الطاف ٹھاکر
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر جو بھارت کے آئین کے معمار کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے ایک ایسا نظام تخلیق کیا جس میں سماجی انصاف، برابری اور بھائی چارے کی بنیاد رکھی۔ ان کی یہ خدمات نہ صرف بھارتی معاشرتی ڈھانچے کو تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوئیں بلکہ وہ ایک ایسے سماج کے خواہشمند تھے جہاں تمام افراد کو برابری کے حقوق حاصل ہوں۔ تاہم ان کی زندگی میں انہیں خاص طور پر کانگریس پارٹی کی طرف سے مسلسل نظرانداز اور سیاسی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ڈاکٹر امبیڈکر کا سفر سیاسی اور سماجی جدوجہد کا تھا اور ان کی زندگی کی سب سے بڑی چیلنج یہ تھا کہ انہیں کانگریس کی سیاست میں ہمیشہ غیر نظرانداز کیا گیا۔ یہ امر نہ صرف ان کے شخصی طور پر بلکہ ان کی سیاسی نظریات اور سماجی انصاف کے ایجنڈے کے ساتھ بھی جڑا ہوا تھا۔ڈاکٹر امبیڈکر نے آئینی اسمبلی میں اپنی جگہ بنانے کیلئے سخت جدوجہد کی۔ انہیں بمبئی کے وزیر اعلیٰ بی جی کھارے کی قیادت میں کانگریس کی طرف سے نظرانداز کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کو انتخابی میدان میں اپنی جگہ بنانے میں مشکلات کا سامنا تھا، لیکن ان کی سیاسی بصیرت اور محنت کے باعث وہ کامیاب ہو گئے اور بھارتی آئین کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا۔ 1952 میں جب جواہر لال نہرو نے کانگریس اور کمیونسٹوں کے درمیان اتحاد قائم کیا تو مقصد ڈاکٹر امبیڈکر کو شکست دینا تھا۔ کانگریس نے ڈاکٹر امبیڈکر کے خلاف انتخابی مہم چلائی اور ایک غیر معروف امیدوار کو میدان میں ا ُتارا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے اس سازش کا مقابلہ کیا اور انتخابی نتائج کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی، جس سے ان کی سیاسی جدوجہد اور عزم کا پتہ چلتا ہے۔ڈاکٹر امبیڈکر کے وفات کے بعد کانگریس کی حکومت نے ان کی خدمات اور وراثت کو وہ عزت نہ دی ،جس کے وہ مستحق تھے۔ دہلی میں ان کی آخری رسومات کی اجازت دینے کے بجائے نہرو حکومت نے ان کے جسم کو ممبئی منتقل کرنے کیلئے کوئی مدد فراہم نہیں کی۔اور اُن کی یادگار بنانے کی درخواست بھی رد کر دی ۔ جو اُن کے عظیم کاموں کے تسلیم نہ ہونے کی ایک مثال تھی۔2012 میں کانگریس حکومت کے دور میں این سی ای آر ٹی کی کتاب میں ایک متنازعہ کارٹون شامل کیا گیا تھا جس میں ڈاکٹر امبیڈکر کو نہرو کے ہاتھوں کوڑے کھاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یہ ایک توہین آمیز عمل تھا، جس سے نہ صرف ڈاکٹر امبیڈکر کی شخصیت کی تضحیک ہوئی بلکہ ان کی خدمات کو بھی نظرانداز کیا گیا۔
جب بی جے پی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس نے ڈاکٹر امبیڈکر کی وراثت کو تسلیم کیا اور ان کے نظریات کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔1990 میں بی جے پی کی حمایت سے ڈاکٹر امبیڈکر کو بھارت رتن سے نوازا گیا ، اسی سال اُن کی تصویر کو پارلیمنٹ میں نصب کیا گیا۔ شری اٹل بہاری واجپئی نے اس کام میں اہم کردار ادا کیا اور ڈاکٹر امبیڈکر کی وراثت کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا۔بی جے پی حکومت نے ڈاکٹر امبیڈکر کی زندگی سے جڑے پانچ اہم مقامات کی ترقی کی، جن میں ان کی جائے پیدائش مہو اور ان کی آخری رسومات کا مقام ممبئی شامل ہیں۔ ان مقامات کو یادگار بنا کر حکومت نے ڈاکٹر امبیڈکر کی وراثت کو محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ 26 نومبر کو آئین کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تاکہ ڈاکٹر امبیڈکر کے ہندوستانی آئین کی تشکیل میں کردار کو عزت دی جا سکے۔ بی جے پی نے ڈاکٹر امبیڈکر کے نظریات کی ترویج کیلئے’ بی ایچ آئی ایم‘ ایپ کا آغاز کیا جو کہ ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔بی جے پی نے دلتوں اور پسماندہ طبقات کیلئے مختلف اقدامات کئےہیں، جیسے شہریت ترمیمی ایکٹ (2019) جس کے ذریعے مشرقی پاکستان سے آنے والے دلت پناہ گزینوں کو ریلیف فراہم کیا گیا۔ اس کے علاوہ ناری شکتی واندان ایکٹ (2023) کے ذریعے خواتین کی نمائندگی کیلئے قانون منظور کیا گیا جو ڈاکٹر امبیڈکر کے اصولوں کی ایک عملی شکل ہے۔
کانگریس نے اپنے اقتدار کے دوران آئین میں مختلف ترمیمات کے تحت جمہوریت اور سماجی انصاف کو کمزور کیا تھا۔ ان ترمیمات میں اہم ترمیمات جیسے پہلی ترمیم (1951) 24ویں اور 25ویں ترمیمات (1971) اور 42ویں ترمیم (1976) شامل ہیں۔ ان ترمیمات نے بنیادی حقوق اور عدلیہ کی خودمختاری کو کمزور کیا اور ایمرجنسی کے دوران جمہوریت کو معطل کر دیا۔کانگریس کے دور میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، جس میں بنیادی حقوق کو معطل کر دیا گیا ، سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالا گیا اور عوامی آزادیوں کا گلا گھونٹ دیا۔ڈاکٹر امبیڈکر کی وراثت نہ صرف ہندوستان کے آئین کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ وہ سماجی انصاف، برابری اور بھائی چارے کے ایک عظیم علمبردار تھے۔ ان کے نظریات کو تسلیم کرنا اور ان کی خدمات کو عزت دینا ضروری ہے تاکہ ہندوستان میں جمہوریت اور سماجی انصاف کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔ڈاکٹر امبیڈکر کا پیغام ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کا اثر آئندہ نسلوں پر پڑے گا۔
(مضمون نگارالطاف ٹھاکر، بی جے پی کے ترجمان ہے)