اِکز اقبال ۔ قاضی آباد
مشترکہ فیملی سے تعلق رکھنے والی سبھی سنجیدہ افرادذرا متوجہ ہوں کہ ایک عورت صبح اٹھی، اپنے روزمرہ کے معمولات انجام دئیے اور ناشتے کے لیے فریج میں موجود انڈے نکال کر کھانے کے لئے تیار کئے۔ وہ ناشتہ خود بھی کھائی اور شوہر کو بھی دیا، جو اپنے کام پر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد بیوی بھی کام پر چلی گئی۔ چند گھنٹوں بعد شوہر نے فون کرکے اپنی بیوی کو بتایا کہ گھر میں تھوڑا مسئلہ ہو گیا ہے اور وہ سیدھا اپنی والدہ کے گھر چلی جائے۔ شوہر نے کہا، ’’میں معاملہ سلجھا کر تمہیں شام تک لے آؤں گا۔‘‘
بیوی نے وجہ پوچھی تو شوہر نے پہلے ٹال مٹول کی لیکن اصرار پر بتایا کہ صبح جو انڈے تم نے فریج سے نکالے تھے، وہ اصل میں اس کی بہن کے لئے رکھے گئے تھے۔ ان کی والدہ کو لگا کہ یہ کام جان بوجھ کر کیا گیا ہے اور وہ ناراض ہو گئی ہیں۔ شوہر نے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اس معاملے کو خود ہینڈل کرے گا۔لیکن عورت نے شوہر کی بات ماننے کے بجائے سیدھا بازار سے ایک درجن انڈے خریدے اور گھر جا کر اپنی ساس کے سامنے رکھ دیے۔ یہ کہہ کر کہ دو انڈے لئے تھے، بارہ لے کر آئی ہوں۔ ساس نے اس عمل کو اپنی بےعزتی سمجھا اور اپنے بیٹے سے کہا، ’’دیکھا! یہ میرے ساتھ بدتمیزی کرتی ہے۔‘‘ معاملہ بڑھتے بڑھتے اتنا بگڑ گیا کہ شوہر نے طیش میں آ کر اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔قصور وار کون؟یہ کہانی ہماری روزمرہ کی زندگی کا آئینہ ہے، جہاں معمولی معاملات بگڑ کر بڑے جھگڑوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہاں ہر کردار کے اپنے اپنے حصے کے قصور ہیں:
ساس:جو اس معمولی بات کو بڑھا کر جھگڑے کی جڑ بنی۔ بہن: جس نے ماں کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ ایسے معاملات میں صبر سے کام لینا چاہیے۔ بیوی: جس نے معاملے کو انا کا مسئلہ بنایا اور شوہر کی حکمت عملی کو رد کر کے اپنے طریقے سے بات نمٹائی۔ شوہر: جو والدہ کے دباؤ میں آ کر جذباتی ہو گیا اور انتہائی قدم اٹھا لیا۔
معاملہ کس طرح سُلجھایا جا سکتا تھا؟
یہ کہانی ہمیں کئی سبق دیتی ہے اور اگر کسی ایک فرد نے بھی تھوڑی سی سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہوتا تو یہ حادثہ رونما نہ ہوتا۔
اگر ساس اپنے اندر بڑا پن دکھاتیں، تو انڈے دوبارہ منگوا لیتیں اور معاملے کو ہنس کر نظرانداز کر دیتیں۔ بزرگوں کا کردار گھر کے ماحول کو بہتر بنانے میں اہم ہوتا ہے۔ وہ سمجھ سکتی تھیں کہ انڈے غلطی سے
استعمال ہوئے ہوں گے۔ اگر بہن اپنی والدہ کو یہ سمجھا دیتی کہ یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں ہے، تو معاملہ اسی وقت ختم ہو جاتا۔ رشتے داروں کو بھی ہمیشہ جھگڑوں کو روکنے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ بیوی کو شوہر کی بات مان کر اپنے میکے چلے جانا چاہیے تھا یا اگر سسرال گئی تو خاموشی اختیار کر لیتی۔ وہ ساس سے معذرت کر سکتی تھی کہ اسے انڈوں کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ یہ رویہ معاملے کو سلجھا دیتا۔ شوہر کو اپنے اعصاب پر قابو رکھنا چاہیے تھا اور کسی بھی حالت میں طلاق جیسا انتہائی قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ وہ اپنی والدہ کو سمجھا سکتا تھا کہ یہ معمولی بات ہے اور اسے نظرانداز کریں۔
