سرینگر// بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے وادی میں امن و قانون کا نفاذ عمل میں لانے کے دوران مرچی گیس کے استعمال میں معیاری عملیاتی طریقہ کار کی کاپی پیش کرنے کیلئے حکومت کو ایک ہفتہ کی آخری مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کاپی پیش نہیں کی گئی تو یہ سمجھا جائے گا سرکار کے پاس کوئی بھی معیاری عملیاتی طریقہ کار نہیں۔ انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کی طرف سے دسمبر2011 کو کمیشن میں پیش کی گئی عرضی میں الزام عائد کیا گیا ہے’’ پولیس بڑی تعداد میں مرچی گیس کا استعمال کر رہی ہے،جس کی وجہ سے سرینگر کے کئی علاقوں کے باشندوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جبکہ چھوٹے بچے اور بزرگ مرچی گیس کی وجہ سے بیہوش بھی ہوجاتے ہیں‘‘۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی نے سرکار کو مرچی گیس کے استعمال کرنے سے متعلق معیاری عملیاتی طریقہ کا ریعنی’’ایس اوپی‘‘ کمیشن میں پیش کرنے کی ہدایت دی۔جسٹس بلال نازکی نے اپنے حکم نامہ میں کہا ہے’’ ہدایت کے مطابق معیاری عملیاتی طریقہ کار کی کاپی پیش کی جائے،ایک ہفتے کی آخری مہلت دی جاتی ہے اور اگر معیاری عملیاتی طریقہ کار(ایس او پی) کی کاپی آئندہ تاریخ تک پیش نہیں کی گئی،تو ایسا سمجھا جائے گا کہ کوئی بھی ایس او پی نہیں ہے اور یہ سب کیلئے آزاد ہے‘‘۔ عرضی میں کہا گیا ہے’ ماہرین کی رائے کے مطابق،مرچی گیس(پیپر گیس) کی کثرت سے استعمال انسانی زندگی کیلئے خطرناک ہے،یہ شدید سینے کے انفیکشن کا سبب بنتا ہے،جس سے تپ دق اور دمہ پیدا ہوتا ہے،جبکہ بچوں اور کمسنوں کی بنیائی میں بھی کمزوری آتی ہے،اور پیچش کا سبب بھی بنتا ہے‘‘۔اونتو کی طرف سے عرضی میں کہا گیا ہے کہ مرچی گیس حاملہ خواتین اور بچوں کیلئے بالخصوص تکلیف دہ ہے۔انہوں نے ایک ماہر کا حوالہ دیتے ہوئے عرضی میں کہا ہے’’ مرچی گیس کے چھڑکائومیں موجود کچھ کیمیائی اجزاء سے سانس،دل اوراعصابی مسائل پیدا ہوتے ہیں،اور موت بھی ہوسکتی ہے‘‘۔