مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
۲؍اکتوبر ۲۰۲۵ء کو سپریم کورٹ کے رجسٹرڈ، سینئر وکیل دہلی کے میوروہار کا رہنے والے اکہتر سالہ راکیش کشور نے چیف جسٹس پر سماعت کے دوران جوتا پھینک مارا اور چلایا کہ ’’ہم سناتن کی توہین برداشت نہیں کریںگے‘‘ جوتا چیف جسٹس تک نہیں پہونچا، لیکن یہ کس نظریہ کے تحت پھینکا گیا اور اس کے کیا محرکات ہیں، اس کا تجزیہ مسلسل کیا جارہا ہے، اتنی بات تو صاف ہے کہ گذشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران نفرت کی جو آگ ملک میں لگائی گئی ہے اور جسے گودی میڈیا نے گھر گھر تک پہونچایا ہے، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ چیف جسٹس تک محفوظ نہیں ہیں، پورا عدالتی نظام اور اس کا وقار داؤ پر لگ گیا ہے۔ یہ جوتا چیف جسٹس بی آر گوائی پر نہیں، یہاں کے عدالتی نظام پر چلایا گیا ہے۔ راکیش کشور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عدالت کے ان تبصروں سے ناراض تھا جو جسٹس گوائی نے مختلف موقعوں پر کیا تھا، چیف جسٹس نفرت کے ان سوداگروں کے خلاف تھے، تازہ معاملہ کھجوراہو کے جواری مندر میں وشنو کی سات فٹ اونچی مورتی نصب کرنے کا تھا، جسے سولہ ستمبر کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا تھا، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ پبلک انٹرسٹ لپٹی گیشن ہے، (PIL) ہے ، خود دیوتا سے پوچھ لیجیے، بی جے پی اور آر ایس ایس نے اسے سناتن کی توہین قرار دے کر کافی واویلا مچایا تھا، گودی میڈیا نے سُر میں سُر ملاکر اس کا خوب پرچار کیا، چیف جسٹس گوائی کا صبر اس موقع سے قابل دید تھا، ایک دوسرے جج نے جب اُن سے کچھ کہنے کو کہا تو گوائی کا جواب تھا کہ جانے دیجئے، میڈیا والے بات کا بتنگر بناتے ہیں۔ انہوں نے وکلاء کو صبر وضبط کی تلقین کی اور سماعت جاری رکھی، مجرم کو پکڑ لیا گیا، بارکونسل آف انڈیا نے فوری رد عمل دکھایا اور اسے تمام عدالتی کارروائیوں، پریکٹس اور وکالتی خدمات سے معطل کردیا۔ بار کونسل کے چیرمین منن کمار مشرا نے اس عمل کو عدلیہ کے وقار، ایڈووکیٹس اور بارکونسل کے قواعد کی خلاف ورزی پر مزید تادیبی کارروائی کا عندیہ دیا تھا، لیکن اس سارے معاملات کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اسے تھوڑی دیر کے بعد چھوڑدیا گیا، اوپر سے دباؤ بنا اور مجرم بری ہوگیا، یہ معاملہ اگر کسی مسلمان کا ہوتا تو وہاں موجود لوگ اس کی ماب لنچنگ کردیتے، بچ جاتا تو یو اے، پی اے لگاکر برسوں سلاخوں میں رہتا، اُسے اس قدر ٹارچر کیا جاتا کہ وہ یاتو خودکشی کرلیتا یاجیل کے دوسرے قیدیوں کو اُکساکر اسے موت کی نیند سلادیا جاتا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ چیف جسٹس دلت سماج سے آتے ہیں، مذہبی اعتبار سے وہ بودھشٹ ہیں، اس لیے ان کے فیصلے اور تبصروں کو فرقہ پرست لوگ اسی تناظر میں دیکھتے ہیں، دلت کا استحصال ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے، اس لیے راکیش نے ان کی توہین کے لئے جوتے مارے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ آر ایس ایس نے اپنی صد سالہ تقریب میں چیف جسٹس کی ماں کو مہمان خصوصی بنایا تھا، جس میں شرکت سے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ان کے نظریات اُن سے میل نہیں کھاتے، وہ بابا بھیم راؤ امبیڈکر کو اپنا آئیڈیل مانتی ہیں، اس لئے میرا وہاں جانا مناسب نہیں ہے۔ آر ایس ایس کو یہ برداشت نہیں ہوسکا اور اس نے اس توہین کا بدلہ لینے کے لیے راکیش کا استعمال کرلیا، پھر اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کرکے اسے رہا بھی کروالیا، سپریم کورٹ کے رجسٹرار اس مسئلہ پر دلچسپی دکھاتے اور اتنے بڑے واقعہ پر سرد مہری نہیں برتتے تو راکیش صرف تین گھنٹے کی پولیس پوچھ تاچھ کے بعد رہا نہیں ہوتا۔
یہ ایک اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نے واقعہ کی خبر ملتے ہی چیف جسٹس کو فون کیا اور کہا کہ ہمارے سماج میں اس قسم کی قابل مذمت عمل کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بارکونسل کے چیرمین منن کمار مشرا نے کہا کہ یہ عمل عدالت کی عظمت اور پیشہ وارانہ اخلاقیات کی کھلی خلاف ورزی ہے، پارلیمنٹ میں حزب مخالف کے لیڈر اور ممبران راہل گاندھی، سونیا گاندھی اور کانگریس صدر ملکا ارجن کھڑگے نے کہا، یہ صرف چیف جسٹس پر نہیں بھارت کے آئین پر حملہ ہے۔
اس واقعہ نے ثابت کردیا کہ بڑی تیزی سے ہمارا ملک اس سمت جارہا ہے، جہاں مذہبی اور طبقاتی تفاخر کے سامنے آئین اور عدالتی وقار بے معنی ہوکر رہ گیا ہے، اس کی اصلاح کے لئے آخر کون کھڑا ہوگا، سوچئے اور طریقہ کار کی تعین کیجئے، ایسا ہندوستانی جمہوریت کو بچانے کے لئے ضروری ہے۔
[email protected]