پرویز مانوس
دسمبر کے دن تھے، شام کاہلکا ہلکا اندھیرا پھیلنے لگا تھا،سرد ہوائیں چل رہی تھیں- یوں لگ رہا دور پہاڑوں پرکہیں برف گر رہی ہے، جمال اپنی گلی میں دھیمے دھیمے قدموں چل کر اپنے گھر تک پہنچا، اُس نے گھر کے دروازے کو ہاتھوں سے تھامتے ہوئے قدم اندر رکھا، جہاں سلور کے چند برتن اور پُرانا بستر پڑا ہوا، وہ آگے بڑھ کر کھاٹ پر بیٹھ گیا، اُس کے چہرے سے تھکاوٹ اور مایوسی صاف جھلک رہی تھی-
آگئے تم؟ کچھ لایا کہ آج بھی خالی ہاتھ آئے ہو، اُس کی بیوی نے اُسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا-
پانی کا ایک گلاس پلا دو، گلا خشک ہو رہا ہے، جمال نے اپنے گلے کو ہاتھ سے ملتے ہوئے کہا،،
یہ لو پی لو پانی ۔۔۔۔۔اب پانی پی کر ہی گزرا کرنا ہے، اُس نے جمال کی طرف گلاس بڑھاتے ہوئے کہا تو جمال نے پانی کا گھونٹ حلق سے اُتارتے ہوئے کہا،
کیا بات ہے، کافی غصے میں ہو؟
تم پر تو میرے غُصے کا بھی کچھ اثر نہیں ہوتا-
آج جو حالت ہماری ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی، پچھلے تین دن سے ایک وقت کی روٹی کھاتے ہیں، بچے بھوک سے بلکتے رہتے ہیں -بیگم جان نے چُمنی طاق میں رکھتے ہوئے کہا”
ان بارش اور سردی کے دنوں میں دیہاڑی بھی نہیں ملتی، تُو ہی بتاکیا کروں؟
پچھلے دنوں خواجہ صاحب کی جو لحد نکالی تھی، انہوں نے کچھ نہیں دیا کیا؟
اُنہوں نے کہا تھا، چہارم کرنے کے بعد آنا لیکن آج پندرہ روز ہوگئے، سوچتا ہوں اگر معاوضہ مانگنے گیا تو کہیں بُرا نہ مان جائیں – پھر بھی میں سلیم سے معلوم کرتا ہوں کہہ کر جمال نے جیب سے چھوٹا سا بٹن والا فون نکال کر کچھ نمبرات دبائے-
ہاں سلیم ۔میں جمال بول رہا ہوں، خواجہ صاحب کے بیٹے نے معاوضہ دیا تھا کیا؟
ارے کیا کہہ رہے ہو..؟
اچھا تو تجھے بھی کچھ نہیں دیا-
یار گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے، اناج بھی ختم ہوگیا ہے، دیہاڑی بھی نہیں لگ رہی ہے،
سلیم نے اُسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا- میں صبح سویرے ہی کچھ بندوبست کرتا ہوں فکر مت کر کہہ کر سلیم نے فون منقطع کردیا-
خواجہ کے بیٹے نے سلیم کو بھی پیسے نہیں دئیے ہیں- جمال نے فون جیب میں رکھتے ہوئے کہا-
یہ تو زیادتی ہے، اُن کو سوچنا چاہیے کہ میت ٹھکانے لگانے والوں کا قرض رکھ کر چہارم پر ہزاروں روپے خرچ کرنا کیا معنی رکھتا ہے _
غریبوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم لوگ روز کنواں کھود کر پانی پینے والے ہیں -خُدا نے لوگوں کی موت پر ہی ہمارا رزق منحصر کردیا ہے -بیگم جان نے جل بھن کر کہا-
اب کیا جھگڑا کروں، جمال نے غُصے میں کہا۔
میں نے کب کہا جھگڑا کرو، لیکن اپنا حق مانگنے میں کیا بُرائی ہے،اگر کچھ بندوبست نہ ہوا تو کل سے فاقے لگیں گے پھر مت کہنا- بیگم جان کہہ کر بستر بچھانے لگی-
رات آدھی دے زیادہ گزر چکی تھی، زمین اور چھتوں پر برف کی سفید پرت بچھ چکی تھی۔ آنگن سے کتوں کے دوڑنے کی آواز مسلسل آرہی تھی۔ جمال ابھی تک جاگ رہا تھا۔ اُس نے ایک نظر بیگم جان پر ڈالی اور دوسری اپنے دو معصوم بچوں پر جو اس دُنیا کے مسائل سے بے خبر سو رہے تھے۔ وہ ٹکٹکی باندھے اپنے کچے مکان کی چھت کو دیکھ کر سوچنے لگاکر ہمارے پیشے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔
انسان کام پیسوں کے لئے کرتا ہے، ضرورت کے وقت اگر پیسے نہ ملیں تو بعد میں کیا کرنا، اُسے بیگم جان کی بات رہ رہ کر یاد آرہی تھی.” کل سے فاقے لگیں گے پھر مت کہنا”
کافی دیر تک سوچنے کے بعد اُس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ کل وہ خواجہ صاحب کے گھر اپنا معاوضہ طلب کرنے ضرور جا ئے گا اور غُسال اور امام صاحب سے بھی ملے گا-انہی سوچوں میں ہچکولے کھاتے ہوئے وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا-
سردی کی ایک خنک دوپہر تھی۔ ایک بڑے سے کمرے میں چند افراد جن میں شہر کے آئمہ، غُسال اور گورکن شامل تھے، گہری سوچوں میں ڈوبے ہوئے تھے – یہ کوئی عام افراد نہیں تھے بلکہ اپنے اپنے پیشوں میں منفرد اور اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔ جمال گورکن، جو عمر بھر قبر کھودنے کا کام کرتا تھا، سلیم غسل دینے والا، جو میت کو پاک صاف کر کے اس کے آخری سفر کے لیے تیار کرتا تھا اور مولوی صاحب، جو مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ تینوں افراد اپنے اپنے پیشہ وروں کی نمائندگی کرتے ہوئے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بیان کرنے کے لیے آج اس کمرے میں جمع ہوئے تھے۔
جمال گورکن نے بحث کا آغاز کیا، “بھائیو! باپ کے مرنے کے بعد میں نے اپنی پوری زندگی قبریں کھودتے ہوئے گزار دی، ہزاروں قبریں کھودی ہونگی لیکن آج بھی دو وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے لیکن آج تک میری اہمیت کسی کو معلوم نہیں ہوئی اور نہ آج تک میری محنت کا صحیح معاوضہ کسی نے ادا نہیں کیا۔ انسان اپنی زندگی میں لاکھوں کروڑوں کماتا ہے، اپنی اولاد کے لیے مال و دولت جمع کرتا ہے لیکن جب وہ مر جاتا ہے تو ساری دولت اور جائیداد وارثوں کے لئے چھوڑ کر جاتا ہے، جس وہ ساری عمر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں لیکن قبر کھودنے والے کی اجرت ادا کرنے میں ان کے وارثوں کی جان نکلتی ہے۔ لمبی، چوڑی اور گہری قبر کھودنے میں کتنی محنت درکا ر ہوتی ہے، اُس کے لئے دو ،تین ہزار روپے دینا بھی ان کو بوجھ لگتا ہے۔ آخر ہم بھی انسان ہیں، ہمارا بھی گھر ہے، بچے ہیں اور ان کا پیٹ پالنے کے لئے پیسہ چاہیے۔ لیکن ہماری اہمیت صرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب کوئی مر جائے۔ ہماری یونین نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب سے ہماری یونین اپنے ریٹس خود طے کرے گی اور ہم کام و حیثیت کے مطابق اجرت لیں گے۔”
سلیم، جو خاموشی سے سن رہا تھا، جمال کی بات پر سر ہلاتے ہوئے بولا، “جمال بھائی، آپ کی بات سو فیصد درست ہے۔ ہم غسل دینے والے، جو میت کو آخری بار پاک کرتے ہیں، ہر بار اسی مسئلے کا سامنا کرتے ہیں۔ جب میت کے وارث غسل کے لئے بلاتے ہیں تو ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے ہم کوئی فالتو کام کر رہے ہوں۔ حالانکہ کیسے بھی حالات ہوں ،کتنی بھی مہلک وباء ہو، کتنے بھی زخم ہوں ہم یہ ساری باتیں بھول کر اپنا کام انجام دیتے ہیں-
ثواب اپنی جگہ لیکن ہمارا بھی حق ہے کہ ہماری خدمات کا مناسب معاوضہ دیا جائے۔ ہم لوگ اپنی جان پر کھیل کر بھی میت کو غسل دیتے ہیں لیکن معاوضے کی بات آئے تو یہ لوگ ہمیں ہزار یا دو ہزار روپے دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ہم بھی اپنے ریٹ خود طے کریں گے اور اپنی عزتِ نفس کا خیال رکھیں گے۔”
