عصر حا ضر میںکسی بھی تحریک ، جماعت، انجمن یا ادارے کو اپنی دعوت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے ایک رسالہ ، مجلہ یا ترجمان( Mouth Piece ) کی بھی حاجت ر ہتی ہے۔ برصغیر کی مختلف النوع تحاریک میں بھی کئی ایک سیاسی، ادبی اور سماجی تنظیموں کی طرح دینی جماعتیں بھی رسالے اور مجلے شائع کئے اور کر رہے ہیں۔ یہ اصل میں ان کے فکرو نظرکی ترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے بانی اور بیسویں صدی کی عہد ساز شخصیت مولانا سیدابولاعلیٰ مودودیؒنے بھی جماعت اسلامی کی فکرودعوت لوگوں تک پہنچانے کے لیے’’ ترجمان القرآن ‘‘نامی رسالے کا اجراء کیا اور اِسی رسالہ کے توسط سے اپنے افکار و نظریات دنیا کے سامنے پیش کئے۔ بعینہٖ ریاست جموں کشمیر کی طلبہ تحریک ’’اسلامی جمعیت طلبہ ‘‘جو 1977ء میں کشمیر میں معرض وجود میں آئی، بھی اپنی دعوت کے نشرو اشاعت کے لیے ’’ پیام ِطلبہ‘‘ (جو کہ ابتدائی ایام سے مختلف ناموں سے شائع ہوا کرتا تھا)کے نام سے ایک اردو ماہنامہ شائع کرتی ہے ۔ سر کولیشن کے اعتبارسے ’’پیام ‘‘ کو جموں کشمیر میں خاصی پذیرائی کا اعزاز حاصل ہے ۔(الحمد للہ)۔ مذکورہ رسالہ میں ہر ماہ کسی خاص موضوع (Theme)پر فوکس کرکے درجنوں مضامین پیش کیے جاتے ہیں۔ ’’پیامِ طلبہ‘‘ کا تازہ خصوصی شمارہ ’’ مولانا مودودیؒفکر نظر‘‘ کے عنوان کے تحت چھپ کر آیا ہے ۔ زیر قلم مضمون اسی خصوصی شمارے کی ورق گرادنی پر مبنی ہے۔
ادارہ پیام طلبہ ’’مولانا مودودیؒفکر و نظر‘‘ غیر معمولی اس لیے ہے کہ اس میں کئی قلم کار حضرات نے مولانا مودودیؒ کی فکر و نظر کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت پر غیر جانب داری سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس رسالے کی خصوصی بات یہ بھی ہے کہ اس میں سید جلال الدین عمری (امیر جماعت اسلامی ہند)،ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی،پاکستان کے نامور قلم کار اور تجزئہ نگار اوریا مقبول جان ،عالمی ماہنامہ’’ ترجمان القرآن ‘‘کے مدیر اور عالمی شہرت یافتہ مفکر پروفیسر خورشید احمداورمعاون مدیر سلیم منصور خالد جیسے حضرات کے رشحات قلم شامل ہیں ۔ رسالے کی ابتدامیں تذکیر کے عنوان کے تحت درسِ قرآن و درسِ حدیث شامل ہے۔ رسا لے میں کل 25؍مضامین شامل ہیں جن کو مختلف ذیلی عنوانات کے تحت بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ ’’ننھے شاہین‘‘ عنوان کے تحت رسالہ مسلسل بچوں کے صفحے کے نام سے ایک مضمون شامل کرتا ہے جس کا مقصد چھوٹے نونہالوں کومطالعے کی اور بچپن سے ہی رغبت دلانا ہے ۔ اسی طرح سے’’ آئینہ‘‘ عنوان کے تحت قارئین کو رسالہ میں مضامین کے حواے سے اپنے خیالات کے اظہار ا موقع کے ساتھ ساتھ نقد و تبصرے کا بھی موقع دیا جاتا ہے ۔ مذکورہ رسالے میں مولانا مودودیؒ فکر و نظر ‘‘ پہلے ذیلی عنوان میں سید مودودیؒکیسے تھے؟،مولانا مودودیؒ کی حیات و خدمات،ماضی قریب کی اسلامی تحریکیںاور سید مودودی ؒکی خدمات ،دین اسلام کا حرکی تصور،مولانا مودودی ؒ کافکری کارنامہ ،افکارمودودیؒ کی عصری معنویت ،مولانا مودودیؒ:ایک فکری اور تحریکی رہنما،مولانا مودودی ؒکا اصل کارنامہ ،مولانا مودودی کا نظریہ ٔانقلاب جیسے موضوعات پر مفصل اور پُر مغز مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ذیلی عنوان نمبر دو میں’’ انٹرویو ‘‘ جس میں امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر کا خصوصی انٹرویو بعنوان ’’اتنا عظیم بن جا کہ منزل تجھے پکارے ‘‘ زینت شمارہ بنا ہے ۔تیسرے عنوان ’’افکار مودودیؒ‘‘ کے نام سے موسوم ہے ،جس میں سید مودودی ؒاور جدید نظریاتی کشمکش،فکر مودودی ؒاور مغربی مفکرین،سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ:ایک عملی مفکر،کلام وحی تبیین نبی ﷺ تفہیم مودودیؒ،مولانا مودودیؒ پر نقد و تبصرہ،’’تفہیم القرآن‘‘ امتیازی خصوصیات ،مولانا مودودیؒ کی چند معروف کتابوں کا تعارف ،موانا مودودی ؒکو سزائے موت اور رحم کی اپیل سے انکار ،وہ شاہ بطوت بھی ٹوٹ گرا،بھی شامل ہیں ۔تعارف کتب کے عنوان میں تذکرہ سید مودودی ؒ کا تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ احوال کشمیر پر ’’ نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے‘‘ عنوان کے تحت ایک مضمون درج ہے۔’’فکر صحت ‘‘میں’’ موٹاپا کم کرنے کے طریقے ‘‘جیسے مضامین شامل اشاعت ہیں ۔ رسالے کے اداریہ میں ایڈیٹر پیام طلبہ برادر جاوید شاہین ’’ہماری بات‘‘ عنوان کے تحت خصوصی شمارے کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ’’پیام طلبہ کے اس شمارے میں ادارہ نے مولاناؒ کی بلند پایہ شخصیت اور آپ کی فکر و نظر کو موضوع بنا یا ہے تا کہ نسل نو اس عظیم شخصیت سے متعارف ہو سکے اور ان کے عظیم کردار اور مساعی جمیل سے آشنا ہو سکے ۔اُمید ہے قا رئین اس شمارے کے مطالعہ سے بات سمجھ پائیں گے کہ فکر مودودیؒ دراصل فکر اسلام کا ہی دوسرا نام ہے ۔‘‘ امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر محترم ڈاکٹر عبدالحمید فیاض کا انٹرویو خصوصی اہمیت کا حامل ہے جس میں امیر جماعت نے اپنی نجی زندگی اور تحریک سے وابستہ ہونے کی رُودادکے علاوہ دنیا کی تحریکاتِ اسلامی پر بالعموم اور ریاست جموں و کشمیر کی تحریک اسلامی پر بالخصوص متعدد سوالات کے دلچسپ جوابات دئے ہیں۔ پیام طلبہ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال ’’اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے لئے اپنے پیغام ‘‘میں محترم موصوف فرماتے ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ نوجوانوں کی اصلاح اور اُن کی دینی تربیت کے ساتھ ساتھ اُنہیں باطل نظریات سے باخبر رکھیں ،تاکہ ہماری نسلیں گمراہی کے دلدل میں نہ پھنس جائیں۔ محترم موصوف حضرت عمرؓ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمر ؓنے فرمایا ہے جس نے اسلام کو جانا اور جاہلیت کو نہیں پہنچانااُس نے اسلام کی زنجیر کو ٹکرے ٹکرے کر دیا ۔اسلامی جمعیت طلبہ کو اس کوشش میں لگا رہنا چاہے کہ وہ ریاست کے ہر طالب علم تک پہنچ جائے اور اُنہیں دین دارانہ زندگی گزارنے پرنہ صرف آمادہ کرے بلکہ اُنہیں اپنی صلاحتیں دین اسلام اور ملت کی خدمت میں صرف کرنے کے لئے تیار کرے، اس میں ہماری دنیااور آخرت کی بقاء ہے ۔‘‘ ڈاکٹر حسن رضا اپنے مضمون’’دین اسلام کا حرکی تصور‘‘ کی شروعات ہی میں مولانا مودودی ؒ کومجدد کے طور پیش کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی کا خیال پیش کرتے ہیں ۔ڈاکٹر حسن رضا اپنے مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’دین فرد کی ذات تک سمٹ کر ایک روایتی عقیدہ و بے روح مراسم عبودیت اور کچھ آداب ورسمی اعمال تک محدود ہو کر جمود کا شکار اور تاریخ سازی کی قوت سے کنارہ کش ہو چکا تھا۔