چلو دلدار چلو افسانہ

جبیں نازاں

ٹیلی ویژن سیٹ آن تھا، بریکنگ نیوز آرہی تھی ۔
تمام ممالک کے سر براہان اور ان کا عملہ بشمول اس خطے کے تمام امیر البحر ہجرت پہ آمادہ۔
ناظر نے سوچا _کہاں جارہے ہیں یہ لوگ۔۔۔۔؟
فلیش نیوز آئی، چاند پہ بسنے جارہے ہیں
کیوں۔۔۔۔۔۔؟ناظر کے دماغ میں سوال ابھرا ۔
دوسری فلیش نیوزکیونکہ نظام شمسی کا یہ سیارہ ۔۔ناکارہ ہوچکا ہے ۔
“مطلب ؟”
“۔۔کہ اب رہنے کے قابل نہیں ۔۔۔۔۔کہیں جائے اماں نہیں۔۔۔۔امن و امان غارت ۔۔۔۔”
بد امنی کس نے پھیلائی۔۔۔؟
ناظر نے اینکر سے یوں پوچھا کہ جیسے وہ اس کے روبرو ہو۔ اینکرروبرو تو تھا لیکن مصنوعی برقی تر سیل کے توسط سے۔
ناظر کے دماغ میں ایک لفظ بجلی کی سرعت ہے کوندا
“دہشت گرد”۔۔۔۔۔
اتنےسارے نت نئےاسلحے کس دن کے لئے بناگئے۔۔؟اور نہ جانے کون کون سے بم۔۔۔یہ کس دن کام آئیں گے؟ہلاک کرو” دہشت گرد کو۔۔۔۔۔۔۔”
ٹی ،وی اسکرین پہ دہشت گرد نمودار ہوتاہے۔سائز 4 قطر سے بھی چھوٹا۔۔جس کی شکل دھتورے کےپھل کی طرح گول اور خاردار ۔۔۔رنگ بدلتا ہوا کبھی سرخ کبھی بلیو۔۔۔دیکھتے دیکھتے پورے ٹی ،وی اسکرین پہ پھیل گیا۔۔۔ٹی ،وی اسکرین سے باہر نکل پڑا تو۔۔۔؟
یہ دہشت گرد مجھے بھی نگل لے گا۔
ناظر کی گھگھی بندھ گئ۔۔خوف و دہشت سے اس کی آنکھیں کھل گئیں-
اس نے خود کو آئیسو لیشن وارڈ میں پایا۔۔ارد گرد نظریں گھمائیں۔۔گھبراہٹ اور بےچینی حد سے سوا۔۔۔۔دھڑکن تیز ہوئی ۔۔۔۔یہ پسینہ میں تر بہ تر ۔۔۔
اور پھر دل نے دھڑکنا بند کردیا۔
یہ مریض بھی چاند کے پار چلا گیا!
���
لکشمی نگر ، نئی دہلی