یہ کہہ کر سلیم نے گہری سانس لی اور چپ ہو گیا۔ کمرے میں ایک لمحے کے لئے خاموشی چھا گئی۔ مولوی صاحب، جو اب تک غور سے سب کی باتیں سن رہے تھے، بولے، ” میں آپ دونوں کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں، آپ دونوں کی باتیں سن کر مجھے اپنی زندگی کے مسائل یاد آ گئے۔ لوگ نماز پڑھنے کے لئے مسجد آتے ہیں، ہم ان کےلئے دن رات موجود رہتے ہیں لیکن جب امام کی تنخواہ طے کرنے کی بات آتی ہے تو سب کے دل تنگ ہو جاتے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں پانچ ہزار، سات ہزار، زیادہ سے زیادہ دس ہزار، یہی ہماری اہمیت ہے۔ دن میں پانچ وقت کی نماز پڑھانے پر یہ لوگ ہمیں ساٹھ ،ستر روپے فی نماز کے حساب سے تنخواہ دیتے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟ ہم بھی انسان ہیں، ہماری بھی ضروریات ہیں۔ ہمیں بھی عزت اور معاوضے کی ضرورت ہے۔”
مولوی صاحب نے اپنی بات مکمل کی تو تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ تینوں کے دلوں میں غصہ، مایوسی اور محرومی تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک کوآرڈی نیشن کمیٹی بنائیں گے جو ان کے پیشے کی عزت اور خدمات کا مناسب معاوضہ طے کرے گی-اس طرح گُل خان کو اس کوآڈی نیشن کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔
کچھ روز بعد بستی میں ایک رئیس شخص دولت خان انتقال کرگیا، اُس کے بڑے بیٹے دلاور نے گورکن کو فون کرکے لحد کھودنے کو کہا تو اُس کا جواب سُن کر ششدر رہ گیا، اور غُصے میں بولا ” میں دولت خان کا بیٹا دلاور بول رہا ہوں، اپنی اوقات میں رہ کر بات کر، تو گورکن نے جواب میں کہا، جناب آپ غُصہ مت ہوں میں نے آپ کی حیثیت دیکھ کر ہی بیس ہزار بتایا ہے اور ہاں یہ ریٹس ہماری یونین نے مقرر کئے ہیں -ایک تو پوہ کا سرد مہینہ ہے دوسرا مہلک بیماری…….
یونین؟؟؟؟؟؟ آپ لوگوں کی یہ یونین کب سے بن گئی،
جب سے آپ جیسے سرمایہ دار ہمارے پیشے کے ساتھ نا انصافی کرنے لگے-
تم چھوٹے لوگوں کی یہی پرابلم ہے، پیٹ بھر کر کھانے کو مل جائے تو آنکھوں میں چربی چڑھ جاتی ہے-
چھ فُٹ کا ایک کھڈا ہی تو کھودنا ہے، ہم تین بھائی ہیں خود ہی کھود لیں گے-
دیکھو….! پانچ ہزار منظور ہوں تو قبرستان پہنچ جانا -،،
کہہ کر اُس نے کال منقطع کردی اور خود سے بڑبڑانے لگا، دو پیسے کا گورکن مجھے اکڑ دکھاتا ہے –
بھائی جان کیا ہوا؟ عادل نے کمرے میں داخل ہوکر پوچھا-
کچھ نہیں جمال لحد نکالنے کے بیس ہزار مانگ رہا ہے – میں نے کہا، ہم تین بھائی ہیں خود ہی لحد نکالیں گے – دلاور نے موبائل پر نمبر سرچ کرتے ہوئے کہا –
لیکن بھائی جان ہم نے تو آج تک ایک اینٹ بھی نہیں اُٹھائی پھر یہ پتھریلی زمین؟
چلو دیکھتے ہیں پہلے میں اس کو فون کرلوں، کہہ کر اُس نے غسال کو فون لگایا،
ہیلو….! سلیم دلاور بول رہا ہوں میرے والد سیٹھ دولت خان انتقال فرما گئے ہیں، آپ غُسل دینے کے لئے پہنچیں-
اُن کی موت قدرتی طور ہوئی ہے یا بیمار وغیرہ تھے؟ سیلم غُسال نے پوچھا – دراصل انہیں مہلک بیماری تھی کل ہی اسپتال سے گھر لائے تھے-
اوہ ہ ہ ہ ہ ہ…. دیکھئے غُسل تو میں دے دوں گا لیکن میرا معاوضہ دس ہزار ہوگا ،کیونکہ مہلک بیماری کا رسک ہے-
دس ہزار….؟؟؟؟ تم پاگل تو نہیں ہوگئے، تمہارا دماغی توازن تو ٹھیک ہے؟
تم نے کبھی ایک ساتھ دس ہزار دیکھے بھی ہیں؟
