تقریباً ڈیڑھ برس پہلے نئی ممبئی کے ہی ایک علاقے میں ایک میٹنگ میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔مدعا یہ تھا کہ جو سالانہ جلسہ وہ تنظیم کرتی ہے اُس کے تعلق سے لائحۂ عمل تیار ہو۔اُس میٹنگ میں دیگر ۶؍افراد کے علاوہ انگریزی کے ایک مقامی صحافی بھی تھے اور اُس تنظیم کے صدر اور سکریٹری تو تھے ہی۔دراصل وہ تنظیم جلسوں کے ذریعے قومی اتحاد اور بھائی چارے کو اسلام کی تعلیمات کے پیش نظر عام کرتی ہے جس میں ہر طبقے کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور مقررین میں بھی تمام مذاہب کے سرکردہ علماء اپنی آرا ء پیش کرتے ہیں ۔جب اُنہوں نے میری رائے جاننا چاہی تو اُسی وقت میں نے زور دے کر کہا تھاکہ موجودہ حکومت آپ کو یہ پروگرام کرنے نہیں دے گی کیونکہ آپ کی تنظیم کے نام میں ’’قرآن‘‘ لگا ہوا ہے:قرآن ۔دِی ٹورتھ فاؤنڈیشن ۔ مودی کو حکومت میں بر سرا قتدار آئے ہوئے ڈیڑھ دو برس کا عرصہ ہو چکا تھا اور بہت حد تک بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنے قدم جما لئے تھے۔اس کے علاوہ ۱؍جولائی ۲۰۱۶ء کو ڈھاکہ کے ایک ریستوران میں دھماکہ بھی ہو چکا تھا اور کئی بے قصور اور معصوم افراد مارے جاچکے تھے۔اس دھماکہ کے پس منظر میں بنگلہ دیش کے کسی اخبار نے ذاکر نائک کا نام یونہی اُچھا لا تھا جس پر بعدازاں اخبار نے معذرت بھی کر لی مگر بی جے پی کی حکومت کو ڈاکٹر نایک پر ہاتھ ڈالنے کا موقع اور بہانہ چاہیے تھا،اس نے فوراً اُن کا اور اُن کی تنظیم آئی آر ایف یعنی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی ناک میں دم کرنا شروع کر دیا۔بڑا ہی مضحکہ خیز الزام تھاکہ ذاکرنائک کی تقریر سن کر اور اُس سے متاثر ہونے کے بعددھماکے میں مبینہ طور ملوث نوجوان مشتعل ہو اُٹھے تھے اور دھماکہ کر دیا تھا۔
میری بات سے میٹنگ میں موجود افراد نے جزوی طور پر اتفاق کیا ۔سب کو خوش فہمی تھی کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ حکومت اُن کے جلسے کو اجازت دے دے گی لیکن میں اپنے موقف پر قائم رہااور ہوا بھی ایسا ہی۔گزشتہ جنوری کو ساری تیاریاں ہونے کے باوجود ٹھیک ایک رات پہلے پولیس نے اپنے اجازت نامے کو منسوخ کر دیا اور جلسہ نہیں ہو سکا جس میں شنکریہ اچاریہ کے علاوہ رام پُنوانی بھی خاص مقرر تھے ۔ہوا یہ کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگوں نے انتظامیہ پر خاصا دباؤ ڈالااورانتظامیہ کویہ کہہ کر مجبور کیا ہوگاکہ اس پروگرام کے ہونے سے اسلام کی شبیہ بہتر ہوگی اور قرآن اورا سلام کی دوسری کتابوں سے لوگ مستفید ہوکر اسلام کی جانب محبت کا رویہ پیدا کرنا شروع کر دیں گے۔حالانکہ ۲۰۱۵ء میں ہی اس تنظیم نے دو چھوٹے بڑے پروگرام کئے تھے اور لوگوں نے کافی پسند بھی کیا تھا۔وہ مودی حکومت کے شروعاتی دِن تھے وگرنہ وہ پروگرام بھی نہیں ہوئے ہوتے۔(پی کے فلم ۲۰۱۵ ء میں ہی ریلیز ہوئی تھی وگرنہ آج نہیں ہو پاتی!)آئندہ بھی اِس طرح کے کوئی پروگرام نہیں ہوں گے جب تک مودی حکومت مرکز میں رہے گی۔یہ تو ایک نئی ممبئی جیسے چھوٹی جگہ کی بات ہے،ملک بھر میں اِس طرح کے پروگرام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ذاکر نائک کو’’ دہشت گرد‘‘ ثابت کرنے کے لئے ملک کے زعفرانی میڈیا نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور اسی کے طفیل حکومت کی ایجنسیوں نے کام کرنا شروع کر دیا جن میں این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیٹِو ایجنسی) اور اِی ڈِی( انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ) کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔میڈیا نے مہینوں اِس ایپی سوڈ کو چلایا اور ایجنسیوں نے بھی سرعت دکھائی جس کے سبب حکومت نے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن پر پابندی بھی لگا دی اور اس کے تحت چلنے والے اسکولوں کو بھی بند کرا دیا۔ممبئی اور چینئی کی آئی آر ایف کی املاک کی قرقی بھی کر رکھی تھی لیکن جب اُن کو اپنی تحویل میں لینا چاہی تو جوڈیشل ٹریبونل نے اِی ڈی کو پھٹکار لگائی اور سخت سست کہا۔یہ ابھی ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ جسٹس منموہن سنگھ نے ذاکر نائک کی ضبط کی ہوئی املاک کو اِی ڈی کے قبضہ میں دینے سے منع کر دیا۔ٹریبونل کے چیئرمین نے اِی ڈی کے وکیل سے پوچھا کہ جب چارج شیٹ میں کہیں بھی جرم کا ذکر نہیں کیا گیا ہے تو پھر جائداد کو کس بنیاد پر ضبط کی جائے۔اس کے جواب میں اِی ڈی کے وکیل نے کہا کہ نائک نے اپنی تقریروں کے ذریعے نوجوانوں کو بھڑکایا ہے۔اِس سے قبل این آئی اے کو بھی منہ کی کھانی پڑی تھی جب اس نے ذاکر نائک کے لئے ریڈ کارنر نوٹس کے لئے عرضی دی تھی اور متعلقہ اتھارٹی نے کمزور کیس کی بنیاد پر ریڈ کارنر نوٹس جاری کرنے سے منع کر دیا تھا۔یہ دو دوررس فیصلے جو ذاکر نائک کی صداقت کے حق میں جاتے ہیں ،میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔جس ذاکر نائک کو ’’دہشت گرد‘‘ ثابت کرنے کے لئے بھینگی آنکھ والے میڈیا نے دن رات ایک کر دئے تھے وہ اِن فیصلوں پر خاموش کیوں ہے؟کیونکہ بکاؤ میڈیا موجودہ حکومت بمعنی دیگر بی جے پی کے چشمے سے سب کچھ دیکھ رہا ہے جو جمہوریت کے لئے قطعی ٹھیک نہیں ہے۔یہ اور بات ہے کہ ابھی اور مقدمات اس تعلق سے فیصل ہونے ہیں لیکن یہی حالت اگر دوسرے کے ساتھ ہوتی تو کیا میڈیا یہی رویہ اختیار کرتا؟ چونکہ جج صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسے ۱۰؍باباؤں کا نام بتا سکتے ہیں جن کے پاس ۱۰؍ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی املاک ہیں اور خاص طور پر آسا رام باپو کا نام لیا جو ۲۰۱۳ء سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ بھی فوجداری مقدمے کے پیش ِ نظر،ان کی جائداد پر توآپ لوگ(یعنی اِی ڈی والے) اِتنی سرعت نہیں دکھاتے اور نہ ہی ان کی املاک کو ہی قرق کیا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تعصب اور بے انصافی کا دور دورہ ہے۔
