پیلٹ کا نشانہ

سید محمد کی آنکھیں طاقچوں کی سی تھیں جن میں روشن و فروزاں چراغ دھرے تھے۔یہ روش و فروزاں چراغ اس کے اَن گنت خواب تھے۔ وہ خواب گر تھا۔ جب بھی کوئی سپنا اس کی آنکھوں میں انگڑائی لیتا تو وہ ایک چراغ کی طرح اس کی آنکھوں کو روشن کر دیتا۔ جوں جوں سید محمد کی عمر بڑھتی جا رہی تھی توں توں طاقچوں جیسی آنکھوں میں چراغوں کی روشنیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔ جب وہ چھوٹا تھا تب خوابوں کے چراغ بھی ننھے منے تھے…اُستاد جی سے شاباش کا چراغ…کسی اچھے کام کے بدلے میں امی جی سے انعام کا چراغ…کھٹی میٹھی گولیاں اور دیر تلک فرصت سے کھیتوں میں گھومنا پھرنا…کتنے ہی ننھے منے مگر بہت  سے قیمتی خوابوں کے چراغ ہمیشہ ہی اس کی آنکھوں کو روشن کیے رہتے…اپنی روشن دیوں سی آنکھوں سے اسے پیار بھی بلا کا تھا۔ ایک دفعہ اُستاد جی نے سب بچوں کو کہا تھا کہ ’’روشن ذہن لوگوں کی آنکھیں بالکل سید محمد کی آنکھوں کے جیسی ہوتی ہیں…‘‘وہ نہیں جانتا تھا کہ روشن ذہن لوگ کیسے ہوتے ہیں؟ گھر جا کر کتنی ہی دیر آئینے میں اپنی آنکھوں کو  دیکھتا رہا…شاید وہ روشن ذہن کا جواب ڈھونڈ رہا تھا…پر آئینہ اس کا جواب دینے سے قاصر تھا۔ وہ بلا کامحب وطن تھا…اگرچہ اسے حب الوطنی کے تصور سے واقفیت نہیں تھی… مگر وہ چھوٹا سا گائوں جس میں وہ اپنے والدین اور چھوٹی بہن صبیحہ کے ساتھ رہتا تھا، بہت پیارا تھا۔…یہ گائوں گائوں نہیں اس کی کل کائنات تھا…اس کی محبت کا دائرہ اس مہکتے گائوں تک ہی محدود تھا…جب کبھی وہ درویش کی طرح سبز ردا  اوڑھے پہاروں کو دیکھتا تو اس پر رعب سا طاری ہو جاتا۔ نیلا گہرا آسمان اکثر اسے اپنی جانب مائل کرتا…جب کبھی وہ ندی کے شفاف پانی میں کنکر مارتاتوبنتے بگڑتے بھنوروں میں گم سا ہو جاتا…لہلہاتے کھیت…زعفران کی خوشبو…سیبوں کی مٹھاس اس کی محبت کا محور تھے…ایک روز ابو جان نے اسے بتایا کہ ان کا گائوں ان کی وادی کا ایک حصہ ہے…ان کی پوری وادی ہی ایسی حسین ہے…‘‘اس کے ننھے سے ذہن میں وطن کا تصور ایک چھوٹے سے نکتے سے  وسیع ہو کر ایک بڑے خطے تک پھیل گیا۔  اسے اب اپنی وادی سے محبت تھی گو کہ اس نے ساری وادی نہیں دیکھی تھی پر وہ تصور کی آنکھ سے اس کا حسن دیکھ سکتا تھا۔  اس کے تخیل کی آنکھ بھی اتنی ہی روشن تھی جتنی کہ اس کے چہرے پر طاقچوں میں دھری دو آنکھیں۔ یہ محبت اس کے ساتھ ساتھ پنپتی رہی۔ ایک دن نہ جانے کیا ہوا کہ چناروں کی چوٹیوں میں آگ بھڑک اٹھی…ندی کا پانی سہم کر ٹھہر گیا… بزرگ کی طرح ایستادہ پہاڑ اُداسی میں ڈوب گئے…اس گائوں پر ہی نہیں بلکہ پوری وادی پر صیاد کا کریہہ سایا پڑ گیا تھا۔ بڑے بڑے فوجی بوٹوں نے گل دائودی کو اپنے پائوں تلے روند ڈالا…وردی میں ملبوس ہاتھوں میں آتشیں ہتھیار اُٹھائے عجیب صورت افراد جا بجا دندناتے دکھائی دنے لگے…ابو نے اسے بتایا کہ یہ دشمن ہیں …ان کی آزادی چھیننا چاہتے ہیں… انہوں نے اسے آزادی کا مطلب نہیں بتایا تھا مگر خود ہی چند دن میں عملاً اس کا مطلب سمجھ گیا…غلامی نے اسے آزادی کا مفہوم سمجھا دیا تھا…اس کے ابو اکثر صیاد سے پنجوں کی رہائی کی باتیں کرتے… اچھے دنوں کو یاد کرتے جب فضا خوشی کے نغموں سے معمور ہوا کرتی تھی…ایک روز ابو اچانک کہیں غائب ہوگئے…رات بھر وہ تینوں ان کا رستا دیکھتے رہے…اگلی صبح ان کی کٹی پٹھی لاش آگئی…سید محمد اس روز بہت رویا ، امی نے اسے بتایا کہ’’ وہ شہید ہیں اور شہید کبھی نہیں مرتا…‘‘وقت کے ساتھ ساتھ چناروں کی چوٹیوں میں لگی آگ مزید بھڑکنے لگی…سیب کے باغ راکھ کے ڈھیر میں بدلنے لگے…زعفران کی جگہ فضا ئوں میں بارود کی بو رچنے لگی…اس کی روشن چراغوں کی سی آنکھیں اس سب منظر کو دیکھ کر نہایت افسردہ تھیں…وقت کا پہیہ یونہی گھومتا رہا دن ہفتوں میں ، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں ڈھلتے رہے۔  