کیوں؟ آپ کے والد کروڑوں کی دولت اور جائیداد چھوڑ کر گئے ہیں،اُن کے لئے آپ کو دس ہزار دینا بھی بار لگ رہا ہے، دیکھئے! اگر مشورہ آئے تو بتا دینا کہہ کر سلیم نے کال منقطع کردی-
اس دو کوڑی کے غُسال کی یہ مجال کہ میری کال کاٹے؟ دلاور خان کی کال ؟ یہ آج کیا ہورہا ہے؟
بھائی جان ان چھوٹے لوگوں کی فطرت ہی ایسی ہے، یہ وقت کا نا جائز فائدہ اُٹھاتے ہیں –
کل تک ہمارے قدموں میں رہنے والے آج ہمارے سر پر چڑھ کر بول رہے ہیں، خیر امام صاحب تو سنجیدہ شخص ہیں اُن سے بات کرتا ہوں،
ہیلو…..! السلام علیکم،،،، دلاور بول رہا ہوں
وعلیکم سلام…. جناب کیسے یاد فرمایا؟
امام صاحب بعد از فجر میرے والد انتقال فرما گئے ہیں، اُن کے جنازے کی تیاری کرنی ہے سوچا آپ کو بتا دوں -،،
دلاور صاحب وہ تو ٹھیک ہے لیکن پہلے غُسال اور گورکن سے بات کرکے سارا انتظام کروا کر رکھیں. میں جنازہ پڑھا دوں گا-امام صاحب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا-
لیکن امام صاحب ۔۔۔۔! وہ دونوں تو کافی بڑی رقم کا تقاضہ کر رہے ہیں، ایک بیس ہزار مانگ رہا تو دوسرا دس ہزار…،،
ہاں تو ٹھیک ہے، انہیں اپنے کام کا معاوضہ تو ملنا ہی چاہئے،
لیکن یہ کچھ زیادہ نہیں ہے؟
دلاور صاحب…! دراصل گزشتہ دنوں ہم سب کی ایک کوآڈی نیشن کمیٹی بنی ہے جس میں کچھ فیصلہ جات لئے گئے ہیں، دیکھیئے خان صاحب یہ کہانی محض تین افراد کی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کے ان تمام افراد کی ہے جو اپنی خدمات کے باوجود نظرانداز کئے جاتے ہیں۔ گورکن، غسل دینے والے اور آئمہ کرام وہ لوگ ہیں جو انسان کی زندگی کے انتہائی نازک لمحات میں موجود رہتے ہیں، لیکن ہم انہیں وہ عزت اور معاوضہ دینے میں ناکام رہتے ہیں جس کے وہ حقدار ہیں۔
لیکن امام صاحب…..!
امام صاحب نے بات کاٹتے ہوئے کہا-
“دلاور صاحب….! انسان اپنی زندگی میں لاکھوں روپے کماتا ہے، لیکن جب اُس کی وفات ہوتی ہے تو اس کے وارثوں کو آخری رسومات کے لئے کچھ ہزار روپے خرچ کرنا بھی بوجھ لگتا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو نہ صرف ان پیشوں کو حقیر سمجھنے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ انسانی اخلاقیات پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ میں کچھ زیادہ تو نہیں بول گیا-
امام صاحب کی باتیں سُن کر چند لمحات کے لئے دلاور چُپ ہوگیا، پھر مخاطب ہوا… ”
امام صاحب آپ کا معاوضہ کیا ہے؟
امام صاحب نے کہا ” ویسے تو جنازے کا کوئی معاوضہ نہیں لیکن ہماری اہمیت کو سمجھتے ہوئے اور اُن دونوں کے معاوضے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جو مناسب سمجھیں ادا کردیں -باقی اگرآپ کو مزید بات کرنی ہے تو گُل خان سے کریں،
اب یہ گُل خان کون ہے؟
یہ ہماری کوآڈی نیشن کمیٹی کا صدر ہے _امام صاحب نے اطمینان سے کہا-،،
دلاور نے دل ہی دل میں سوچا “اگر لحد نہ نکلی، غُسل نہ دیا گیا تو میت گھر میں پڑی رہے گی اور رشتہ دار ہزار قسم کی باتیں کریں گے “اُس نے الفاظ جمع کرکے کہا-
” ٹھیک ہے امام صاحب ….! آپ گورکن اور غُسال کو فون کرکے پہنچنے کے لئے کہہ دیں اُنہیں برابر معاوضہ مل جائے گا کہہ کر وہ سوچنے لگا ” بھلے ہی پیشے کے لحاظ سے یہ لوگ چھوٹے ہیں لیکن ہماری زندگیوں میں کتنا اہم کردار ہے ان لوگوں کا ……!!!!
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9419463487