سرینگر//موجودہ غیر یقینی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے کہا ہے کہ ریاست خصوصاً وادی میں جو حالات پیدا کئے گئے وہ انتہائی تشویشناک اور لمہ فکریہ ہے، انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے بیچ آئے روز انسانی جانوں کا زیاں معمول بن کر رہ گیا ہے،غیر یقینیت مکمل طور پر سرائیت کرگئی ہے جبکہ لوگ عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے کہا کہ پی ڈی پی بھاجپا مخلوط اتحاد نے ریاست کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کردیا ہے جہاں بے چینی ، ماردھاڑ، خوف و دہشت اور غیر یقینیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکمران جماعتیں جان بوجھ کر کشمیر کو اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ پی ڈی پی حکومت نے گذشتہ ساڑھے 3سال میں شخصی راج کے ظلم و ستم کے ریکارڈ بھی مات کردیئے، آئے روز کرفیو اور بندشوں سے لوگوں کا جینا حرام ہوگیاہے، نمازوں پر پابندی اور مساجد پر تالے چڑھانا اب روز کا معمول بن گیا ہے۔ بے جا گرفتاریوں اور بلاوجہ پکڑ دھکڑ سے نوجوان پود عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں، ہر روز کسی نہ کسی کے مارے جانے کی خبریں موصول ہوتی ہیں ، آئے روز جنازے اُٹھ رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے۔ زبانی جمع خرچ سے لوگوں کو بہلانے اور پھسلانے کیلئے حکومتی سطح پر کچھ نہیں ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت مکمل طور پر کشمیر دشمن اور عوام دشمن ثابت ہوئی ہے۔ جنوبی کشمیر میں دہشت کا ماحول ہے جبکہ وسطی کشمیر ایک قید خانے میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے جبکہ شمالی کشمیر میں بھی آئے روز مظالم کی نئی نئی داستانیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں،گویا وادی کشمیر کو ایک اذیت خانہ میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔علی محمد ساگر نے کہا کہ مرکزی حکومت کی غفلت شعاری اور ریاستی حکومت کی غیر سنجیدگی اور نااہلی لوگوں کیلئے عذاب بنتی جارہی ہے۔ ساگر نے کہا کہ جہاں بھاجپا نے اپنا ووٹ بنک بچائے رکھنے کیلئے مسلسل 4سال تک کشمیریوں کیخلاف سخت گیر پالیسی اپنائے رکھی وہیں پی ڈی پی پی اقتدار کو بچانے کیلئے کشمیریوں پر ہورہے مظالم پر خاموشی تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھاجپا کو 4سال کی حکمرانی کے بعد مذاکرات یاد آئے اور ان مذاکرات کا ڈھنڈورا بھی ذرائع ابلاغ میں کیا جارہا ہے جبکہ زمینی سطح پرکسی کو بھی آج تک مذاکرات کی دعوت نہیں ملی ہے۔ ساگر نے کہا کہ دوسری جانب مختلف وزراءمذاکرات کے بارے میں متضاد بیانات دے رہے ہیں جس کنفیوژن کا باعث بن رہے ہیں۔ آج بھی وزیر اعظم کے دفتر میں بیٹھے ایک وزیر نے مذاکرات سے متعلق ایک اور بیان جاری کردیاہے کہ کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اگر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں ہونا ہے تو پھر مذاکرات کس لئے؟