تاریخ ِعالم ہر زمانے میں دو کرداروں کی عکاس ی کر تی ہے :ایک وہ جس کا وظیفہ ٔ حیات ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ ہوتاہے اور دوسرا وہ کردا ر’ جو’تو بازمانہ بہ ستیز کہ زمانہ باتو نسازد‘‘یعنی آپ زمانہ کے ساتھ لڑ پڑئیے اور اسے اپنے تابع کیجئے۔۔۔۔یہ دو کردار ہمیشہ ہمیش سے باہم متصادم ہیں اور تاریخ عالم پر اپنے انمٹ نقوش ثبت کرکے ہی رکھ دیتے ہیں ؎
ستیزہ کا رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بو لہبی
یاد رہے یہ دونوںمتضاد کردار ہی نہیں بلکہ دو اصول ہیں اوردو قوتیں ہیںجو ہر دور میں اپنی کارکردگی اور کارگزاری کی روشنی میں عیاں و بیاں ہوتی ہیں ؎
موسیؑ و فرعون ،شبیر ؓ و یزید ایں دو قوت از حیات آید پدید
امریکی جیل میں نظر بندڈاکٹر عافیہ صدیقی عصری تاریخ کا وہ کردار ہیں جو چراغ مصطفویؐ سے عبارت ہے اور شرارِ بولہبی سے اسی کی سزا پارہی ہیں ۔ موصوفہ پاکستان کے ایک انتہائی معزز گھرنے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ حافظہ قرآن خاتون ہیں ،جنہوں نے ابتدائی عمر میں بچوں کی ذہنی نشو ونما کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ایک ایسا تعلیمی نصاب مرتب کیا جو اگر پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رائج ہوجاتا تو ہر بچہ قرآن کا علم اپنے سینے میں محفوظ کرکے فارغ التحصیل ہوسکتا تھا ۔انہوں نے دین ِاسلام کی تبلیغ کے لئے دورانِ تعلیم امریکہ میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ اینڈ ٹیچنگ قائم کیا ۔جیلوں میں قیدیوں کے لئے ہزاروں کی تعداد میں قرآن پاک تقسیم کئے۔دین کا علم حاصل کرنے کی جستجو میں پاکستان واپس آکر انہوں نے مختلف مذاہب کے تقابلی جائزے پر اپنی تحقیق کے سلسلے میں اسلام ،عیسائیت اور یہودیت کے موضوع پر تحقیق کی۔Islamization in Pakstan and effects on womenکے موضوع پر تحقیق کی ،جس پر انہوں نے Cassot Wilsonایوارڈ حاصل کیا۔عمر رسیدہ اور ضعیف افراد امریکہ میں دوران تعلیم وہ Old women Homeمیں اعزازیطور خدمات سر انجام دیتی تھیں ۔آپ نے تن تنہا بوسنیا کی مظلوم عوتوں اور بچوں کی امداد کے لئے ہزاروں ڈالر جمع کئے ۔ وہ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے امریکی حکومت کی جانب سے دی گئی شہریت کی پیش کش شکریے کے ساتھ واپس کرچکی تھی ۔وہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو بدلنے کی خواہش رکھتی تھیں۔اُن کا کہنا تھا کہ تعلیمی نصاب میں اسلامیات بطور ایک لازمی مضمون نہیں بلکہ ہر مضمون کا لازمی جز ہونا چاہئے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کی مدد سے ہم زندگی کا ہر شعبہ شرین انداز میں چلا سکتے ہیں اور یہی تمام مسائل کا حقیقی حل ہے۔ جس طرح آج دنیا بھر میں قرآن کو سینوں میں بسانے والوں اور اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کو عقوبت خانوں میں اذیتیں دی جارہی ہیں اور سولیوں پر چڑھا یا جارہا ہے ،اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی قرآن فہمی کے جرم بے گناہی کی سزا 86سال قید تنہائی کی صورت میں دی گئی ہے ۔مارچ 2005کو اس باحجاب مسلم خاتون پر یکایک قیامت ٹوٹ پڑی جب وہ اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد جانے کے لئے گلشن اقبال میں واقع اپنے گھر سے ٹیکسی میں سوار ہوکر نکلیں ،انہیں راستے میں روک لیا گیا ،وہ پندرہ بیس افراد تھے ،ان میں کچھ مسلح اور کچھ غیر مسلح تھے اور ایک خاتون پولیس آفیسر بھی تھی ۔