13جنوری2019کے ایک فیس بک پوسٹ میں ڈاکٹر شاہ فیصل (آئی اے ایس)نے نوجوانوں اور ہمدردوں سے کہا ہے کہ اُسے جانچنے کیلئے کم ازکم انہیں چھ ماہ کی مہلت دی جائے اور پھر دیکھیں۔چھ ماہ کے بعد کیا ہوتا ہے ،یہ تو ڈاکٹر فیصل کے ہی ذہن میں ہے ۔شاید وہ تب تک اپنے آپ کو ایک منتخب ممبر پارلیمنٹ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں اور پارلیمنٹ میں ان کے مبینہ جوہر بھی کھلنے شروع ہوچکے ہونگے یا کچھ اور بات ہوگی ۔بہر حال ڈاکٹر فیصل کیلئے ضروری ہے کہ بلکہ اگر اُسے پسند آئے اور ناگوار نہ گزرے تو گزارش سمجھیں کہ وہ اپنے آپ کوکشمیر اور بھری دنیا کی سبھا میں تماشہ نہ بنائیں ۔الیکشن لڑنا اپنے وقت کا کوئی نیل آرم سٹرانگ کا کارنامہ نہیںہے۔بہت لڑچکے ہیں اور آگے بھی بہت لڑیں گے۔ممبرپارلیمنٹ بیگم عبداللہ بھی تھیںجس نے پارلیمنٹ میں چپ رہنے کا ریکارڈ بنایا۔ممبر پارلیمنٹ عبدالرشید شاہین بھی رہے ہیں اور سیاسی مسخری کیلئے مشہور شریف الدین شارق بھی۔اس وقت مظفر حسین بیگ بھی ہیں جس نے یہ تاثر دے رکھاتھاکہ وہ کسی مفاد کیلئے سیاست نہیںکررہے ہیںبلکہ بحیثیت کامیاب وکیل اللہ نے انہیں کافی کمانے کا موقعہ دیا اور اب وہ صرف عوامی خدمت کے جذبہ سے لبریز ہیں۔پھر ہوا یہ کہ جدید دور میں انہوں نے مودی کی نمرود کی خدائی دیکھی کیونکہ مودی کو بھگوان کا روپ قرار دیکر بھی وہ اس کی بندگی میں وزارت کی کرسی پر براجماں نہ ہوسکا۔ان چند مثالوں سے یہ جتانا ضروری ہے کہ الیکشن لڑنا کوئی ایساجدید ترین کارنامہ نہیں ہوگا جیسا کہ اب شاہ فیصل کی مہم بازی سے تاثر ملتا ہے۔
11جنوری کی پریس کانفرنس میں اس اعلان کے بعد کہ وہ سسٹم کا آدمی ہے اور کار ِ سرکار میں اس کا تجربہ ہے ،اس لئے وہ انتخابی عمل ہی سے خدمت انجام دے گا،اسے قصہ مختصر کردینا چاہئے اور اپنا کام کرنا چاہئے۔
دراصل کشمیر کے ہر ایک گھر میں ان کے بظاہر اچانک استعفیٰ پر افسوس اور کسی قدر صدمے کا اظہار کیاجارہا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لولاب کے ایک متوسط گھرانے سے اپنے ارادے اور جدوجہد کی بنا ء پر پہلے ڈاکٹر پھر آئی اے ایس کی شہرت پر پہنچے ۔ان کے خاندان نے المیہ اور شدید مشکلات کا مقابلہ کیا ہے ۔اس کو دیکھ کر بہت سارے نوجوان آئی اے ایس ،کے اے ایس کی جانب مائل ہوئے اور کامیاب بھی ہوگئے ۔ریاست کی بیورو کریسی میں مسلم اکثریت کا وجود آٹے میں نمک سے بھی کم ہے ۔سارے فیصلے غیر ریاستی اور غیر اکثریتی بیوروکریٹ لیتے ہیں ۔ مسلمانوںکے ساتھ الرجی ان کے نظریاتی ڈی این اے میں شامل ہے ۔ہو تو یہ رہا ہے کہ خطہ کے نام پر تین لاکھ لداخی آبادی کو ستر لاکھ وادی کی آبادی کے برابر مرعات اور ترقیات دی جاری ہیں۔بیورو کریسی کے اس طبقہ میں مسلم عناصر کا بڑھنے کا رجحان نہایت ہی حوصلہ افزاء تھااور اس کی بڑی وجہ چند برسوں سے ڈاکٹر فیصل ہی تھے ۔کیا کشمیر کے کسی غیر مرئی دشمن قوت نے یہ مثال بھی زنگ آلودہ کردی ۔کشمیر کے مسلمان زیادہ تر اس لئے پریشان ہیں ۔ایک تو یہ اس تکالیف کے شکار دور دراز کے خاندان کو ایک عروج نصیب ہوا تھا اور دوم وہ مسلم نوجوانون کیلئے بیورو کریسی میں داخلہ کیلئے ایک حوصلہ کن مثال بنے ہوئے تھے ۔کشمیر کے مسلمان فی الوقت دونوں ہی آزئوں سے محروم لگتے ہیں۔ورنہ ایک ڈاکٹر یا بیو رو کریٹ کیا کرتا ہے،کیا کھاتا ہے ،کہاں جاتا ہے ،کس کو پڑی ہے کہ اپنا دماغ کھپائے!
