ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں عدلیہ کو غیر معمولی آئینی اہمیت حاصل ہے ۔ ضلعی عدالت سے لے کر عدالت عظمی تک ملک کے ہر شہری کو انصاف حاصل کرنے کے حقوق حاصل ہیں۔ ہماری عدلیہ کو یہ خود مختاریت بھی حاصل ہے کہ وہ آزادانہ اور انصاف پسندانہ فیصلہ کرے اور ملک میں جب کبھی آئینی بحران پیدا ہو تو اس مسئلے کا حل بھی تلاش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری عدالتوں بالخصوص عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو پوری دنیا میں مثالی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد ہمار ے ملک میں جب کبھی انتظامیہ یا سیاسی حکمراں بے لگام ہوئے ہیں تو ہماری عدلیہ نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ملک کو خلفشار و بحران سے بچایا ہے مگر افسوس ہے کہ حالیہ دنوں میں ہماری عدلیہ پر ہی سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں اور بد عنوانی کے الزام میں کئی ججوں کو قبل از وقت کرسی بھی چھوڑنا پڑی ہے ۔ اس وقت جو بحران پیدا ہوا ہے اس کی نوعیت ماضی کے آئینی بحران سے قدرے مختلف ہے۔ سال رواں کے جنوری ماہ میں جب عدالت عظمیٰ کے چار فاضل ججوں نے موجودہ چیف جسٹس جناب دیپک مشرا کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی اور ان پر مبینہ طور پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ججوں کے درمیان مقدموں کی تقسیم میں مبینہ طوران کے اپنے تحفظات و تعصبات ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت بھی پورے ملک میں اس پر ہائے توبہ مچی تھی کہ عدالت عظمی کے فاضل ججوں کو اس طرح اخباری بیان جاری نہیں کرنا چاہئے لیکن بہتیرے ماہرین آئین و قوانین کا ماننا تھا کہ ان فاضل ججوں نے جو سوالات اٹھائے ہیں اس پر ملک میں سنجیدگی سے مذاکرہ ہونا چاہئے اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کیا جانا چاہئے۔ چیف جسٹس جناب دیپک مشرا نے تمام تر الزامات کو مسترد کر دیاتھا ۔ وقتی طور پر یہ پیغام بھی عام ہوا تھا کہ اب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو گیا ہے۔ عوام الناس کو بھی یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں کے درمیان مفاہمت ہو گئی ہے اور ایک دوسرے کے تئیں جو رنجش تھی ،اس کا ازالہ ہو گیا ہے مگر اچانک جسٹس مشرا کے خلاف تحریک مواخذہ کا آنا ، اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ وقتی طور پر عدالت عظمیٰ کے اندر عدم اعتمادی کی چنگاری بجھا دی گئی تھی لیکن ذرا سی ہوا ملتے ہی اس چنگاری نے شعلے کا روپ اختیار کر لیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس بار عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں نے نہیں بلکہ ہمارے سیاسی رہنمائوں نے جسٹس جناب دیپک مشرا کی کار کر دگی پر سوال کھڑے کئے ہیں اور آئینی ضابطے کے مطابق ان کے خلاف تحریک مواخذہ پیش کیا ہے۔
واضح رہے کہ ہمارے ملک میں مقننہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جب کبھی ریاستی ہائی کورٹ یا عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے خلاف عدم اعتمادی کا ماحول بنے تو ان کے خلاف آئین کی دفعہ (۴)۱۲۴ کے تحت چیف جسٹس کو اپنے عہدہ سے ہٹانے کے لئے تحریک مواخذہ پیش کرنا ہوگی۔ اس دفعہ میں اس بات کی وضاحت ہے کہ کم سے کم پچاس ممبر پارلیمنٹ کی جانب سے مواخذہ کی تحریک لائی جائے گی اور راجیہ سبھا کے چیئر مین جو کہ نائب صدر جمہوریہ ہند ہوتے ہیں، ان کے سامنے پیش کی جائے گی۔ نائب صدر جمہوریہ اس تحریک پر ذاتی طور پر غور و فکر کریں گے اور ماہرین آئین اور ملک کے آٹارنی جنرل سے بھی صلاح و مشورہ کرکے تسلیم کریں گے یا رد کریں گے۔ حالیہ مواخذے کی تحریک چونکہ کانگریس اور ان کے حامیوں کی جانب سے لائی گئی ہے اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ راجیہ سبھا ہو کہ لوک سبھا دونوں ایوانوں حزب اختلاف اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ووٹوں کی بنیاد پر حکمراں جماعت کو مات دے سکے،کیوںکہ مواخذے کی تحریک کی مخالفت میں حکمران جماعت سینہ سپر ہے۔
