ڈاکٹر رادھاکرشنن کےتعلیمی و ادبی معرکے

ڈاکٹر منظور احمد راتھر

یومِ اُساتذہ منسوب ہے آزاد بھارت کے سکالر، فلاسفر، سیاستدان ، عظیم معلم، فلسفی اور مصلح ڈاکٹر رادھا کرشنن سے، جنہوں نے ادبی علمی، سماجی تعلیمی، سیاسی غرض کہ زندگی کےہر میدان میں اپنا خاصہ کردار نباکر اپنے تخیّلی و تخلیقی اثاثے کا بھرملا اظہار کیا۔ تعلیم، فلاسفی، کلچر اور سائنس کے تعیں ان کا رنامے ناقابلِ فراموش ہیں۔ تعلیم کے تئیں ان کی گراں قدر خدمات کی کہیں نظیر نہیں ملتی.ملک میں ایک اچھا تعلیمی نظام بنانے کی قابل قدرسعی کی ۔ رادھا کرشنن کا یہ یقین قّوی تھاکہ طلبہ ہر ملک کا انمول سرمایہ اور اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں اور اسلئےہمیشہ اس بات کی تلقین بھی کرتے تھے کہ اساتذہ ملک کے سب سے بڑے روشن دماغ، دانشور ہونے چاہئے۔ وہ فخریہ کہتے کہ اساتذہ کا مقام بلند و اعلیٰ ہے جن سے مستفید ہوکر طلبہ ملک اور قوم کو ترقی کی طرف لینے میں ایک نمایاں کردار نبھاتے ہیں ۔انہوں نے اپنی زندگی کے ۴۰؍ سال بحیثیت استاد کے فرائض خوش اصلوبی سے نبھائے اور اس دوران کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ملک کے تئیںان کی بےلوث خدمات سے متاثر ہوکر ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ انہوں نےملک کو کئی حیثیتوںسے اپنی گراں قدرخدمات سے سرفراز کیا۔ لیکن سب سے بڑھکروہ ایک بہت بڑے استاد ہیں جن سے ہم سب نے بہت سیکھا اورآگے بھی سیکھتے رہیں گے۔‘‘ تھیروتانی، چنئی میں ۵ ستمبر ۱۸۸۸ ءمیں تولد ہوئے اور انکا جنم دن اسلئےکافی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دِن سارے ملک میں سکولوں سے لیکر یونیوڑسٹیوں تک ہر سال اساتذہ کی ان کی قوم کے تئیں خدمات کیلئے یعنی بچوں کوعلم اور ہنر سے فیضیاب کرنے کےلئےعزت افزائی سے نوازا جاتاہے اور ۱۹۶۲ ءسے یہ روایت جاری و ساری ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن یہ چاہتے تھے کہ استاد کے اعلیٰ مقام و مرتبہ کواجاگر کیا جائے اور ان کو وہ عزت و احترام دیا جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اساتذہ مینارنور کی مانند ہیں جو بچوں کی راہوں کو منّور کر دیتے ہیں، علم سے فیضیاب کرتے ہیں ،جینے کا ہنر سکھاتے ہیں، آسمان کی بلندیوں تک پہنچنے کا گُرسمجھاتے ہیں اور وقت وقت پہ صحیح رہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔ وہ اساتذہ کے اُس فعال کردار کی ہمیشہ سراہنا کرتے جو وہ ملک کی تعمیر میں ،نئی نسل میں ہنر مندی اور قائیدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے ، اورتدریسی و غیر تدریسی سرگرمیاں فراہم کرنے میں نبھاتے ہیں۔

رادھا کرشنن نے اپنی زندگی کے ۴۰؍ سال بحیثیت استاد کے فرائض خوش اصلوبی سے انجام دئیے۔ مدراس یونیورسٹی سے فلسفہ میں ماسٹرز کیا اور بحیثیت پروفیسرآف فلاسفی میسور اور کلکتہ یونیورسٹی میں تقریباً ۱۵ سال تک انہوں نے اپنی خدمات میسر رکھیں۔ میسور یونیورسٹی میں ۱۹۱۸ سے ۱۹۲۱ ءتک اور کلکتہ یونیورسٹی ۱۹۲۱ سے ۱۹۳۱ تک بحیثیت استاد کام کیااور پھر دوبارہ ۱۹۳۷ سے ۱۹۴۱ تک کلکتہ یونیورسٹی میں رہے۔ یونیورسیٹی آف آکسفورڈ میں وہ مشرقی مذاہب و اخلاقیات کا مضمون۱۹۳۶ سے ۱۹۵۲ تک پڑھاتے رہے۔ بحیثیت وائس چانسلر آندھرا یونیورسٹی میں۱۹۳۱ سے ۱۹۳۶ تک انکا قیام رہا۔ ۱۹۳۹ سے ۱۹۴۸ تک بنارس ہندو یونیورسیٹی کے وائس چانسلر رہے۔۱۹۵۳ سے ۱۹۶۲ تک رادھا کرشنن دلی یونیورسٹی کے چانسلر رہے ۔

