سرینگر//چمڑے کی صنعت پر گذشتہ کئی برسوں سے چھائے کالے بادلوں کا اثر گذشتہ روز قربانی کی کھالوں کی قیمتوں پر بھی صاف نظر آیا ۔قربانی کئے گئے جانوروں کی کھالوں کی قیمتیں گراوٹ کی شکار ہیں جس سے نہ صرف اس کاروبار سے وابستہ طبقے بھی متاثر ہوئے ہیں بلکہ اس صورتحال میں خیرات و صدقات پر منحصر اسلامی اداروں کا بجٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے ۔پوسٹ ہائے قربانی کا کاروبار کرنے والے طبقوں کے مطابق یہ مسلسل دوسرے سال بھی سامنے آیا کہکھالوں کی قیمتوں میں تنزلی دیکھنے کو ملی۔ایک اندازے کے مطابق وادی میں امسال 4لاکھ چھوٹے بڑے جانوروں کو عید الضحیٰ کے موقعہ پر قربان کیا گیاتاہم امسال قیمتوں میں انتہائی گرواٹ دیکھنے کو ملی،جس کی وجہ سے پوست ہائے قربانی کا کوئی بھی خریدار نظر نہیں آیا۔کھالوں کی قیمتوں میں گرواٹ کی وجہ سے براہ راست چھوٹے یتیم خانوں،بیت المال اور دارالعلوم کا بجٹ متاثر ہوا۔ان اداروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ عید الضحٰی کے موقعہ پر قربانی کی کھالوں کو جمع کر کے وہ فروخت کرتے تھے،اور انکی سالانہ بجٹ کا ایک حصہ پورا ہوتا تھا،تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران یہ رجحان ختم ہوا۔اس کاروبار سے جڑے ہوئے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب سے مرکز میں بھاجپا کی سرکار آئی ہے،یہ کاروبار ختم ہوا۔شہر خاص سے تعلق رکھنے والے کھال صنعت کے ایک کاروباری فاروق احمد قاصد نے کہا کہ چونکہ سعودی عرب میں قربانیاں بہت ہوتی ہے،اور ان کھالوں کی قیمت بہت کم ہیں،جبکہ بھاجپا سرکار نے ان پردرآمدگی کا ٹیکس ختم کیا،جس کی وجہ سے وہ کھالیں مشکل سے50سے 60روپے میں بھارت پہنچتی ہے۔فاروق احمد نے بتایا کہ کانگریس سرکار کے دوران ان کھالوں پر درآمدگی کا ٹیکس وصول کیا جاتا تھا،جس سے مقامی کھالیں ان سے سستی ہوتی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ اصل میں یہ کاروبار مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے،اور چمڑہ بنانے کی فیکٹریاں غیر مسلمانوں کی ہے۔ فاروق احمد نے مزید بتایا کہ کشمیر میں اس وقت اس صنعت سے جڑے کاروباری گزشتہ4برسوں سے دیوالیہ ہوگئے ہیں،کیونکہ مرکز کے ایک حکم نامہ سے کشمیر میں کاریگروں اور کاروباریوں کا ایک بڑا طبقہ بے روزگار ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مقامی طور پر کچھ کاروباریوں نے انڈسٹریل اسٹیٹ میں کھالوں کو صاف کرنے اور دیگر کاموں کیلئے کار خانوں کا قیام عمل میں لایا تھا،تاہم بیرون ریاست چمڑے کے تاجر وہ مال خریدنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔جموں کشمیر یتیم خانہ کے سربراہ غیاث الدین کا کہنا ہے کہ گزشتہ2 برسوں سے قربانی کی کھالوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے،جس کی وجہ سے لازماً ان اداروں کے بجٹ پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بیت المال کمیٹی کے ایک ذمہ دار راشد بن قادر کا کہنا ہے کہ ماضی میں وہ قربانی کی کھالوں سے حاصل رقم سے سال بھر ان لوگوں کی کفالت کرتے تھے،جو اس کے مستحق ہے،تاہم گزشتہ2برسوں کے دوران قیمتیں نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔2سال قبل قربانی کی کھالوں کی قیمتیں الگ الگی طے تھی،کشمیر ،راجستھانی،دلّی کے بھیڑوں کے علاوہ بکروںکی کھالوں کو الگ الگ زمروں میں تقسیم کیا جاتا تھا،اور اعلیٰ کھال کی قیمت300روپے تک پہنچ جاتی تھی،تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ امسال50 روپے سے زیادہ کسی بھی قسم کی کھال کی قیمت نہیں گئی،جبکہ اوسطاً20سے30روپے قربانی کے کھالی کی قیمت لگائی گئی۔