بہرکیف حزب اختلاف نے اپنے آئینی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے مواخذے کی تحریک پیش کی لیکن جس عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے عزت مآ ب نائب صدر جمہوریہ جناب وینکیا نائیڈو نے اس تحریک کو ردکر دیا ، اس سے پورے ملک میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ حزب اختلاف کا موقف ہے کہ تحریک مواخذہ کے نکات پر بغیر غور کئے اسے سیاسی مفاد میں رد کر دیا گیا ہے، جب کہ حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ یہ تحریک محض چیف جسٹس کو نفسیاتی دبائو میں لانے کے لئے پیش کیا گیا تھا۔ اب جب کہ حزب اختلاف بالخصوص کانگریس نے اپنا یہ عندیہ ظاہر کر دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو عدالت عظمیٰ میں لے کر جائے گی تو ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ آئینی اعتبار سے اب جب تحریک مواخذہ کو سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا تو چیف جسٹس کے بعد جو دوسرے دو سینئر جج صاحبان ہوں، وہ اس کی سماعت کریں گے یا پھر آئینی بنچ تشکیل پائے گی جس میں چیف جسٹس نہیں ہوں گے۔ چونکہ جسٹس دیپک مشرا کے خلاف پہلے سے ہی عدالت عظمیٰ میں ماحول سازی ہو رہی تھی ، اس لئے ممکن ہے کہ حزب اختلاف نے جو تیر چلایا ہے اس سے دو نشانے ایک ساتھ لگیں :ایک طرف جناب دیپک مشرا کی فضیحت لازمی ہے تو دوسری طرف حکومت کے رویہ پر بھی سوالات کھڑے ہوں گے۔ در اصل حزب اختلاف نے بہت ہی سوچ سمجھ کر یہ تحریک لائی تھی کیوں کہ وہ خود بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ اس وقت دونوں ایوان میں اس تحریک کی حمایت میں ووٹ حاصل نہیں ہو سکیں گے لیکن حالیہ دنوں میں جسٹس جناب دیپک مشرا کے ذریعہ کچھ ایسے فیصلے ہوئے ہیں جو ایس سی ، ایس ٹی اور پسماندہ طبقے کو قبول نہیں ہیں۔ بالخصوص حال میں ایس سی ، ایس ٹی کے معاملے میں جسٹس جناب دیپک مشرا نے جو فیصلہ دیا ، اس کے خلاف قومی سطح پر جو تحریک شروع ہوئی ہے اور ریزرویشن کے تعلق سے جو ان کے تبصرے سامنے آئیں ہیں ،اس سے بھی پسماندہ طبقہ ناخوش ہے۔ اس لئے حزب اختلاف کو امید تھی کہ جب دونوں ایوان میں تحریک مواخذہ پیش ہوگا تو ایس سی، ایس ٹی اور پسماندہ طبقے ممبران تحریک کی حمایت کریں گے۔ ظاہر ہے سیاست میںکبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا تھا، اس لئے اس تحریک کو رد کر کے نائب صدر جمہوریہ نے ایک طرح حکمران جماعت کو ایک بڑی مشکل سے نجات دلا دی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حزب اختلاف اس معاملے کو عدالت عظمیٰ میں کب اور کس طرح پیش کرتی ہے اور وہاں اس تحریک مواخذہ کا حشر کیا ہوتا ہے؟ کیوں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ مواخذے کی تحریک کو شروع میں ہی کچل دیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے اس طرح کی تحریک نہیں لائی گئی تھی ، بلکہ جب کبھی اس طرح کی تحریک لائی گئی تو فاضل ججوں نے خود ہی مستعفی ہو کر کسی طرح کی فضیحت سے بچ نکلنے کی دانش مندی دکھائی اور ملک کی مثالی جمہوریت کو آئینی بحران سے بچانے کا راستہ ہموار کیا ۔ اس روایت کے برخلاف موجودہ چیف جسٹس جناب دیپک مشرا نے جس طرح خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور حکمران جماعت جس طرح ان کی حمایت میں کھڑی ہے اس سے عدالت عظمیٰ کی ساکھ مسخ ہونے کا اندیشہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موبائل9431414586