درس وتدریس کےدلکش و پُر اثرطریقہ کار اپنانے کے سبب وہ اپنے شاگردوں میں کافی ہر دلعزیز تھےاور یہی وجہ ہےکہ بیسویں صدی کے مشہورو معروف اساتذہ میں انکا نام نہایت ہی ادب و احترام سے لیا جاتا ہے ۔ انکا مشہور قول ” جب ہم اپنے آپ کو صاحب علم سمجھتے ہیں، ہم سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ” ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمیں اپنےاندر کے شاگرد کو کبھی مارنا نہیں چاہئے ۔ اُنکا یہ دلکش پیغام ہمیں اعلیٰ تعلیم کی جستجو کیلئے راغب کرتا ہے۔ رادھا کرشنن کےنزدیک تعلیم محظ چند کتابی اسباق کے ادراک کا نام نہیں، بلکہ تعلیم ان خیالات و اقدار کی پاسداری ہے جن سے تعمیر ِکردار و زندگی منسوب ہے۔ ان کے مطابق سائنسی علم کے ساتھ ساتھ بچےاخلاقی تعلیم و تربیت سے بھی فیضیاب ہونے چاہئے۔ان کی ترجیحات میں تعلیم روحانی بصیرت کی نشونما میں پنہاں ہے۔ ان کا گراں قدر قول ہے۔ ” اگر تعلیم انسان کے قلب وذہن کو دانائی و انسانیت کے زیور سے آراستہ نہ کرےتو پھر سبھی سائنسی و تیکنیکی ترقی بے معنیٰ ہیں۔”

رادھا کرشنن تعلیم کے کثیر جہتی معنیٰ پر زور دیتے ہیں۔ اُن کے مطابق تعلیم فرد کے جسمانی ، دماغی،ذہنی و روحانی خوشحالی سےمنصوب ہے۔ انکی تعلیمی فلاسفی آفاقی محبت، انسانیت، یکجہتی و جذبہ انکساری کے اصولوں پر بنیاد رکھتی ہے۔ ان کے ہاں یہ ایک ایسا عمل ہے جو آدمی کو دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی و یکجہتی کے جذبے سے سرشار کرے۔انہوں نے اس تعلیم کی سراہنا کی جو بچوں کی ضروریات و دلچسپیوں کے موافق ہو۔تعلیم بچوں کی جسمانی، زہنی ، جذباتی و روحانی قواء کی ایک ہمہ جہت اور مکمل نشونما ہے۔ ۔ پڑھانے کا ہر کوئی طریقہ کار جو نفسیاتی اصولوں سے بعید ہو، بےبنیاد اور غلط ہے۔ کیا پڑھائیں اور کیسے پڑھائیں، یہ دو نوں چیزیں اہم ہیں، کیا پڑھائیں منسلک ہے نصاب سے اور کیسےپڑھائیں پڑھانےکے طریقہ کار سے،ان دونوں چیزوں کو سیکھنے سے تعلیم پڑھانے کا عمل پُر اثر رہتا ہے۔ اگر اساتذہ بچوں کو تعلیم کی جانب نہ مائل کرسکتے ہیں تو درس و تدریس کا طریقہ کار محض اکتا دینے والے عمل کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اور بچےجو کچھ بھی با دل ناخواستہ سیکھتے ہیں لاعلمی کے مترادف ہے۔ رادھا کرشنن نے اس بات پہ زور دیا کہ تعلیم صرف کتابی علم سے منسوب نہیں ہے نا ہی یہ کچھ حقایق کی یاددہانی ہے ۔ نا ہی یہ لفظوں کے زخیرہ یا مجموعہ اکٹھا کرنےسے تعبیر ہے، نہ یہ دوسری زبانوں میں دوسروں کے خیالات رٹہ لگاکر کئی ڈگریاںحاصل کرکے کوئی پیشہ ورانہ ملازمت حاصل کرنا ہے۔ بلکہ یہ اقدار کی پاسداری ، انسان سازی، اورکردار سازی سے منسلک ہے۔ تعلیم روح وقلب کی شائستگی و فراوانی سےمقصود ہے۔

معاشرے و قومی ترقی و خوشحالی میں انہوں نے استاد کے اہم کردار کی کافی سراہنا کی۔ کسی بھی قوم و ملک کی تعمیر و ترقی میں، ایک مہذب معاشرہ تشکیل دینے میں،آنے والی نسلوں کوسنوارنے میں اساتذہ کی بےلوث محنت کام آتی ہے۔ بحیثیت مدّرس انہوں نے جن عظیم تعلیمی عہدوں پر اپنی خدمات انجام دی ان میں کلکتہ یونیورسٹی میں کنگ جارج پنجم چیئر آف مینٹل اینڈ مارل سائنس اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسپالڈنگ پروفیسر آف ایسٹرن ریلیجن اینڈ ایتھیکس شامل ہیں ۔ رادھاکرشنن نےچار دھائی سے زیادہ بطور معلم اپنی تعلیمی خدمات بچوں کیلئے میسر رکھیں اور انکے قلب وذہن کی آبیاری کرتے رہے۔ یہ کہنا بےجا نہ ہوگاکہ اپنی زندگی میں وہ ہمیشہ اعلیٰ تعلیمی اقدار کے دلدادہ ومتمنی رہے ہیں۔چنانچہ پڑھانے کے فن کو انہوں نے تعریف نو دیکر نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا اورن نت نئے طریقے اپنانے پر ہمیشہ زور دیتے رہے۔اکثر فرماتے:

“استاد کو نئی تعلیمی و تدریسی حکمت عملی سیکھنے سے کوئی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ “وہ چاہتے تھے کہ اساتذہ کا کردار صداقت، شجاعت، قوت برداشت، صبروتحمل اور استقامت جیسی لازوال خوبیوں سے لبریز ہو کیونکہ یہی خوبیاں پھرطالب علم سے منعکس ہوتی ہیں۔ ۔۔۔(جاری)
(اسوسیٹ پروفیسر ۔ ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن یونیورسٹی آف کشمیر )