چودھری غلام عباس مرحوم جموں میں پیدا ہوئے ،وہیں ان کا بچپن و لڑکپن بیت گیا،اسی تاریخی شہر میں انہوں نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن نامی ریاست کی اولین تحریکی تنظیم سے دیگر آٹھ ساتھیوں کے ہمراہ اپنی سیاسی و ملی اور ہنگامہ خیز زندگی کا آغاز کیا اور پھر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی اولین سیاسی تنظیم آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے ریاستی مسلمانوں کی شیرازہ بندی ،سیاسی و ملی مسائل کے حل اور آزادی کے لئے زندگی کے آخری لمحوں تک سرگرمِ عمل رہے ۔چودھری غلام عباس اپنے ہنگامہ خیز عہد کی داستان اپنی سوانح ِ حیات کشمکش‘‘ بیان کر چکے ہیں۔ انہوں نے اس خود نوشت سوانح حیات میں زندگی کے تلخ و شیریں تجربوں، یادوں اور اپنوںا ورغیروںکی بے وفائیوں کے حوالے سے جو کچھ رقم کیا ہے ،وہ لفظ لفظ تاریخ کا آیئنہ ہے۔ یہ کتاب انہوں نے سینٹرل جیل امپھلا جموں میں تحریر کی ہے۔چودھری صاحب مرحوم زینتِ زنداں ہی تھے کہ ۱۴؍اور ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ ء کو بر صغیر کا نقشہ تبدیل ہو گیا ۔ جموں شہر اور اس کے ملحقہ علاقوں میں مسلمانوں پر جو قیامتِ صغریٰ بر پا ہوئی، وہ بہت ہی تندو تلخ اور ناقابل برداشت یادیںہیں ۔گو کہ اس سانحے کو بیتے آج سات دہائیاں گذر چکی ہیں مگر بقول اسی جموں شہر کے ایک بزرگ شاعر عرش ؔ صہبائی ؎
عرش کیا بھلائیں ہم وقت کی نوازش کو
زخم جو لگا دل پر نقش ِ جاوداں ٹھہرا
مشکلیں ٹوٹ پڑیں جب بھی حوادث کی طرح
کوئی اپنا نہ ہوا دلِ تنہا کے سوا
۱۴ ؍اور ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہندوستان کی تقسیم کے ساتھ پنجاب اور کچھ دنوں بعد جموں و کشمیر بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور ریاست کے سینے پر کنٹرول لائن کے نام سے ایک ایسی خونی لکیر ثبت کر دی گئی جس سے ستر سال بیت جانے کے باوجود مسلسل خون رِس رہا ہے اور وعدۂ فردا و طفل تسلیوں کی بھول بھلیوں میں اس بد قسمت سر زمین کی کئی نسلیں اپنی حسرتیں وتمنائیں لئے پردۂ خاک میں پیوست ہوگئیں ؎
راہِ خزاں میں تلاشِ بہار کرتے رہے
شبِ سیاہ سے طلب حُسنِ یار کرتے رہے
ضیائے بزم جہاں یار یار ماند ہوئی
حدیثِ شعلہ رُخساں بار بار کرتے رہے
فیض احمد فیضؔ
ڈوگرہ حکمرانی کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ کے عہد میں زندہ دلانِ جموں نے ساری ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو شخصی راج کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے اور اپنے جمہوری حقوق و آزادی کی خاطر اُٹھ کھڑے ہونے کی راہ دکھائی ۔پھر راجوری او رپونچھ کے لوگ بھی ان کی تقلید میں میدانِ کارزار میں کود پڑے ۔مرحوم چودھری غلام عباس کے ساتھ اس تحریک میں جموں کی جو مقتدر شخصیات پیش پیش رہیں ،اُن میں اللہ رکھا ساغر ،قاضی خورشید عالم ڈھوکڑی ،پروفیسر محمد اسحٰق قریشی ایڈیٹر روزنامہ ’’ــ صداقت ‘‘لاہور ،منشی معراج الدین ایڈیٹر ہفت روزہ ’’پاسبان ‘‘سیالکوٹ ،عبد الحمید نظامی ایڈیٹر ہفت روزہ ’’دور جدید ‘‘ سیالکوٹ چودھری عبد اللہ خان بُھلی ،ڈاکٹر عبد الکریم اور قاضی عزیز الدین قریشی خاص طور پر قابل ذکر ہیں َ
