سیّد انیس الحق
سرحدی ضلع پونچھ اور راجوری سے متصل پیر پنچال کے خوبصورت پہاڑ اور ان پہاڑوں سے گزرتی تاریخی مغل شاہرہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ گزشتہ کئی برسوںسے سیاحتی نقشے سے غائب خطہ پیر پنجاپنچال ان دنوں سیاحتی ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ حال ہی میںجموں کشمیر میں جی 20ٹورازم گروپ کے کامیاب اجلاس کے بعد جہاں پوری دنیا کی نظریں جنت ِ بے نظیر کی جانب بڑھنے لگی،وہیں خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں بھی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جس کی تازہ مثال گزشتہ دنوں ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ نے انڈیا ہائیکس(ٹریکرز) کی ایک ٹیم کو خطہ پیر پنجال کی ٹریکنگ اور مزید سیاحتی مقامات دریافت کرنے کیلئے روانہ کیا ۔ جبکہ اس سے قبل بھی یہاں کے مقامی نوجوانوں کے ایک ٹریکنگ گروپ نے پیر پنچال کی سب سے بالائی چوٹیوں کی نہ صرف سیر کی بلکہ کچھ نئے سیاحتی مقامات بھی دریافت کئے ہیں، جہاں سیاحت کے امکانات ممکن ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع پونچھ اورراجوری میں دیگر جو سیاحتی شعبہ کی ترقی کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں سب کے سب نہ صرف قابل تعریف ہیں ، بلکہ ُامید کی جا سکتی ہے جس طرح اور جس تیز رفتاری کے ساتھ سیاحت کے فروغ کو لیکر ضلعی انتظامیہ اور ضلع ترقیاتی اتھارٹیاں اقدام کرر ہی ہیں تو یقینا آنے والے چند برسوں میں خطہ پیر پنچال میں نہ صرف ترقی ہوگی بلکہ روزگار کے نت نئے باب کھلیں گے جو یہاں کے بے روز گار نوجوانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بھی بنیں گئے ۔
بس اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پیر پنچا ل میں سیاحتی ترقی کو فروغ دینے میں ذرّہ بھر بھی لاپرواہی نہ کی جائے، کیونکہ پہلے ہی بہت دیری ہو چکی ہے۔ پیرپنچال میں کتنے سیاحتی مقامات ہیں یا ان کی کیا تاریخ ہے یہ سب گنوانے میں ایک لمبی تحریر کی ضرورت ہے ۔ جبکہ راقم نے اپنا سابقہ مضمون جو G20 ٹورازم ورکنگ گروپ کے اجلاس کے بعد قلم بند کیا تھا ۔ جس کا عنوان تھا ، ’’کشمیر میںجی 20سمٹ خطہ پیر پنچال کیلئے کتنی سود مند ؟‘‘ اس میں پیر پنچال کے سیاحتی اور تاریخی مقامات کا ذکر کرنے کے علاوہ یہاں پر سیاحت کو فروغ دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔ جبکہ اس مضمون کے ذریعے راقم بطور چرخہ دیہی قلمکار ایک سیریز بنام ’’کیا کسی جنت کی یہ تصویر ہے‘‘ کا حصہ بھی رہے ہیں، جس میں انتظامیہ سے اس طرف خصوصی توجہ دینے کی مسلسل مانگ کی گئی تھی ۔ چرخہ ڈیولپمنٹ کمیونیکیشن نیٹ ورک کے کئی قلمکاروں نے نہ صرف پیر پنچال میں سیاحتی ترقی کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا تھا ، بلکہ اس خطہ کو با ضابطہ طور پر سیاحتی نقشہ پر لانے کی مانگ بھی رکھی تھی ۔ جس کے لئے صد احترام اور مبارکباد کے مستحق ہیں ضلعی آٖفیسران جنہوں نے معزز ایل جی منوج سنہا کی رہنمائی میں اس سمت ایک مثالی کام کیا ہے ۔ جبکہ ضلع انتظامیہ پونچھ نے ضلع ترقیاتی کمشنر یاسین محمد چوہدری اور سی ای او پونچھ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ڈاکٹر محمد تنویر کی مجموعی نگرانی میں ضلع بھر میں ٹورازم کے فروغ کیلئے نہ صرف کئی پروگرام ترتیب دئے ہیں بلکہ با ضابطہ طور پر پونچھ ضلع کے تحت تحصیل منڈی کے پانچ گائوں کو ٹورازم ولیج قرار دیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں پونچھ ضلع کے معروف دریا، دریائے سرن میںپہلی بار رافٹنگ کی پہل ، جبھی کے مقام پرفولک فیسٹیول کا انعقاد ، متعدد مقامات کیلئے ٹریکنگ، پونچھ اور منڈی میں سیلفی پوئنٹ کا قیام ، سرحدی گائوں اجوٹ میں فوج کی جانب سے 70فٹ اونچے ملکی ترنگے کی تنصیب، لورن سے گلی توشہ میدان گنڈولہ پروجیکٹ ، سنکھ ڈودہ اور جبھی جیسے صحت افزاء مقامات کیلئے خصوصی ٹورازم ہاٹ تعمیر کروانے کے منصوباجات وغیرہ یہ سب اقدام قابل تعریف ہیں۔
ان سب اقدام کیلئے یوٹی انتظامیہ، انڈین آرمی ،ضلع کے تمام آفیسران ،پونچھ ڈولپمنٹ اتھارٹی ، راجوری ڈیولپمنٹ اتھارٹی ، محکمہ سیاحت جموں و کشمیر یوٹی سب کے سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس سلسلہ میں پونچھ انتظامیہ کی تعریفیں عوامی سطح پر بھی ہو رہی ہیں ۔سماجی و ترقیاتی کاموں پر گہری نظر رکھنے والے ماہر تعلیم محمد عارف کہتے ہیںکہ’’ پونچھ میں ٹورازم کو لیکر جو کام پچھلے چند مہینوں میں ہوئے ہیں۔اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ یہ محض ایک شر وعات ہے ۔ ضلع بھر میں عمدہ قسم کے سیاحتی مقامات ہیں ، جن کو مزید دریافت کر نے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے اس سمت توجہ دینے پر ضلع انتظامیہ ، پونچھ ٹورازم ڈولپمنٹ اتھارٹی اوربالخصوص ڈی سی پونچھ کی کارکردگی اوراس طرف دلچسپی کی بھی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ اس طرف مزید ہنگامی سطح پر کام کیا جائے، اور زیادہ سے زیادہ انوسٹمنٹ کی جائے ۔انہوں عوامی سطح پر ٹور ازم کو لیکر ایک بیداری لانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔وہیںینورسٹی آف کشمیرکے ما تحت کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریحان احمد بتاتے ہیں کہ ’’اس سال ٹورازم کو لیکر جتنی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں وہ اس سے قبل نہیں تھی ۔یہ تبدیلیاں محض پچھلے چار مہینوں میں دیکھنے کو ملی ہیں جن میں پونچھ دریا میں بوٹنگ ، ہو یا جبی میں ثقافتی فسٹیول، یا سب سے بڑا، ٹریکنگ کا سلسلہ جس میں مقامی نوجوانوں کے علاوہ بیرونِ ریاست سے بھی ٹریکرز پونچھ کے پہاڑوں میں ٹریکنگ کرنے پہنچے ہیں۔واقعہ ہی یہ ایک خوش آئند بات ہے ، اور خطہ پیر پنجال میں ٹورازم کے فروغ کیلئے بہت بڑا اقدام ہے۔ڈاکٹر ریحان نے یہ بھی بتایا کہ یہ ٹورازم کو لیکر پونچھ میں جتنا کام ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں چرخہ تنظیم کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ چرخہ قلمکاروں کے ذریعے لکھے گئے مسلسل مضامین کی ایک سریز اس سمت انتظامیہ کی توجہ مبزول کروانے میں بہت اہم رہی ہے ۔
اسی حوالے سے لڑکیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی سماجی کارکن ریحانہ ریشی جو چرخہ کی قلمار بھی ہیں اورخطہ پیر پنجال کی پہلی خاتون قلمکار ہیں جو لاڈلی میڈیا جیسے ممتاز ایوارڈ سے سرفراز ہو چکی ہیں،کہتی ہیں کہ ہمارے پونچھ میں ٹورازم کو لیکر بہت زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں ۔اس سمت میں ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ یاسین محمد چوہدری کا کردار نمایا ہے۔جنہوں نے بذات خود جبھی طوتی اور سنک ڈوڈہ جیسے پہاڑوں پر نہ صرف وزٹ کیا ہے بلکہ وہاں پر نئے ٹورازم ہٹ بنانے ، سڑک اور دیگر کئی کام کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے ۔ ریحانہ نے بتایاکہ پچھلے دنوں ڈی سی صاحب پونچھ کے سلوتری گائوں میں کسی لیتری (جو اسوج کے مہینے میں مقامی سطح پر اجتماعی گھاس کٹائی ہوتی ہے اسے لیتری کہتے ہیں) اس میں بھی شامل ہوئے نہ صرف شامل ہوئے بلکہ انہوںنے وہاں کام کر رہے لوگوں کے ساتھ گھاس کٹائی بھی کی۔ یہ بھی کہیں نہ کہیں سیاحتی ترقی یا تبدیلی کا حصہ ہے ۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آج جگہ جگہ سیلفی پوائنٹ لگائے گئے ہیں جیسے منڈی میں سیلفی پوائنٹ نصب کیاگیا ہے ۔ ا سکے علاوہ جو حال ہی میں گنڈولہ پروجیکٹ سنکشن ہوا ہے وہ بھی خطہ پیر پنجال اور پونچھ میں سیاحتی تبدیلی کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے ۔ انہوں نے اپنے الفاظ میں انتظامیہ کی جم کر تعریف کی اور آگے بھی اُمید ظاہر کی کہ انتظامیہ اسی طرح کام کرتی رہے گی ۔ انہو ں نے چرخہ تنظیم کے ذریعے تیار کردہ قلمکاروں کا بھی تذکرہ کیا ،جنہوں نے با ضابطہ طور پر ایک سیریز شروع کر آفیسران کی توجہ اس طرف مبذول کروانے میں ایک اہم کردار نبھایا ہے ۔ وہیں اس حوالے سے جب ہم نے پیر پنچال عوامی ڈیولپمنٹ فورم کے چیئر مین محمدفرید ملک سے جاننے کی کوشش کی کہ آپ اس بارے میں کیاکہے گے ،پچھلے چند مہینوں میں پونچھ میں شعبہ سیاحت میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے؟ یا جی 20کے اجلاس کے بعد اس سمت کچھ بھی فرق پڑا ہے؟ تو انہوں نے ضلع میں ہورہی سیاحتی ترقی پر ضلع انتظامیہ پونچھ کی تعریف کی اور کہا کہ ڈی سی پونچھ کی اس طرف کافی دلچسپی ہے ۔انہوں نے خود کئی سیاحتی مقامات کا دورہ بھی کیا۔جس کی وجہ سے محکمہ سیاحت بھی کافی متحرک ہو گیا ہے۔ ملک صاحب نے بتایاکہ ’’ ہمارا گائوں آڑائی کا ٹورازم کو لیکر کچھ پیسہ جو رُوکا تھا ، جہاں ایک پارک بننی تھی اس پر بھی کچھ کام ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود ڈی سی صاحب بھی ان کاموں میںکافی دلچسپی لے رہے ہیں ۔جس کی وجہ سے کچھ گائوں ٹورازم کے نقشہ میں بھی آیا ہے۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکار اس طرف کتنی توجہ دیتی ہے ۔ کیا سرکار پیرپنچال کیلئے مزید سیاحتی ترقی کی خواں ہے؟
وہیں اسی حوالے سے جب ہم نے پونچھ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سی ای ا و ڈاکٹر محمد تنویر سے جاننے کی کوشش کی کہ عوامی سطح پر پونچھ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی بہت تعریفیں ہو رہیں مگر لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے اتنا کافی نہیں ہے، پیر پنچال میں کئی مقامات ایسے اور بھی ہیں جہاں سیاحت کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ آپ کے ٹورازم کو لیکر آگے کیا منصوبہ جات ہیں ؟ ان سوالوں کے جوابات میں سی ای او پونچھ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے بتایا ’’ ٹورازم کو لیکر ہم نے سرکار کو کافی پراپوزل بھیجے ہیں ، ہم نے جتنے بھی پیر پنچال میں ٹورازم ڈسٹینیشن ہیں ان کی نشاندہی کی ہے۔ آہستہ آہستہ سب کو سیاحتی نقشے پر لایا جا رہا ہے ۔ جہاں سڑک نہیں ہے،وہاں سڑکیں بنا ئی جا رہی ہیں ، ٹورازم ہٹ بنائے جا رہے ہیں، بیت الخلاء کی تعمیر ہو رہی ہے ۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے بیرون ریاست سے آئی ٹریکرز کی ایک ٹیم کو بھی آٹھ روزہ ٹور پر بھیجا تھا، جنہوں نے پیر پنجال کی مشہور 14چھوٹی بڑی جھیلوں کا دورہ کیا ۔ سی ای او ٹورازم نے بتایا کہ بیرون ریاست سے کافی تعداد میںسیاح اب پیر پنچال کا بھی رخ کررہے ہیں۔ آئندہ منصوبہ جات پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم آنے والے دنوں میں ڈنہ شاہ ستار کے مقام پر شہستار لٹریری فسٹیول کا انعقاد بھی کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ آرمی کے ساتھ مل کر پونچھ لنک اپ ڈے منعقد کررہے ہیں۔ساتھ ہی پونچھ میگا کلچر ایونٹ وغیرہ جیسے پروگراموں پر بھی انہوں نے جانکاری سانجھا کی ۔ان سب باتوں سے یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم پیر پنچال کے سیاحتی شعبہ میں مزید ترقی کی بہاریں دیکھیں گے۔ (چرخہ فیچرس)
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)