مولانا مودودیؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اسلام میں تاریخ سازی کی۔۔۔ اس راز کو دوبارہ عام کیا اور ملت اسلامہ کو کشمکش حیات کے عین منجھدار میں لا کھڑا کیا۔ اسلام کو حالات حاضرہ کے مسائل کا حل بنا کر اس میں ایک حرکی توانائی پیدا کی ۔‘‘(ایضاً) جیسا کہ ہم جانتے ہیںکہ عصر حاضر میں دنیا میں دین و سیاست کی تفریق کے حوالے سے انسانی سروں کی ایک خاصی کھیپ تیار کی گئی ہے جو دین کو سیاست کے ساتھ جوڑنے کو گناہ کے طور پیش کرتے ہیں ،اسی سلسلے میں محترم فیصل اقبال(سابق ناظم اعلیٰ)نے’’ مولاناؒ کا نظریۂ سیاسی ‘‘کے ذیلی عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ’’مولانا مودودیؒ نے دین و سیاست کی دوئی کو ختم کر کے سیاست میں اسلام کی رہنمائی کو کھول کے رکھ دیا ہے ۔آپ نے تھیو ڈیماکریسی (theodmocracy)کی اصطلاح پیش کر کے اسلام کو مغربی جمہوریت اور پاپائیت سے پاک کیا اور امت مسلمہ کو ایک درمیانی راہ اختیار کرنے کی ترغیب دی ۔مولاناؒ نے اسلامی ریاست کے حوالے سے مکمل خاکہ پیش کیا اور پاکستان میں قرار داد ِ مقاصد کو پیش کرنے میں اہم رول ادا کیا۔‘‘(ایضاً) فکر مودودیؒ سے وابستہ افراد کو اکثر عموماًبرصغیر میں اور خصوصاً جموں وکشمیر میں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ اس فکر سے وابستہ افراد مولانا مودودیؒ کی ہی تصنیف کردہ کتب یا مولانا کی طرف سے برپا کی گئی تحریک کا نظریہ و فکر کا مطالعہ کرتے ہیں اور دیگر افکار کو اس تحریک سے وابستہ افراد پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔اسی حوالے سے ایک مضمون برادر عمر سلطان (سابق ناظم اعلیٰ)کا بھی باصرہ نواز ہوا۔ مضمون ’’مولانا مودودی ؒ ایک عملی مفکر‘‘ عنوان کے تحت رقم کیا گیا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں ’’مولانا مودودی ؒ ایک مفکر اور ایک نظریہ سا زشخصیت تھے اور اُن کو فلسفیوں اور صوفیوں سے جو ڑنا یا اُن کو فلسفہ اور تصوف جہانوں میں دریافت کرنے کی کوشش کرنا یقیناًان کی شخصیت سے نا انصافی ہو گی۔جو لوگ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اور مولانا مودودی ؒ کے محبان پر یہ الزام لگاتے ہیںکہ وہ مخصوص اُن کی کتابوں سے آگے نہیں بڑھتے ،اُن کی یہ رائے اُس وقت بے وزن ہو کر رہ جاتی ہے جس سے اس حقیقت سے آشنائی ہوتی کہ اس رجل رشید نے نہ صر ف اپنے ہم نواوں بلکہ تمام مسلمانوںکو اُبھارا ہے کہ وہ مطالعہ کو اپنا حرز جاں بنائیں ۔مغربی نظریۂ سیاست و فلسفہ کو نہ صرف پڑھنے کی حد تک پڑھیں بلکہ اسے سمجھنے کی کوشش بھی کریںاور ان علوم میں اعلیٰ درجہ مہارت حاصل کریں۔‘‘(ایضاً)مولانا مودودیؒ کی چند مشہور کتابوں کا تعارف برادر ہلال احمد تانترے نے مختصراً لیکن جامع انداز میں کیا ہے، مولانا ؒ کی کتابوں کا تعارف پڑھنے کے دوران قاری کے اندر ان کتابوں کا راست مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے ۔پروفیسر خورشید احمد کامضمون بھی نظروں سے گزار جس میں پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’مولانا محترم نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا :’’اگر میرا وقت آگیاہے تو کوئی مجھے بچا نہیں سکتا ،اور اگر میرا وقت نہیں آیا تو یہ لوگ اُلٹے بھی لٹک جائیں تو میرا کوئی نقصان نہیں کر سکتے ۔