کتابی جائزہ
ڈاکٹر سمیر صدیقی
عالمی ادب میں ترقی پسند تحریک (Progressve Movement ) کا اہم رول رہا ہے۔ اس تحریک کا مقصد ادب کو عوام کے لیے وقف کرنا تھا۔ ایسا ادب تخلیق کرنا جو عوام کی سمجھ میں آسانی سے آسکے اور جس میں عوام یعنی مزدور،کسان و مظلوم کے مسائل کی عکاسی ہو۔اُردو زبان و ادب میں ترقی پسند تحریک کا اہم رول رہا ہے اور مقتدر مفکرین و ادبا نے اس تحریک پر لکھا۔ پریم چند ، سجاد ظہیر، سردار جعفری، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، کرشن چندر، منٹو جیسے بڑے ادیبوں نے اس تحریک کے زیر سایہ اردو ادب کی آبیاری کی اور ایسے شاہکار تخلیق کیے جن کو آج بھی اردو کے ساتھ ساتھ دنیا کی بڑی زبانوں میں لاکھوں کی تعداد میں قارئین میسر ہیں۔
اس وقت میرا موضوع ڈاکٹر اشرف لون کی کتاب ’’ ترقی پسند افسانہ: معاشرتی و طبقاتی کشمکش‘‘ ہے۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ اشرف لون سے میرا تعارف ان کے مضمون’’ ادب، نقاد اور عہد جنگ میں ادبی نقاد کا کردار‘‘ ( انقلاب دہلی) سے ہوا۔ اس پرمغز مضمون میں مصنف نے مظلوموں بالخصوص فلسطینی قوم کے تئیں اپنی ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور عہدِ پُر آشوب میں ادب و تنقید کے رول پر روشنی ڈالی ہے۔مذکورہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں ڈاکٹر لون نے طبقاتی کشمکش کا تعارف پیش کیا اور مارکسی و غیر مارکسی طبقاتی نظریات کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں مصنف نے مارکس، انگلز اور لینن وغیرہ کے نظریات پیش کئے ہیں۔ بقول مارکس:’’آج تک کی تمام سماجوں کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ رہی ہے۔ امیر و غریب، زمیندار وکسان ، مالک اور نوکر یا مختصر الفاظ میں ظالم اور مظلوم ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے ہیں۔‘‘
مصنف نے مختلف حوالوں سے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ انسانی سماج طبقاتی کشمکش پہلے بھی موجود تھی اور آج بھی یہ کئی صورتوں میں موجود ہے۔کتاب کے دوسرے باب میں مصنف نے ما قبل افسانہ نگاروں سدرشن، اعظم کریوی اور علی عباس حسینی اور پریم چند کے افسانوں میں طبقاتی کشمکش سے بحث کی ہے۔ تیسرے باب میں ترقی پسند تحریک کے ابتدائی نقوش ، باقاعدہ آغاز اور ترقی پسند تصورات کا جائزہ لیا ہے۔ مصنف کے نزدیک ترقی پسند ادیبوں اور نقادوں کی تحریروں کے مطالعے کے بغیر ترقی پسند تحریک کوسمجھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔چوتھا ، پانچواں اور چھٹا باب اس کتاب کا اہم حصہ ہے۔ چوتھے باب میں زمیندار اور کسان کے درمیان طبقاتی کشمکش کی ترجمانی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ زمینداری نظام کے مختصر تعارف کے بعد ڈاکٹر لون نے کرشن چندر کے افسانے لالہ گھسیٹا رام، راجندر سنگھ بیدی کے افسانے رحمان کے جوتے، دس منٹ بارش میں، سہیل عظیم آبادی کے مشہور افسانے الائو کو موضوع بنایا ہے۔ افسانہ ’’الائو ‘‘ میں ہمیں ہندوستانی کسان کا ایک باغیانہ روپ نظر آتا ہے۔یہ کسان جاگیرداری نظام سے تنگ آچکا ہے اور اس استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتا ہے۔ یہ جملے ملاحظہ ہوں:’’ ایک سادھو بھی آئے تھے۔ وہ سب کو ایک بات کہہ گئے، سب کساب ایک ہوجائیں، آپس میں مل جل کر رہیں، تب ہی زمیندار کے ظلم سے بچ سکتے ہیں۔‘‘
پانچویں باب میں سرمایہ دارانہ نظام کے مختصر تعارف اور اس کے نقائص کے بعد سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان طبقاتی کشمکش کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مصنف کی رائے ملاحظہ ہو:’’ سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) ایک ایسا معاشرتی و معاشی نظام ہے جس میں کسی نجی شعبے میں سرمایہ داروں کی ملکیت میں اضافہ ہوتا ہے۔۔۔اور غریبی اور امیری میں دن بہ دن فرق بڑھتا جاتا ہے۔‘‘
نمائندہ افسانہ نگاروں میں کرشن چندر کے افسانہ مہالکشمی کا پُل‘ راجندرسنگھ بیدی کے افسانے گرم کوٹ، لاروے، خواجہ احمد عباس کے بیک لین اور دیگر افسانوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔باب ششم میں ڈاکٹر اشرف لون نے ذات پات کے حوالے سے طبقاتی کشمکش کا جائزہ لیا ہے۔ پہلے ہندوستا ن میں ذات پات کے نظام کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے اور اس کے بعد کرشن چندر کے افسانے کالو بھنگی، عصمت چغتائی کے افسانے دو ہاتھ اور خواجہ احمد عباس کے افسانے ٹیری لین کی پتلون۔ حالانکہ اس باب میں پریم چند بالخصوص ان کے شاہکار افسانے ’کفن ‘ کی عدم موجود گی کھٹکتی ہے، حالانکہ اس کو ’ ماقبل افسانے۔۔۔‘ والے باب میں شامل کیا گیا ہے۔کالو بھنگی اور دو ہاتھ دنیائے ادب کے شاہکار افسانے ہیں ۔ جن قارئین نے انگریزی ناول نگار اروند ادیگا کے ناول ’’ White Tiger‘‘کا مطالعہ کیا ہوگا وہ کالو بھنگی کی معنویت سے آگاہ ہوں گے۔ جو موضوع کرشن نے افسانے میں برتا ہے بالکل کچھ اسی طرح اروند ادیگا نے اپنے ناول میں برتا ہے اور اس ناول پر ناول نگار کو دنیائے ادب کا بڑا انعام ’’بوکر انعام ‘‘ ملا۔
ڈاکٹر اشرف لون نہ صرف اُردو کے ایک اچھے اسکالر ہیں بلکہ حالیہ برسوں میں انہوں نے ا نگریزی دنیا بھی ایک پہچان بنائی ہے ۔منصور احمد منصور ، منٹو، کرشن چندر، پریم چند، بیدی، عصمت چغتائی، انتظار حسین، اقبال ، فیض ،فہمیدہ ریاض جیسے بڑے ادیبوں پر انہوں نے انگریزی میں مضامین لکھے ہیں۔ منٹو اور عصمت پر ان کے انگریزی میں لکھے گئے مضامین حوالہ کا درجہ رکھتے ہیں۔مذکورہ کتاب کے مطالعے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر لون نہ صرف ادب کے جمالیاتی پہلو کے قدردان ہیں بلکہ وہ ادب کے سماجی پہلو اور اس کے مزاحمتی کردار کے بھی دل سے قائل ہیں۔ مزاحتمی و احتجاجی ادب میں اُن کی یہ کتاب حوالہ کا درجہ رکھتی ہے۔جس عرق ریزی سے مصنف نے انگزیزی مواد ( اصل اور ترجمہ ) سے استفادہ کیا ہے اُس کی داد دئے بغیر رہا نہیں جاسکتا۔
[email protected]