ہندوستان کی تقسیم کے بعد اکتوبر،نومبر ۱۹۴۷ء کے ایام جموں اورر اس کے گرد و نواح میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے کسی قیامت صغریٰ سے ہرگز کم نہ تھے ،مرحوم چودھری غلام عباس ان ایام میں سینٹرل جیل امپھلا جموں میں زیر عتاب تھے، انہوں نے یقیناً جموں جیل کی چہار دیواری میں جموں شہر میں شہید ہونے والے بے بس مسلمانوں کی چیخ و پکار ، ایک مظلوم قیدی کی حیثیت سے کلیجہ تھام کر سنی ہوگی۔ حالات قہر وجبر سے متاثرہ متاثر ہونے والے جموں کے مسلمانوں میں چودھری غلام عباس مرحوم کا خاندان بھی شامل تھا ۔ صرف ۵؍ اور ۶؍ نومبر کو جموں میں دو لاکھ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔جموں کے اس قتل عام اور بر بریت کی باز گشت جب گردونواح میں سنی گئی تو پوری ریاست جموں و کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔خاص طور پر وادیٔ کشمیر میں اس کا سخت ررد عمل ہوا ۔ اس کے خلاف جلوس نکالے گئے ۔اسی اثناء میں نگروٹہ جموں میں ایک سو کشمیری مسلمان تانگہ بانوں کو جو ڈوگروں کو سرینگر سے جموں لے کر آئے تھے، نہایت بے رحمی سے قتل کر دیا گیا ۔چنانچہ اس وقت کے ناظم اعلیٰ شیخ عبد اللہ بچے کھچے مسلمانوں کی حالت ِزار دیکھنے بذاتِ خود جموں پہنچے تو دیکھا کہ کیمپوں میں بچی کھچی مسلمان لڑکیاں بالکل برہنہ حالت میں ہیں ۔ شیخ عبد اللہ کو دیکھ کر ان لڑکیوں نے اپنی شرم گاہوں کو ہاتھوں سے چھپانے کی کوشش کی ۔شیخ صاحب نے ان خواتین اور نوجوان بچیوں کی قابل رحم حالت مشاہدہ کرنے کے بعد کہا کہ چودھری غلام عباس اور اللہ رکھا ساغر کے اور نعرے مارو ۔شخ صاحب جب اس کیمپ سے باہر آگئے تو ان کی ملاقات سرردار بدھ سنگھ سے ہو گئی جو چودھری غلام عباس کی بیٹی کی تلاش میں تھے ۔شیخ صاحب نے انہیں اس کیمپ میں جانے سے روکا مگر سردار بدھ سنگھ کیمپ میں چلے گئے اور اس کا تفصیلی معائنہ کر کے چودھری غلام عباس کی بیٹی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔سردار بدھ سنگھ نے جب اس بیٹی کو کسمپرسی کی حالت میں برہنہ دیکھا توانہوں نے اپنی پگڑی اُتار کر ا س کاستر چھپانے کے لئے دی ۔سرردار بدھ سنگھ نے اس بیٹی کو بعد میں سوچیت گڑھ کے راستے بحفاظت پاکستان بھجوا دیا۔ یہ۱۹۸۳ ء کی بات ہے جب راقم کی میرپور کے منگلا کینٹ میں اس خاتون سے ملاقات ہوئی ،اُس نے بتایا کہ جموں کے اس کیمپ میں سب لڑکیوں کی حالت ناقابل بیان تھی ۔البتہ جب میں نے شیخ عبداللہ کو کیمپ میں دیکھا تو میری کچھ آس بندھی کہ شاید وہ میری مدد کے لئے آئے ہیں مگر افسوس کہ جو آس اُن سے بندھی تھی وہ سردار بدھ سنگھ کے ذریعے پوری ہوئی ۔