مشہور کہاوت ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔لیکن شاہ فیصل اس کے الٹ مہم چلا رہے ہیں۔پہلے انہوں نے تولا نہیں اور بولنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔کم ازکم تاثر ایسا ہی ملتا ہے ۔لوگ اب بھی دعائیں کرتے ہیںکہ کچھ ہوجائے اور وہ واپس اپنے عہد ے پر جائے تاکہ کم ازکم تیس سال تک کشمیریوں کو لگے کہ سیکریٹریٹ میں اپنا کوئی ہے اس لئے کہ فیصل کے اخلاق بہت ا چھے ہیں اور کرپشن کا کوئی شائبہ آج تک اُن میں نہیںپایا گیا ہے لیکن وہ جس طریقہ پر آگے بڑھ رہے ہیں اور بیانات دے رہے ہیں ،وہ فائدہ کے بجائے نقصان دہ ہی ثابت ہوسکتا ہے ۔مشہور ضرب المثل ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔وہ کتنی باتیں اور کتنے مشور ے سنیںگے اور پھر کیا کریں گے ۔اگر فی الواقع انہو ںنے مستقبل کا نقشہ راہ تیار نہیںکیا ۔میرے خیال میں اس طرح کے طریقہ کار سے وہ خوامخواہ اپنے خلاف ایک ماحول ہی نہیں بلکہ ایک تحریک کھڑا کررے ہیںجہاں سماج کے سارے ایرے غیرے اس میں شامل ہورہے ہیں۔سبھی نے اب تک ایک تماشہ سا بنالیا ہے اور خود شاہ فیصل نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر تماشہ بننے کا جیسے فیصلہ کیا ہو۔جنلوگوں کو اپنی بھی خبر نہیں ہے ، وہ بھی شاہ فیصل پر کمنٹ ضرور کررہے ہیں۔بیان بازی کا عمل اور ردعمل یونہی چلا تو کچھ ہی عرصہ میں شاہ فیصل کچھ کئے بغیر ہی کشمیر کی سب سے متنازعہ شخصیت بن کر رہیں گے ۔بقول کسے کھایا پیا کچھ نہیں،گلاس توڑابارہ آنے گا۔
ڈاکٹر فیصل نے ایمانداری سے کہا کہ وہ سسٹم کا آدمی ہے اور سسٹم کے اندرخدمت کرنے کا جذبہ رکھتا ہے لیکن اُن کے خلاف بولنے والے بیشتر افراد یہ چاہتے ہیںکہ جیسے شاہ فیصل کسی صحرا یا جنگل میں جاکر گوریلا جنگ شروع کردے گوکہ ایسے سارے افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ سسٹم کے اندر ہی رہتے ہیں ،کماتے بھی ہیں اور کام بھی کرتے ہیں۔لیکن آئی اے ایس کی نوکری چھوڑنے کی بہت بڑی قیمت کے اندر انہیں اپنی کمال صلاحیت سے بے شمار غداری کے جراثیم نظر آتے ہیں حالانکہ یہ پیمانہ وہ اپنے اوپر لاگو نہیںکرسکتے ہیں۔پھر بھی اس سب کی اصل ذمہ داری شاہ فیصل پر عائد ہوگی کیونکہ اگر انہیں مشورہ ہی کرنا تھا تو نوکری چھوڑنے سے پہلے ایسا کرنا چاہئے تھا۔اب جبکہ وہ وقت کے جبرالٹر میں کشتی جلا چکے ہیں تو دوسروںکی مشورہ بازی شاید کسی کام کی نہ ہوگی ۔ مشورہ کرنا ہی تھا تو ڈاکٹر حسیب درابو سے کرتے ،غلا م نبی آزاد سے کرتے ،نعیم اخترسے کرتے ۔ اگر ایسا کیا ہے تو پھر مزید مشورہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔
مجھے خدشہ ہے کہ مشورہ بازی کی یہ مہم دھیرے دھیرے پروپگنڈا بازی اور مخالفت کا طوفا ن بنتی جارہی ہے ۔اس سماج میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جن کا ظرف بھی کم ہے اور سوچ بھی ۔وہ اپنے ہی پیمانے سے اس کو تولیں گے اور یہ مہم یہ تاثر دے گی کہ جیسے صرف شاہ فیصل کی سیاست ہی موجودہ تحریک مزاحمت کا فیصلہ کرے گی اور وہ بھی منفی طور پر کیونکہ ڈاکٹر فیصل سسٹم کے ساتھ کام کرنے جارہے ہیں۔دولاکھ شہیدوںکی تحریک اتنی گہری اور مضبوط ضرور ہے کہ گزشتہ ستر برسوں سے نہ نہرو اور نہ شیخ محمد عبداللہ اس کو دفن کرسکے لیکن وقتاً فوقتاً حالات کی گرماہٹ سے غیر ضروری طور پر لوگ اس کا منفی شکار بن گئے ہیں۔ڈاکٹر شاہ فیصل کو ٹھنڈے دماغ سے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ غیر ارادی طور ہی سہی ،کہیں اپنے آپ کو دشمن نہ بنائے ۔وہ محض ایک فرد ہے لیکن منفی پروپگنڈا اسے غیر ضروری قدوقامت عطا کرکے نقصان پہنچا سکتا ہے۔نیک نیتی اپنی جگہ ،نتائج کا منفی رجحان وہ خود سوشل میڈیا سے اخذ کرسکتے ہیں۔ڈاکٹر فیصل کے ساتھ کشمیری سماج نے جو محبت ،ہمدردی اور توقعات وابستہ کی ہیں ،ان کی لاج رکھنا بھی ضروری ہے ۔اس سب مہم کو نہ تماشہ بننا چاہئے اور نہ خدا نخواستہ ڈاکٹر فیصل کو کوئی نقصان پہنچنا چاہئے ۔اس قوم کو ان کی ذہانت اور خدمات کی از حد ضرورت ہے ۔خوامخواہ کی مشورہ بازی اور سوشل میڈیا سے وہ دوستوں کی بجائے دشمنوں کی تعداد ہی میں اضافہ بننے کا موجب بن سکتے ہیں۔
اب چونکہ وہ مشورہ طلب کرنے کی مہم میں جٹے ہوئے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ انہوںنے ابھی آگے جانے کا صرف اصولی فیصلہ ہی کیا ہے کہ وہ سسٹم کے اندر کام کریں گے ۔کیسے ؟ و ہ کشمیریوں سے جاننا چاہیں گے ۔تو پھر یہ چند باتیں گوش گزار کرنے میں کوئی قباحت نہیں اگر وہ ان سطور کو پڑھ سکیں یا کوئی دوست ان تک یہ پہنچا سکے ۔تو مجوزہ سیاسی راستے کے علاوہ مندر جہ ذیل باتیں سامنے رکھی جاسکتی ہیں
الف : اگر انہیں واقعی بیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا غم ہے کہ انہیں ملکی سیاست اور ترقی میں درکنار کرکے بے نام ونشان کرکے ہندو فرقہ پرست قوتیں ختم کررہی ہیں تو شاہ فیصل کو ملکی سطح کی کسی بڑی پارٹی میں شامل ہوکر ہندوستانی مسلمانوںکا غم خوار بننا چاہئے ۔
ب: انہیں موجودہ گورنرستیہ پال ملک کے غیررسمی مشورہ پر عمل کرکے پھر سے ملازمت میں شامل ہوکر کشمیری عوام کی خدمت کرنی چاہئے۔
ت: ایک اعلیٰ سطح کی آئی اے ایس ،کے اے ایس وغیرہ کوچنگ اکیڈمی چلا کر کشمیری نوجوانوں کو بیورو کریسی میں شامل ہونے کی بیش بہا خدمت انجام دی جاسکتی ہے تاکہ کلیدی فیصلہ لینے والے کشمیری ہوں۔
ث: ارون دھتی رائے کی طرح ایک بہتر عالمی دانشور اور قلم کار بننے کی کوشش کریں یا پھر ایڈورڈ سعید کے نقش قدم پر چل کر کشمیر کی مزاحمتی تحریک کے عالمی دانشور بن سکتے ہیں۔نوکری سے الگ ہوکر شاہ فیصل ایک عالمی شہری ہیں ،کچھ بھی کرسکتے ہیں۔یہا ں تماشہ گری اور مشورہ بازی میں الجھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
ماخوذ: ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘ سری نگر