عائشہ انیسہ وانی
دبستان کشمیر میں شاعری کا مستقبل بہت ہی زیادہ روشن و تابناک ہے۔وادی کشمیر میں جہاں مردوں نے ہر کسی مصنف میں طبع آزمائی کی، وہی خواتین نے بھی اپنی ہنر مندی کا لوہا منوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، شاعری کی دنیا میں ایسا ہی ایک معروف و مشہور نام ڈاکٹر درخشاں اندرابی کا ہے۔ان کو چونکہ شاعری کی زمین راس آئی ہے۔اب تک آپ کے کئی شعری مجموعے اردو اور کشمیری زبان میں منصہ شہود پر آچکے ہیں۔آپ کا ایک اردو شعری مجموعہ ’’ہتھیلی پہ سورج‘‘ ہےجو کہ آزاد نظموں پر مشتمل ہے۔اس مجموعہ میں کل 56 نظمیں شامل ہیںاور ایک ایک نظم میں نسوانیت کا درد و غم بیان کیا گیا ہے۔ان کی نظموں میں موضوعات کا تنوع ملتا ہے، غرضیکہ ان کی نظموں کی کائنات میں ہر ایک چیز متحرک ہے۔شاعرہ کو زندگی میں کتنے ہی آلام و مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہو، لیکن انہوں نے ان سب کا مقابلہ ’’ ہتھیلی پہ سورج‘‘ کی طرح کیا ہے، یعنی وہ اپنی ہتھیلی پہ سورج کی تمازت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کا ہنر بھی خوب جانتی ہے،ان کا رشتہ اپنی زندگی کے ساتھ ’’سالم رشتہ‘‘ ہے۔بقول خود شاعرہ ان ہی کی ایک نظم ’’سالم رشتہ‘‘ کے کچھ بند ملاحظہ فرمائیں :
ہم نے اپنے رشتے میں
کچھ نہیں بانٹا
ہم ساتھ تو رہے
لیکن کسی مقصد کی بیڑیوں سے آزاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آئی تو آئینہ لیکر آئی
تم آئے تو ہاتھوں میں پتھر لے
آئینے کا بت توڑا……..!
ان کی شاعری کے موضوع مختلف تو ضرور ہے، لیکن طرح طرح کے ہونے کے باوجود ان میں ایک یکسائی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ان کی بیشتر نظمیں جدائی کے درد و غم کی داستان ہے،وہ سماجی بندشوں میں بندھ کر نہیں رہنا چاہتی ہے،وہ خود کو آزاد محسوس کرتی ہے اور آزادی ان کی فطرت کا ایک اہم جز بھی ہےاور یہ عنصر ان کی شاعری میں بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔جیسے:
سفر در سفر ،کم ہوتے بوجھ کے بعد
جب آج میں، اپنی پیاس کے دریا میں
نہانے اتری ،تو میرا وزن پانی سے کم تھا
اب میں غسل کی مجبوری سے آزاد ہوں
اور اس آزادی کے احساس کا بوجھ
ہلکا کر رہی ہوں۔ (نظم ۔بوجھ)
ان کی شاعری میں عورت کے ایثار و قربانی کے جذبات کا شدت سے اظہار ملتا ہے اور عورت کے حقوق کی پامالی کا بھی احساس ملتا ہے،وہ عورت کو دیوی کے روپ میں دیکھتی تو ضرور ہے، مگر اپنی شاعری میں اسے ایک عام سی عورت کا درجہ دیتی ہے. جیسے :
چَکوں کی دوڑ جھیلتی ہے
اور خاموش گھلتے گھلتے ،اپنی بڑھتی چِکناہٹ پر اتراتی ہے
اِشتہاروں والی عورت۔۔۔عورت کے حقوق کی آواز میں
اُبھر آئی مردانگی نے کہا کہ آزادی کے پوسٹر پر چھپی ہے
اِشتہاروں والی عورت۔۔۔!( نظم ۔اشتہاروں والی عورت)
ان کی نظموں میں ہر طرح کے لفظوں کی بھر مار دیکھنے کو ملتی ہے۔جدائی، غم، برہنگی، وصل، احساس،تضاد، عشق، رقص، انتظار، بوجھ، بچے، آنکھیں وغیرہ وغیرہ ۔ان کے زیر بحث شعری مجموعے میں جہاں معاشی، زندگی کے مسائل اُبھر کر سامنے آتے ہیں وہی ازدواجی زندگی میں گھم ہوتی ہوئی عورت کے دکھ درد کا احساس بھی موجود ہے۔اس مجموعے کی خوبی یہ ہے کہ اس کی پہلی نظم کا موضوع ہی واقعہ کربلا ہے، جس کا عنوان ’’ امام عالی مقام علیہ السلام کے لیے ایک نظم‘‘۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاعرہ کا رشتہ اپنے دین سے کافی مضبوط و مربوط ہے جو ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہےاور ان کی نظموں میں خاصا نظر آرہا ہے. جیسے :
کربلا (تین نظمیں) کے کچھ بند ملاحظہ فرمائیں۔
سب رنگ ہوئے بے رنگ ،نکھرا ہوا ہے بس لال
تصویر ہے اک چہرہ ،لالی میں نہایا لال۔۔۔۔
جہاں شاعرہ مذہبی عقائد کی پیروکار ہے وہی وہ تسبیح کے دانے پڑھنے کا بھی ہنر جانتی ہے،وہ ایک باکمال روحانی شخصیت کی مالک بھی ہیں۔
’’ہے ایک تسبیح‘‘ سے کچھ شعر ملاحظہ فرمائیں :
’’ ابھی اعلان ہے نہ عہدو پیماں
ابھی کرم و فضل نہ خلق و عطا ہے
ابھی سب کچھ
حجابوں سے پرے ہے
ہے اک تسبیح زمانے گھومتی ہے۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ شاعرہ علم و ادب کے آسمان پر ایک درخشاں ستارہ ہے۔جیسے کہ ان کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے،یہ ایک بہترین شعری مجموعہ ہے۔اس مجموعے کو پڑھنے کے بعد قاری میں ایک درد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہےاور وہی تمازت جو سورج کو ہتھیلی پر رکھ کر محسوس کی جاسکتی ہے، یہی ایک فن کار کا کمال ہوتا ہے کہ جو کیفیت وہ خود محسوس کرے وہی کیفیت قاری کے ذہن اور دل پر بھی طاری ہوجائے، تب ہی وہ ایک کامیاب لکھاری بن جائے گا، اسی کمال کے عروج سے گزرتی ہوئی شاعرہ نے اپنے شعری مجموعہ میں یہ بات ثابت کر دی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس مجموعے کی چند نظموں کے پس منظر میں کافی گہرائی ہے۔ آپ جو درد کی داستان سنانا چاہتی ہے، اس درد کا احساس براہ راست ہو تو رہا ہے۔لیکن دل اس قابل نہیں ہے کہ اس حقیقت کیفیت سے آشنا ہوں. اب امید قوی ہے کہ ان کے نوک قلم سے ایسے ہی درد کے چشمے پھوٹے اور قارئین کے دل کے درد کی دوا پائیں۔بقول ڈاکٹر درخشاں اندرابی
تیرے خال و خد کو کیا پہچانوں
تیرے عکس کے سرے رنگ سنہرے ہیں