عافیہ زبان حال سے خود اپنی کہانی سناتے ہوئے کہتی ہے ۔’’ایک دن میں اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ اسلام آباد جانے کے لئے گھر روانہ ہوئی تو راستے میں پولیس نے مجھے روک لیا ،ان کے ساتھ ایف بی آئی کی ایک ٹیم بھی تھی۔میں نے اپنے جرم کے بارے میں سوال کیا تو میرے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کئے گئے اور ایسی غلیظ گالیوں کا زہر میرے کانوں میں اندھیلا گیا جس سے آج تک میرا واسطہ نہ پڑا تھا ۔مجھے گھسیٹ کر ایک گاڑی میں پھینک دیا گیا اور میرے بچوں کو دوسری گاڑی میں بٹھا دیا گیا ۔ان کاجرم یہ تھا کہ وہ میرے گھر میں پیدا ہوئے۔میں روتی ،تڑپتی اور سر پٹختی رہی اور اپنے بے گناہ ہونے کا یقین دلاتی رہی لیکن انہیں مجھ پر ترس نہ آیا ۔میرے چہرے سے نقاب نوچا گیا ،میرے بچوں کے سامنے سرعام میری تذلیل کی گئی ،کپڑے پھاڑ دئے گئے دوپٹا یسر یسر کردیا گیا ۔ایف بی آئی کی خاتون انسپکٹر نے میرے چہرے پر تھپڑ مارے ،پائوں سے ٹھڈے مارے ،میرے بچے روتے ہی چلے جارہے تھے ،رونے کے علاوہ اور کیا بھی کرسکتے تھے۔ماں کے سامنے معصوم بچوں کو بھی تھپڑ،ٹھڈے اور گھونسے مارے جارہے تھے۔عافیہ کہتی ہیں کہ ’’میں بس درخواست کئے جارہی تھی کہ میرے بچوں کو نہ مارو ،میرے بچوں کو نہ تڑپائو ،اس کے جواب میں ایک سیاہ رنگ والے موٹے شخص نے جس کے چہرے سے نفرت اور بغض ٹپکتا تھا ۔۔۔۔میرے سینے پر اس زور سے لات ماری کہ میں دور گاڑی سے جا ٹکرائی ،میرے سَر میں چوٹ آئی ،یہ دیکھ کر میرے بچے اور زیادہ رونے لگے چیخنے لگے ،ایک بونے قد کے آدمی نے میرے بچوں کو جانوروں کی طرح ایک گاڑی میں دھکیل دیا اور دروازہ بند کرکے تالا لگایا ،پھر ان دس پندرہ افراد میں سے چھ ہوشیار و چاک و چوبند کراٹے ماسٹرز نے مجھ نہتی پر یکبارگی حملہ کردیا ،گھونسوں ،مُکوں ،لاتوں اور بوٹوں کی بارش کردی ۔آٹھ مسلم افراد میرے چاروں طرف اسلحہ تانے الرٹ کھڑے تھے، جب میں نیم بے ہوش ہوگئی تو میری آنکھوں پر کالی پٹی کس کر باندھ دی گئی اورہتھکڑیاں لگاکر دھکے دے کر گاڑی میں پھینک دیا گیا ۔۔۔۔ڈاکٹر عافیہ کی والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق اغوا کے بعد تین سال تک معلوم نہیں ہوسکا کہ ڈاکٹر عافیہ اور اس کے بچے کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟2006کو معلوم ہوا کہ افغانستان کے CIA Detention Centre میں ڈاکٹر عافیہ قید ہیں، جہاں اُن پر بے پناہ تشدد کے ذریعے یہ بات منوا نے کی کوشش کی گئی کہ وہ القاعدہ نامی زیر زمین تنظیم کی رکن ہیں لیکن اقرار کروانے میں ناکامی پر سی آئی اے اہلکاروں نے ڈاکٹر عافیہ کو جیل سے نکال کر غزنی کے گورنر کے بنگلے کے قریب چھوڑ دیا اور افغان حکام کو اطلاع دی کہ ایک خطرناک دہشت گرد گورنر کے بنگلے کے قریب موجود ہے جسے دیکھتے ہی گولی ماردی جائے لیکن افغان اہلکاروں نے ڈاکٹر عافیہ کو مسجد کے قریب اس حالت میں پایا کہ وہ عصر کی نماز کے لئے سجدہ ریز تھیں اور تلاشی لینے پر کوئی اسلحہ یا خود کش مواد برآمد نہ ہوسکا۔یہ واقعہ 17جولائی 2008ء میں ہوا۔18جولائی 2008ء میں امریکی اہلکاروں نے افغان حکام کے منع کرنے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کو گولیاں مار کر شدید زخمی کردیا اور انہیں مُردہ سمجھ کر چلے گئے لیکن افغان حکام کی بروقت طبی امداد کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ کی جان معزاتی طور پر بچ گئی اور میڈیا کے ذریعے اطلاع عوام الناس کو بھی ملی ۔