ہماری زندگی میں اکثر تنازعات ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر شروع ہوتے ہیں جن کا حقیقت میں کوئی خاص وزن نہیں ہوتا، لیکن ان کے نتائج نسلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کہانی میں ’’دو انڈے‘‘ ایک علامت ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرتی رویے کتنے نازک اور جذباتی ہو سکتے ہیں۔
معاشرتی تنازعات کا نفسیاتی پہلو : جب چھوٹے تنازعات بگڑتے ہیں تو ان کے پیچھے اکثر اَنّا، جذباتی کمزوری اور غصے کا عنصر ہوتا ہے۔ لوگ اپنی بات منوانے کے لیے دوسروں کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں اور یہ عمل رشتوں میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ اس مسئلے کی جڑ عموماً ہماری ناقص تربیت اور صبر کی کمی ہوتی ہے۔
رشتوں کی مضبوطی کے اصول: ہر انسان کو چاہیے کہ وہ یہ سمجھے کہ رشتے ایک دوسرے کے احترام اور برداشت پر قائم ہوتے ہیں۔ اگر ایک شخص جذباتی ہو تو دوسرے کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس کہانی میں اگر کوئی ایک فرد بھی اپنی انا کو قابو میں رکھتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ ساس کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ بہو بھی انسان ہے اور غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ بزرگوں کو گھر میں محبت اور صلح کا ماحول قائم رکھنا چاہیے، کیونکہ ان کا رویہ گھر کے دیگر افراد پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ شوہر گھر کا سرپرست ہوتا ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں طرف کے رشتوں کو متوازن رکھے۔ جذبات میں آ کر طلاق دینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید مشکلات پیدا کرتا ہے۔ بیوی کو اپنے گھر کے ماحول کو سمجھنا چاہیے اور اَنا کی جگہ محبت اور احترام کو فوقیت دینی چاہیے۔ خاموشی بعض اوقات بڑے تنازعات کو ختم کر سکتی ہے۔
صبر اور تحمل کی اہمیت:جب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے تو جذبات کے بجائے صبر و حکمت سے فیصلہ کریں۔ ہر فرد کو یہ سوچنا چاہیے کہ میں اس مسئلے کو کس طرح سلجھا سکتا ہوں۔ دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ رشتے تبھی مضبوط رہتے ہیں جب ہم ایک دوسرے کی عزت کریں اور اختلافات کو محبت سے حل کریں۔معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا ایک مشکل عمل ہے، لیکن اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے رویوں پر قابو پا لیں تو بڑے تنازعات سے بچ سکتے ہیں۔ یہ کہانی ایک سبق ہے کہ رشتے نازک ہوتے ہیں اور انہیں بچانے کے لیے ہمیں اپنی اَنا، غصےاور جذباتی کمزوری پر قابو پانا ہوگا۔
آخری بات:ہم سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم ہی وہ فرد ہیں جو کسی بھی مسئلے کو سلجھا سکتے ہیں۔ اپنی نسلوں کو بربادی سے بچانے کے لیے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے رویوں میں نرمی، صبر اور محبت پیدا کریں۔ کیونکہ آخر میں ’’دو انڈے‘‘ کی قیمت سے زیادہ ایک گھر اور نسلوں کی بقاء اہم ہے۔
رابطہ۔7006857283
[email protected]