اسی طرح جب کوئی مسلم نوجوان کسی جھوٹے ہی کیس میں پکڑا جاتا ہے تو یک چشمی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے اور اُس کے پاس پھر دوسرا کوئی موضوع نہیں رہتا۔دن رات اُسے دہشت گرد ثابت کرنے میں وہ جُٹ جاتا ہے بلکہ اپنی دانست میں اُسے دہشت گرد ثابت کر ہی دیتا ہے۔پھر باری آتی ہے پولیس کی،حکومتی ایجنسیوں کی اور عدالت کی۔یہاں بھی وہی تماشے دہرائے جاتے ہیں اور اُس نوجوان کو جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔اُس کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے اور اُس کی نوجوانی اور جوانی دونوں کو ستیاناش کیا جاتا ہے۔وہی نوجوان جب باعزت بری ہوکر جیل سے باہر آتا ہے تو میڈیا کو ایسا سانپ سونگھ جاتا ہے کہ پوچھئے مت۔ایک صحت مند جمہوریت کے لئے یہ کوئی اچھی نشانی نہیں ہے۔ایسے درجنوں کیا بلکہ سیکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح مسلم نوجوانان باعزت بری ہوئے ہیں ۔میڈیا کو تو توفیق نہیں ہے لیکن حکومت،حکومتی ادارے اور ایجنسیاں بھی کسی طرح کا کوئی ہرجانہ اُنہیں ادا نہیں کرتیں اور سب کچھ پھر سے دُہرایا جاتا ہے۔آخر یہ اور ایسا کب تک ہوتا رہے گا اور انصاف کی دیوی یوں کب تک بھینٹ چڑھتی رہے گی؟
ذاکر نائک نے بارہا یہ بیان دیا ہے کہ اُن کے پاس ایک ایک روپے کا حساب ہے خواہ وہ روپے اُنہیں ہندوستان یا باہر کے ملکوں سے ملے ہوں ،انکم ٹیکس یا اِی ڈی یا اِس سے متعلق کوئی بھی ایجنسی کا وہ سامنا کرنے کو تیار ہیں لیکن جب مقدمہ ہی کسی اور راستے پر ڈال دیا جائے تو کوئی کیوں کر یہاں ہندوستان کے’’ عدل والے نظام‘‘ پر بھروسہ کر ے؟ ہندوستان میں رہتے ہوئے اُنہوں نے آئین میں دئے گئے حقوق کے تحت مذہب ا سلام کی مدبرانہ تبلیغ کی ۔بڑے چھوٹے جلسے کئے۔لوگوں کو اُن کی بات پسند آئی اور کچھ افراد نے اسلام قبول بھی کیا۔وہ ہندو بھی تھے اور کرسچین بھی۔موجودہ حکومت اور بی جے پی کا اصل نشانہ تو یہی تبلیغ ہے نہ کہ ذاکر نائک۔ہندوستان بھر میں نہ جانے ایسے کتنے ذاکر نائک ہیں جو اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ میں نکل پڑے ہیں ۔وہ عیسائی بھی ہو سکتے ہیں اور ہندو بھی لیکن نہ جانے کیوں بی جے بی اور آر ایس کو اس سے بیر ہے؟دراصل بی جے پی اور آر ایس ایس وہ تمام کارنامے انجام دینا چاہتے ہیں جو ہندوستان کے آئین کے منافی ہوں۔آئین کے آرٹیکل ۲۵،۲۶،۲۷ اور ۲۸؍ کے تحت ایک بالغ ہندوستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی مذہب کو اختیار کر سکتا ہے،اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کر سکتا ہے اور تبدیلیٔ مذہب بھی (جتنی بار چاہے) کر سکتا ہے۔تو پھر بھاجپا استعارے لّو جہاد اور تبدیلیٔ مذہب قانون کا کیا بنے گا؟بی جے پی اور آر ایس ایس کی تو یہ سیاسی اسا س ہیں۔اس لئے موجودہ دورِ حکومت میں ہندوستان میں صرف ہندو تو مذہب کے ماننے والوں کی بالا دستی ہے۔دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے یہ زمین سکڑتی جا رہی ہے یا اِس طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے گھٹ گھٹ کر مرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ابھی یومِ جمہوریہ آنے والا ہے۔جمہوریت کے بڑے بڑے دعوے کئے جائیں گے لیکن آئین میں دی گئی ضمانت پر قائم بھی رہا جائے گا یہ کہنا بہت مشکل ہے۔موجودہ اربابِ اقتدر سے تو کوئی امید نہیں۔ انصاف کا گلا جس طرح گھوٹا جا رہا ہے اور صرف اقتدار پر قائم رہنے کے لئے جو نازیبا اور غیر قانونی راستے اپنائے جا رہے ہیں ،وہ دن دور نہیں کہ ہندوستان بھی ایک ناکام ملک میں شامل ہوتا ہو ا دکھائی دے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883