ڈاکٹر جوہر ؔقدوسی
اسلام وہ دین متین ہے جس نے نہ صرف علم کی اہمیت کوزور دیکر بیان کیا اور اس کے حصول کی پر زور تاکید کی، بلکہ اس کے حدودِ اربعہ کو بھی متعین کردیا کہ یہ حد فاصل ہے علم رحمانی اور علم شیطانی کے مابین۔ جو علم رحمانی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے گا ،وہ ہمیشہ کے لیے کامیاب ہوجائے گا، ورنہ ابدی لعنت اور ناکامی کا مستحق ٹھہرے گا۔ اللہ جل جلالہٗ نے قرآن کریم میں حضورنبی کریم ؐ کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ:’’ ہم نے ’’اُمِّیِّیْن‘‘ (اَن پڑھ) میں رسول بناکر بھیجا انہیں میں سے، وہ تلاوت کرتے ہیں آیات کی اور تزکیہ کرتے ہیں، تعلیم دیتے ہیں کتاب و حکمت کی……الخ‘‘ اس آیت میں اور اس جیسی دیگر آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کی چار صفات کا ذکر کیا ہے، جو یہ ہیں:اول ،آیات کی تلاوت۔ دوم ،تزکیہ۔سوم ،تعلیم کتاب ۔ چہارم ،تعلیم حکمت ودانشمندی ۔ ان میں ایک اہم صفت’ تعلیم دینا‘ آپؐ کے فریضہ میں شامل تھا۔
علم کا رشتہ جب تک تزکیہ کے ساتھ استوار و قائم رہے گا، اس علم کے ذریعہ انسان عروج کے اقبال تک پہنچے گا اور جب علم سے تزکیہ کے رشتہ کو کاٹ دیا جائے گا تو یہ علم ضلالت و گمراہی اور انسانیت کی کشتی کو ڈبودینے کا سبب بھی بن جائے گا اور اس کے ساتھ ہی اللہ کی ناراضگی ہمیشہ کا مقدر بن جائے گی۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج کل کے تمام تعلیمی ادارے بالخصوص مروجہ و عصری تعلیمی اداروں کا رشتہ تزکیہ سے کٹا ہوا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ طالب علم استاد کی بے وقعتی کا مرتکب اور والدین، بڑوں،بزرگوں اور رشتہ داروں کی عزت و تکریم سے تہی دامن ہوچکا ہے اور اسی کابدیہی ومشاہداتی نتیجہ ہے کہ معاشرہ عدم اطمینان کی کیفیت سے دوچار ہے اور کرپشن، لوٹ مار، چوربازاری، دھوکہ دہی و بددیانتی کا رواج عام ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بعض لوگ علمی چوری، مالی خیانت جیسے گھناؤنے جرائم کو بھی عزت و منزلت کے حصول کے لیے کرگزرنے میں کوئی حجاب نہیں کرتے۔ آئے روزمیڈیا میں خبریں چلتی ہیں کہ فلاں مقام پر فلاں طالب علم یا فلاں طالبہ نے خودکشی کرلی ہے او ر اس کے متعدد اسباب بیان کیے جاتے ہیں کہ محبت میں ناکامی پر یا گھریلو ناچاقی پر، شادی بالجبر کے اندیشے پر خودکشی کی گئی ہے، مگر ایک اہم نکتہ کو ہمیشہ نظروں سے اوجھل رکھاجاتاہے کہ اس حدتک پہنچنے کا ذریعہ کونسا سبب بنا ہے؟ شاید کبھی کسی نے اس پر غور کرنا مناسب نہیں سمجھا، جبکہ بانجھ و غیر مؤثر اور ناکارہ تعلیم جو تزکیہ و تربیت سے خالی ہوگی، کو حاصل کرنے والے طالب علم یا طالبہ سے آپ یہ کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ اخلاقیات سے عاری سرگرمیوںاور یورپ و مغرب کی تقلید میں مشغول ہوتے ہوئے عشق و معاشقہ کی لعنت سے دور رہ سکتے ہیں۔ تعلیم میں مطلوب و مقصود وہ نظریہ ہے جو تزکیہ و تربیت کے ساتھ مربوط ہو ۔اسی طرح استاد صرف کتاب کو رَٹوانے یا اَزبر کروانے اور امتحانات میں کامیابی کے چور راستے بتانے کا مکلف نہیں، بلکہ یہ وہ منصب ہے کہ جس پر فائز ہونے والے کی ابدی کامیابی کا انحصارہے۔دوسری طرف معاشرے کی ترقی و فلاح کا منبع تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات ہوتے ہیں۔ اگر ان کی خط مستقیم پر رہنمائی و نگہبانی نہیں کی گئی تو مسلم معاشرہ ہمیشہ کی ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوجائے گا، جس کا آغاز بڑی سرعت کے ساتھ ہوچکا ہے۔ اس کے سامنے بند باندھنے کا واحد ذریعہ ایسی تعلیم اور ایسا علم ہے، جس کا تعلق و رشتہ تزکیہ و تربیت کے ساتھ اَٹوٹ ہو۔
آج کل مسلمانوں کے عصری منظرنامے میں بعض خوشنما الفاظ و تراکیب ، جیسے،محنت و لگن،عزم و ارادہ اور جدو جہداور ’’پدرم سلطان بود‘‘جیسےبے معنی نعرے سن سن کر کان بوجھل ہو چکے ہیں ۔ تصورکو حقیقت کا لباس پہنانے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں ،تاہم قحط الرجال کے اس دور میں بھی جد و جہد سے پر زندگی کی حامل شخصیات کمیاب تو ہیں ،نایاب نہیں۔ نبی کریمؐکا فرمان ہے ،’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے، اس کو دین کی بصیرت عطا فرماتا ہے۔‘‘ اس حدیث سے نہ صرف تفقہ فی الدین کی عظمت عیاںہے، بلکہ یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ ایسا کمال ہے جو اللہ تعالیٰ ہر کس و ناکس کو نہیں عطا فرماتا، لہٰذا جس کو دین کی بصیرت حاصل ہوجائے ،اس کو اپنے آپ کو نہایت خوش نصیب سمجھنا چاہیے اور اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے رہنا چاہیے۔
مقام مسرت ہے کہ ایک ایسے وقت ،جب کہ جامعات اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم و تربیت اور تحقیق و تدریس کا معیاربحیثیت مجموعی رو بہ زوال و انحطاط ہے اورنئے جواں سال اساتذہ میں عمومی طور علمی وتحقیقی ذوق کا فقدان پایا جاتا ہے،کچھ ایسے نفوس قدسیہ بھی اس نظام کا حصہ ہیں،جن کو اللہ نے دین کی بصیرت عطا فرمائی ہے اورجنہوں نے اپنے اعلیٰ علمی ذوق کو مرنے نہیں دیا ہے۔زیرتبصرہ کتاب کے مصنف ڈاکٹر الطاف حسین نوجوان اساتذہ و محققین کے اِسی کاروان کے ایک کوکب ِ تاباں ہیں،جنہوں نے کالج میں اپنی تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ علم و معرفت کے موتی بکھیرنے کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
۲۳۰ صفحات پر مشتمل اپنی تازہ کتاب’’تجلیاتِ معرفت‘‘ میں متنوع موضوعات پر اپنی تحقیق وجستجو اور فکرو تدبر کا ماحصل پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر موصوف نےتعلیم و تعلم کا تعلق تزکیہ و تربیت کے ساتھ استوار کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔انہوں نے عصر حاضر کے بعض سلگتے مسائل و موضوعات پر رشحات فکر پیش کرتے ہوئے ایک طرف اپنے حساس ذہن اور عصری آگہی کا بین ثبوت فراہم کیا ہے،دوسری طرف انہوں نے اپنی علمی بصیر ت،روحانی معرفت اور لسانی لیاقت کا بھی لوہا منوالیا ہے۔جہاں تک ان کے اسلوبِ نگارش کا تعلق ہے تو اس سے ان کےوہ قارئین بہتر طور پر واقف ہیں،جو موصوف کے مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں پڑھ چکے ہیں۔ تحریر میں عالمانہ انداز،محققانہ رنگ اور ادبی چاشنی ان کے قلم کی خاصیت ہے۔جس موضوع پر وہ قلم اٹھاتے ہیں، اس کا احاطہ کر نے کی بھرپور کوشش کر تے ہیں۔ان کی تحریر میں جہاں علمی،دینی اور اصلاحی پہلو غالب ہوتا ہے، وہیں اس میں ادب و تحقیق کی چاندنی بھی بکھری نظر آتی ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ یہ کتاب جموں و کشمیر کے تعلیمی و تدریسی اور دینی و علمی حلقوں میں نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی ،بلکہ ان حلقوں میں اِس کو خاطر خواہ پذیرائی بھی حاصل ہوگی۔
(مدیر ’’الحیات‘‘ و ’’جہانِ حمدو نعت‘‘)
[email protected]