ہر ڈھلتا سورج اپنے ساتھ مظالم کی ایک نئی داستان لے کر غروب ہو جاتا۔ سید محمد اب خود ایک استاد تھا۔ اس کے ہاتھ میں علم کی شمع روشن تھی، جس سے وہ سینکڑوں طالب علموں کو جلا بخشتا تھا۔ برسوں پہلے اس کے استاد محترم نے اس کے جو روشن ذہن ہونے کی پیش گوئی کی تھی…اب سچ ثابت ہو رہی تھی…وہ اپنے  شاگردوں میں آگہی بیدار کر رہا تھا…محکومی کے قبیح چہرے سے اسے نفرت تھی…یہی نفرت اسے آزادی سے محبت کے پیغام کو آگے پھیلانے میں چابک کا کام دے رہی تھی… وہ اپنے شاگردوں کو آنے والے وقت کی نوید دیتا…اس کی روشن آنکھیں آنے والے حسین وقت کو دیکھ رہی تھیں ، جب صیاد پر کٹا کر اپنے ہی لہو میں لتھڑا خال آلود ہو گا…تیس سالہ سید محمد کی آنکھیں اتنی ہی روشن تھیں جتنی کہ پانچ سالہ سید محمد کی ہوا کرتی تھیں… پر نہیںاب تو وہ زیادہ روشن تھیں…کیونکہ طاقچوں میں چھوٹے چھوٹے خوابوں کی جگہ ایک بڑا اور خوبصورت خواب روشن ہو چکا تھا…فطرت سے اس کی محبت اب بھی ویسی ہی تھی ۔ اب بھی وہ ندی کے کنارے بیٹھا  بلند و بالا پہاڑوں، گہرے آسمان اور سرو قامت درختوں کو دیکھا کرتا…خوابوں کی ایک بارات سی اس کی آنکھوں میں آن بستی…ہر رات وہ دیر تک اپنے گھر کی تاریکی کو ان خوابوں کی روشنی سے منور کیے رہتا…ایک رات اس کی آنکھ غیر معمولی شور سے کھلی…کوئی دروازہ دھڑ دھڑا رہا تھا…وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا…امی اور اس کی بہن صبیحہ بھی جاگ گئی تھیں…اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھولتا ، لکڑی کا کمزور دروازہ آنے والے کی لاتوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے ٹوٹ چکا تھا۔۔آنے والے وہی تھے…بڑے بوٹوں اور وردی والے نہ ہی علم کی حرمت سے واقف تھے اور نہ ہی ردا کے تقدس سے… انہوں نے مار مار کر اسے ادھ موا کر دیا…اس کی اور اس کی ماں کی آنکھوں کے سامنے اس کی بہن کی ردا تار کر دی…ان لمحوں میں وہ کتنا بے بس تھا…اس حادثے کے کتنے ہی عرصے بعد تک اس کی پور پور غم و غصے سے بھری رہی تھی… اس نے بارہا چاہا کہ وہ جائے اور دشمن کو خاک میں ملا دے…پر ایک خیال سا تھا جو اسے روک لیتا…وہ دشمن کے خلاف آگہی اور شعور پیدا کرنا چاہتا تھا…وہ یوں زیادہ بہتر انتقام لے سکتا تھا… اس نے اپنے پراگندہ وجود کو سمیٹ کر علم کی شمع اور آگہی کا چراغ ایک دفعہ پھر روشن کر دیا… اب طلبِ حریت میں وہ تنہا نہیں تھا…اس نے ایک قطار تیار کر دی تھی ۔اس دن وہ چھٹی کے بعد گھر جا رہا تھا کہ اچانک سے دو سنسناتے ہوئے پیلٹ کہلانے و الے انگارے اس کی آنکھوں میں گھس گئے۔ تکلیف کی شدت برداشت سے باہر تھی۔ کئی دن ہاسپتال میں گزارنے کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو اپنی آنکھوں کانور گنوا چکا تھا۔ آج اتنے دنوںبعد وہ گھر لوٹا تھا…پر اب اس کی دنیا اندھیر تھی…وہ بستر پر لیٹا گہرے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ خیالات کا ایک ہجوم  تھا جو کہ اسے گھیرے ہوئے تھا…جرمِ بے گناہی میں وہ اپنا کتنا کچھ گنوا چکا تھا…اور اب…اب …اس کا دل بھر آیا تھا اس سے پہلے کے اس کے ضبط  کا کٹورا اُلٹ جاتا…گہرے اندھیروں میں سے روشنی کی ایک مدھم سی لو اُبھری… جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سارے اندھیروں کو نگل لیا…وہ آنے والے حسین موسم کو دیکھ رہا تھا…جب فضائوں میں آزادی کے نغمے گونج رہے ہوں گے… اس کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی… اس کے طاقچے میں رکھے چراغ اب بھی روشن تھے…