اس واقعے کے تقریباً17دن بعد 3اگست کو امریکی حکام ڈاکٹر عافیہ کو اغوا کرکے زخمی حالت میں نیو یارک لے گئے جہاں اُن پر امریکی فوجیوں پر فائرنگ کا بے بنیاد اور جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ،مقدمے کی سماعت کے دوران امریکی ماہر تفتیش کار نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا جس کے مطابق جائے وقوعہ پر ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے ثابت ہوسکے کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں پر حملہ کیا تھا ۔M 4رائفل پر ڈاکٹر عافیہ کے فنگر پرنٹس موجود نہیں تھے اور نہ کسی عام عورت یا مرد کے لئے ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اس رائفل کے نمبر سسٹم کے تحت خفیہ لاک کو کھول سکے ،کیونکہ اس کے خفیہ لاک رائفل کے مالک ہی کو معلوم ہوتے ہیں۔
اس مقدمے کا فیصلہ 23؍ستمبر 2010ء کو سنایا گایا ۔متعصب جج رچرڈ برمن نے قانون و انصاف کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کو 86برس قید کی سز سنائی جبکہ جج نے اپنے فیصلے میں یہ بھی تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عافیہ جو کہ پاکستانی شہری ہیں ،اس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عافیہ کو صرف اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ اُس نے امریکی فوجیوں کو قتل کے ارادے سے بندوق اٹھائی اور اُن پر گولیاں چلائیں اور فوجویوں کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہوئی۔جج نے اپنے فیصلے میں یہ بات بھی لکھی کہ باوجود اس کے کہ عافیہ کے خلاف کسی قسم کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں لیکن پاکستانی وکلاء نے جو دلائل دئے ہیں ان کی روشنی میں عافیہ کو 86برس کی سزا دی جارہی ہے ۔مشہور امریکی تجزیہ نگار اسٹیفن لینڈ نے یہ سزا سن کر بیان دیا کہ ’’عافیہ کے صرف مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے۔‘‘۔۔۔متعصب امریکی وکیل و تجزیہ نگار اسٹیون ڈاؤنز ،جس نے ہمیشہ عافیہ کی مخالفت میں تبصرے تحریر کئے تھے ،عافیہ کی جرم بے گناہی کی سزا سن کر چیخ اٹھا اور کہا ’’میں ایک مردہ قوم کی بیٹی کو ملنے والی سزا دیکھنے آیا تھا لیکن اب میں انسانیت کی ماں،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سلام پیش کرتا ہوں۔‘‘عدالت میں اس فیصلے کے بعد جج کے خلاف شیم شیم کے نعرے بلند ہوئے۔عدالت میں موجود عیسائی ،یہودی اور مسلمانوں نے عافیہ سے یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ آج امریکی عدالت میں ان کا قتل عام ہوگیا ہے ۔
ٹیکساس کی جس جیل میں ڈاکٹر عافیہ کو رکھا گیا تھا اس کو House of Horrorکہا جاتا ہے ۔امریکہ کی عدالت میں ایسے مقدمے موجود ہیں جن میں اس جیل سے رہائی پانے سے پہلے ہی ایک خاتون کو بھیانک تشدد کے بعد ہلاک کردیا گیا تاکہ وہ جیل سے باہر جاکر دنیا کو جیل میں گزرنے والے بھیانک حالات سے آگاہ نہ کرسکے ۔ڈاکٹر عافیہ کو مسلسل تشدد ،تذلیل اور ادویات کے ذریعے ذہنی طور ناکارہ بنایا جارہا ہے ان کے جسم کوہی نہیں بلکہ ان کی روح اور فکر کو بھی سزا دی جارہی ہے ۔ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق اپریل 2014ء سے اب تک ان کی صحت اور خیریت کی کوئی اطلاع نہیں ہے ،نہ جیل حکام ہی امریکہ میں موجود ڈاکٹر عافیہ کے بھائی کو ان سے ملنے کی اجازت دیتے ہیں ۔امریکی عوام نے ڈاکٹر عافیہ سے اظہار یکجہتی کے لئے متعدد بار احتجاجی مظاہرے کئے ،حال ہی میں 23ستمبر 2015کو بھی امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ کے خلاف مذکورہ عدالتی فیصلے کے دن کویوم سیاہ کے طور منایا گیا ۔ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے صدر بارک اوباما کے نام اپیل کی گئی جس پر ایک لاکھ امریکی شہریوں کے دستخط لئے گئے لیکن ان تمام کاروائیوں کے جواب میں امریکی حکومت ہر بار ایک ہی جواب دیتی ہے کہ پاکستانی حکومت کے سربراہان عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کریں تو وہ عافیہ صدیقی کو رہا کرنے پر تیار ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے علماء کرام کے فتوے متعدد بار جاری ہوتے رہے ہیں ،بے گناہ ڈاکٹر عافیہ مسلسل 12سال سے امریکی جیلوں میں پُر صعوبت زندگی گزار رہی ہے اور بے بسی کی تصویر بنی عالم اسلام کی طرف دیکھ رہی ہے لیکن مسلم حکمرانوں کی خاموشی پوری امت مسلمہ کے لئے ایک سوال ہے!!!مسلم حکمران ڈاکٹر عافیہ کی حالت زار کے حوالہ سے نوشتہ ٔ دیوار پڑھیںاور اس مظلوم و معصوم ملت کی بیٹی کو ظالموں کے آہنی پنجوں سے گلو خلاسی حاصل کرنے کے لئے مقدور بھر کوششیں کر لیں۔ڈاکٹر عافیہ کی حا لت ِزار کا ذراسا انداز ہ زیرنظر مقالہ سے کیجئے گا اور اس دلگیر اور جانکاہ منظر کو بھی ذرا ملاخطہ کیجئے جو ڈاکٹر عافیہ کو ’’عدالت کے کٹہرے‘‘میں لانے سے متعلق ہے ‘‘ایک نحیف و کمزور خاتون جیل اہلکاروں کے گھیرے میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرۂ عدالت میں داخل ہوتی ہے اس کے ہاتھوں میں بھی آہنی بیڑیاں ہیں اور ہاتھوں سے خون ٹپک رہا ہے جو اس پر چند لمحوں پہلے کئے گئے تشدد کی علامت ہے ۔ کمرۂ عدالت میں موجود یہودی ،عیسائی اور مسلمان اس کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں،خواتین ڈاکٹر عافیہ کو دیکھ کر اشکبار ہوتی ہیں ۔مین ہٹن امریکہ کی عدالت میں اس مظلوم خاتون کو ایک خطرناک ’’دہشت گرد‘‘کے طور پر جج کے سامنے پیش کیا جارہا ہے ،وہ جج کے سامنے اپنے بیان میں کہتی ہے ’’میں بالکل پاگل نہیں ہوں ۔۔میں ایک مسلمان عورت ہوں ۔۔۔مجھے مرد فوجی زبردستی برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور میرے قدموں میں قرآن کو پھاڑ کر کر پھینکا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے اس پر چلو۔۔۔یہ تو وہ کلام ہے جو رسول پاک ؐ کے سینۂ پاک پر اُترا تھا ،میں ا س پر سے کیسے چلوں؟ ْجیل اہلکار مجھے اس بات پر مجبور کرنے کے لئے کپڑے نہیں دیتے ،اگر میں اپنے بھائی سے ملنا چاہوں ، تب بھی یہ کہتے ہیں کہ ہماری بات مان کر قرآن کے اوپر پائوں رکھ کر چلو۔اگر وکیل سے ملنے کا کہتی ہوں تو پھر مجھ سے یہی مطالبہ کیا جاتا ہے ۔میرا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے ،میں امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک یا قوم کے خلاف نہیں ہوں ،میں دنیا میں امن چاہتی ہوں ،میں تعلیم یافتہ اور ذہنی طور پر تندرست ہوں ،مجھے زہنی امراض کی ادویات مت دی جائیں ،مجھے امریکہ سے نفرت نہیں ہے البتہ اس کے عدالتی نظام پر کوئی اعتماد نہیں ہے ۔6جولائی 2009ء کو امریکی عدالت میں پیش کی جانے والی یہ خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں۔امریکی قید میں اُن کی پُر صعوبت اور پُر تشدد زندگی کا یہ ساتوں سال ہے ۔ان سات برسوں میں وہ کون سا ستم ہے جو انہوں نے اپنے جسم اور ذہن پر نہیں سہا ہے ۔قرآن سے محبت کی سزا اُن کی روح تک کو دی جاتی ہے ؎
ہر خزاں میں باغ اُجڑے ایسے نہیں جیسے اب کے بر س
بوٹا بوٹا ،پتا پتا، روش روش برباد ہوئے