حالانکہ میرے ابا اور شیخ عبداللہ تحریک کے ابتدائی ساتھی تھے اور دونوں نے پورے آٹھ سال تک ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک کو منظم کیا تھا مگر افسوس !!!اللہ رکھا ساغر ،کے ایچ خورشید (خورشید حسن خورشید )اور چودھری غلام عباس تینوں ریاست کے قد آور لیڈر تھے، جن کے سامنے شیخ محمد عبداللہ کی ثانوی حیثیت تھی ۔ اسی وجہ سے شیخ محمد عبداللہ نے جواہر لال نہرو کی رضا مندی حاصل کر کے ان تینوں لیڈروں کو قیام ِپاکستان کے بعدجموں جیل سے نکال کر سچیت گڑھ کے راسے جبراً پاکستان بھجوایا۔چونکہ شیخ صاحب کو پتہ تھا کہ ان لیڈروں کی ریاست کے اس حصے میں موجودگی میری لیڈر شپ کے لئے خطرہ ہے ۔چونکہ چودھری غلام عباس اور اللہ رکھا ساغر نے ہی شیخ عبداللہ کو جموں کے طرز پر سرینگر میں ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کی شاخ قائم کرنے کی ترغیب دے کر مکتب سیاست میں متعارف کروایا تھا ۔جب کہ اس سے قبل شیخ عبداللہ ایک عام نوجوان اور اسکولی ٹیچر تھا۔افسوس کہ اگر شیخ محمد عبداللہ جواہر لال نہرو کے جال میں پھنس کر رنگین خوابوں کا جال نہ بنتا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ برا سلوک نہ کرتا اور یہ تینوں لیڈر ریاست کے اسی حصے میں رہ کر ریاست کے مستقبل کے حوالے سے تصفیہ کی تحریک جاری رکھتے تو ممکن تھا کہ آج صورت حال مختلف ہوتی لیکن شیخ صاحب نے اس قسم کے تمام افراد کو چن چن کر کنٹرول لائن کے اُس پار دھکیل دیا اور جواہر لال نہرو سے مل کر کنٹرول لائن کی لکیر کچھ ایسی کھینچوائی کہ شیخ خاندان کا خاندانی راج اور تسلط ریا ست میں قائم و دائم رہے ،مگر مکافاتِ عمل دیکھئے کہ ۸ ؍اورر ۹؍ اگست ۱۹۵۳ء کی درمیانی شب شیخ عبداللہ کو ایک معمولی پولیس آفیسر گلمرگ سے اپنے حکام بالا کے اشاروں پر گرفتار کر کے پس دیوارِ زنداں بھیج دئے گئے ۔ یہ اس وقت ریاست جموں و کشمیرکے وزیر اعظم تھے ، ۲۲ سال بعد جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کی قدم بوسی کر کے وزیر اعظم کے بجائے وزیر اعلیٰ کے طور پر دہلی نے انہیں بحال کیا ۔
مختلف لوگوں نے مختلف زاؤیوں سے اپنی اپنی خود نوشت سوانح حیات لکھی ہیں۔ اردو لٹریچر میں اس قسم کا وافر مقدارمیں موادموجود ہے۔ خود نوشت سوانح حیات اکثرمصنف کے فکری رجحانات ،اس کے سیاسی و سماجی اور مذہبی اعتقادات اور اس کے ماضی و مستقبل کی سر گرمیوں و عزائم کی عکاسی کرتی ہے ۔شیخ محمد عبداللہ کی’’ آتش ِچنار ‘‘اگرچہ شیخ صاحب کی طرف منسوب ہے مگر اس کے پس پردہ محمد یوسف ٹینگ کی ذہنی کاوشیں اور قلمی جنبشیں کا ر فرما ہیں ۔ حالیہ چند سالوں میں قائد حریت سید علی گیلانی صاحب کی تین ضخیم جلدوں پر مشتمل خود نوشت سوانح حیات ’’ولر کنارے ‘‘ منظر عام پر آچکی ہے ،جو اردو لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ ہے ۔ اس کتاب میں شروع سے آخر تک تسلسل،یکسوئی اور ایک نظریئے اور کاز کی ترجمانی ملتی ہے جس پر مصنف مستقل مزاجی سے کاربند ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مرحوم چودھری غلام عباس کی خود نوشت سوانح حیات’’ کشمکش ‘‘کا بھی ہے ۔ اگرچہ کنٹرول لائن کی دونوں اطراف ان کی شخصیت ،خدمات اور فکر پر متعدد کتابیں ،اخبارات و جرائد کے خصوصی نمبر شائع ہو چکے ہیں لیکن ان کی ذاتی سوانح حیات تحریک جموں و کشمیر کے لٹریچر میں ایک منفرد اور مخصوص مقام رکھتی ہے ۔چودھری غلام عباس کی اس خود نوشت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک زبردست قسم کے راسخ العقیدہ نظریاتی مسلمان اور نظریاتی سیاست دان تھے ۔ وہ ساری زندگی چٹان کی طرح اپنے سیاسی و مذہبی اور نظریاتی اعتقادات پر ڈَٹے نظر آتے ہیں ۔چودھری مرحوم نے ریاست میں تحریک آزادی کی بنیاد رکھی اور ملت اسلامیہ جموں و کشمیر کی رہنمائی کا فریضہ کمالِ دیانت وخلوص کے ساتھ انجام دیا۔’’کشمکش ‘‘صرف مرحوم چودھری غلام عباس کی سوانح حیات ہی نہیں بلکہ اس میں تحریک آزادیٔ جموں و کشمیر کے ابتدائی پچیس سالوں کی مستند تاریخ،اس راہِ عزیمت میں پیش آنے والے حالات و واقعات اور اپنے رفقاء کی غداریوں کا تذکرہ بھی ہے ۔
مرحوم چودھری غلام عباس کی زندگی کا دوسرا دور۱۹۴۸ ء کے بعد شروع ہوتا ہے، جب انہیں سینٹرل جیل جموں سے نکال کر ریاست کے پار والے حصے میں بھیجا گیا ۔ اس خطہ پر سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں’’ آزاد حکومت ‘‘قائم ہوئی تھی جس کا نگرانِ اعلیٰ چودھری غلام عباس کو بنایا گیا مگر پاکستان اورر آزاد کشمیر کے تمام سیاست دان اس وقت آپس میں دست و گریبان تھے اور ایک عجیب قسم کی طوائف الملوکی کی کیفیت طاری تھی ۔حکومت پاکستان نے وزارت امورِ کشمیر کا قلمدان نواب مشتاق احمد گورمانی کے سپرد کر رکھا تھا جو اپنی خداداد ذہانت و فطانت کے لحاظ سے پاکستانی سیاست دانوں اور بیورو کریسی کی صف ِاول میں شمار ہوتے تھے مگر افسوس کہ انہوں نے اپنی ساری ذہانت کشمیری رہنماؤں میں کدورت پیدا کرنے اور پھوٹ ڈالنے میں صرف کر ڈالی۔گورمانی صاحب سے جو بھی کشمیری لیڈر ملنے جاتا وہ اس سے پوچھتے کہ تم کتنے لوگوں کے لیڈر ہو ؟ پھر اُسے انعام و اکرام سے نواز کر دوسرے لیڈروں کی مخالفت اور باہمی نفاق پر مامور کرتے۔’’آزاد کشمیر‘‘ ، پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریسی کے اس گھناؤنے طرز عمل کے باعث چودھری غلام عباس صاحب بد دل ہوکر آزاد حکومت کی سربراہی سے مستعفی ہو ئے اور اپنے بھائی اے آر زبیر صاحب چیف انجینئر کے پاس سرگودھا جاکر وہیں مستقل رہائش اختیار کر لی ۔ چودھری صاحب کو پاکستانی بیورو کرریسی کے ذریعے کافی نا خوشگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ مرزا فقیر محمد راجوروی کہتے ہیں کہ پاکستانی اینٹلی جنس کے سربراہ سید عباس علی شاہ نے راقم اور چودھری غلام عباس ،اللہ رکھا ساغر ،میر واعظ مولانا یوسف شاہ ،سردار محمد ابراہیم خان ، کے ایچ خورشید ،سردار فتح محمد کریلوی ،محمد یوسف قریشی ،چودھری حمید اللہ خان ،چودھری محمد عبداللہ خان بھلی وغیررہ کو اپنی لسٹ میں شامل کر رکھا تھا جن کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی تھی ۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دریافت کیا کہ ہم صف ِاول کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک منظم کی تھی ۔ہماری خفیہ لسٹ کیوں بنا رکھی ہے ؟ تو سید عباس علی شاہ نے ان کے جواب میں کہا کہ جو لوگ حکومت کی مخالفت کرنے کے عادی ہوں، اُن کا مزاج ہی حکومت کی مخالفت کرنا بن جاتا ہے ،چاہے حکومت کسی کی بھی ہو ۔مرزا فقیر محمد راجوروی مرحوم لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے چودھری صاحب سے دریافت کیا کہ ڈوگرہ حکومت اور کانگریس کے بڑے سیاست دانوں سے ہم نے مات نہیں کھائی ،کیا وجہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے ہمیں اپنا نہیںسمجھا ؟جب راقم نے یہ مصرعہ پڑھا ع
کئے جس نے ساتوں سمندر سر
تو چودھری صاحب نے جھٹ دوسرا مصرعہ پڑھ کر شعر مکمل کر دیا
وہ ڈوبا دہانے پہ آکر گنگاہ کے
بہر حال’’ کشمکش ‘‘قائد اول جموں و کشمیر کی ایک ایسی کتاب ہے جس کا ہر گھر میں ہونا اور ریاست کے ہر مسلمان کو اس کا پڑھنا لازمی ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو کشمیر کاز کے حوالے سے اپنے بزرگوں کی قربانیوں ،جدوجہد اور اپنی قومی تاریخ کے ساتھ اُن کی ہمدردی وخلوص کا پتہ چلے ۔مرحوم چودھری غلام عباس ،اللہ رکھا ساغر،مرزا فقیر محمد راجوروی ، چودھری حمید اللہ خان،کے ایچ خورشید مولانا محمد اسماعیل ذبیح اللہ ،مونا مہرالدین قمر راجوروی، بیرسٹر یار محمد خان دُلی ،مولانا مظفر حسین ندوی ،مستری یعقوب علی،رائے غلام حسین خان جاگیردار بھجوال ،رائے محمد اقبال خان جرال پونی پارکھ،ملک عبدالرشید ریاسی ،چودھری وزیر علی کھٹانہ آف اَکھنور ثم راجوروی،چودھری علی محمد ذیلدار ،دیول گول ،اور سید احمد شاہ ادھمپورصوبہ جموں کی یہ ایسی عظیم المرتبت شخصیات ہیںجنہوں نے ہماری آنے والی نسلوں کی عزت ا ور حریت ِ فکرکی خاطر راہِ حق میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔آج صوبہ جموں کا مسلمان اور اُن کی نئی نسل اپنے ماضی کی تاریخ ،بزرگوں کی خدمات اور مستقبل میں رونما ہونے والے چیلنجوں اور تہذیبی واقتصادی یلغار سے بے خبر خوابِ غفلت میں پڑی ہے ،جسے اپنے ماضی کی تاریخ و بزرگوں کی خدمات سے متعارف کرانے کے ساتھ مستقبل کے چیلنجوں کے لئے ذہنی و فکری طور پر تیار کرنا ناگزیر ہے۔ ورنہ بقول علامہ اقبالؒ ؎
آئینِ نو سے ڈرنا ،طرز کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
نوٹ :مضمون نگارچیئرمین الہدیٰ ٹرسٹ راجوری ہیں۔
رابطہ نمبر: 7006364495