیں لیکن ان نظموں میں آہنگ ہے ، رمزیت ہے ، زندگی کی ہماہمی ہے، تلخیاں ہیں، جذبات کے زیرو بم ہیں اور دلبستگی کا سامان ہے۔
ڈاکٹر گلزار نے جہاں ان نظموں میں اپنے جذبہ فکر ،ذہنی کشمکش ، سماجی رویے اور طرز زندگی کو شعری لہجہ عطا کیا ہے، وہیں انہوں نے اپنے اساتذہ کو بھی یاد کیا ہے۔بیاد ڈاکٹر فرید پربتی نظم میں اپنے استاد کو شدت سے یاد کرتے ہیں اور ان کے بچھڑنے سے ہر انجمن انہیں بے رونق لگتی ہے ،ان کے ساتھ گزارے دن اور قربتیں اب دم توڑ چکی ہیں اور اب انہیں خواب کی وادیاں روٹھی روٹھی سی لگتی ہیں اور یہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش وہ زندہ ہوتے۔اسی طرح شہر یار کی یاد میں شہریار کو ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں :
ترکیب سازی کے اے حسیں پیکر
اسم اعظم کا سہارا لے کر
کس دھرتی پہ اب چمکو گے
مانند آفتاب و ماہتاب
جس کی آڑھی ترچھی کرنیں
ہم سدا پائیں گے
ساتواں در کیونکر بند ہے
کیا شام ہونے والی ہے
( نظم۔ _شہر یار کی یاد میں )
’’گرد سفر‘‘ میں شامل نظمیں ایک نئے انداز فکر اور منفرد اسلوب کی غمازی کرتی ہیں۔ ان میں باطن کا کرب بھی ہے اور خارجی حالات کا عکس بھی، فرد کا احساس بھی ہے اور اجتماعی کیفیات کا بیان بھی۔شاعر نے مخصوص نقطہ نظر کو کائنات کے رازوں سمیت بیان کرنے کی سعی کی ہے۔امید ہے اس کوشش کو سراہا جائے گا۔
رابطہ :-8493981240
[email protected]