‘‘انہوں نے اپنی اہلیہ ،اولاد اور ذمہ داران جماعت کو بھی مشورہ دیا کہ کوئی کسی بھی شکل میں رحم کی اپیل نہ کریں اور فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں ۔پھر ملک اور عالم ِاسلام میں شدید درعمل کے دبائو میں حکومت نے سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کر دیا۔‘‘(ایضاً)غرض اس طرح کے بہت سارے مضامین ہیں جن کو پڑھ کر انسان واقعی مولانا مودودی ؒ کے فکر و نظریہ کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت سے بھی محبت و جنون کی حد تک لگائو پیدا ہوتا ہے ،یہاں تک کہ بہت سارے ناقدین نے مولانا ے محترم ؒ کی تصانیف کو اس لئے پڑھا کہ وہ اس میں سے چند ایسی باتیں نکالی جائیں جن کے ذر یعے اس نابغہ روزگار شخصیت کی فکر دنیا کے سامنے اسلام کی ضد کے بطور پیش کی جاسکے لیکن اتفاق یہ ہوتا تھا کہ ان میں سے اکثر ناقدین مولاناؒ کو پڑھ کر ان کی فکر وخیال کے عاشق بن جاتے تھے کیونکہ اس کا سرچشمہ صرف قرآن و حدیث ہیں ۔تبصرے کی طوالت کو دیکھتے ہوئے میں ایک ایک کر کے سارے مضامین پر بات کرنے سے قاصر ہوں ۔
’’پیامِ طلبہ ‘‘کا یہ خصوصی شمارہ کئی حیثیتوں سے غیر معمولی ہے۔ رسالے کا سر ورق جس میںمفکر اسلام ؒ کی تصور خوبصورتی کے ساتھ لگائی گئی ہے جو دیکھنے والے کو اپنے طرف کھنچتی ہے سرورق کے ایک حصہ میں موجودہ امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر محترم ڈاکٹر عبدالحمید فیاض کی تصویر بھی چسپاں کی گئی ہے۔ سرورق دیدہ ذیب ہے اوراس کی ڈیزائنگ قارئین کو بصد شوق مطالعے کی دعوت دیتا ہے۔ ایک اور خاص بات وہ یہ کہ آج پہلی مرتبہ’’ پیام طلبہ‘‘ کے خصوصی شمارے میں قلم کار حضرات کے مضامین کے ساتھ اُن کی تصاویر بھی لگائی گئی ہیں جش کی بدولت قارئین کو معزز قلم کاروں کے چہرے مہرے دیکھنے کا موقعہ بھی ملا۔غرض مجموعی طور پر ’’پیامِ طلبہ‘‘ کا یہ خصوصی شمارہ کئی حیثیتوںسے اہمیت کاحامل ہے لیکن رسالے میں بعض خامیاں بھی رہ گئی ہیں۔ جیسے تمام مضامین کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی باتوں کو بابار دہرایا گیا ہے۔ مثلاً جو بات گزشتہ مضمون میں پڑھنے کو ملی، وہی بات آنے والے مضمون میں الفاظ کے اُلٹ پھیر کے ساتھ پڑھنے کو ملی ، اس وجہ سے قاری اُکتاہٹ بھی محسوس کر سکتا ہے ۔اسی طرح سے مولانا کی چند کتابوں کا مختصر تعارف بھی ایک مضمون میں پیش کیا گیا ہے لیکن چند مضامین میں ان ہی کتابوں کا ذکر پڑھنے کو ملتا ہے جس پر غور کیا جانا چاہے تھا۔ املاء کی چند غلطیاں بھی نظروں پر گراں گزرتی ہیں لیکن املاء سے بھی ایک اہم غلطی یہ ہے کہ کمپیوٹر کی وجہ سے اس میں چند الفاظ جُڑ گئے ہیں جس سے مطالعہ کرتے دوران قاری اچھا محسوس نہیں کرتا۔ یہ پروف ریڈنگ میں کوتاہی کا شاخسانہ ہے۔مثال کے طور پر ایک جگہ الفاظ جُڑنے کی وجہ سے مولانا مودودی ؒ کی جگہ’’ مولانا مودودینے ‘‘ہو گیا ہے ۔اسی طرح سے مضامین کی فہرست کے صفحہ پر دو مضامین کا ایک ہی صفحہ نمبر دیا گیا ہے ۔ چونکہ سلامی جمعیت طلبہ ایک طلبہ تحریک ہے جس کا مقصد طلبہ کو فاسد نظام ِ تعلیم کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنا ہے،اس سلسلے میں مولانا ؒ کا دیا ہوا نظریہ تعلیم اور مولانا ؒکی نوجوانوں کے تئیں ہمیشہ جو فکر مندی رہی ،اس پر بھی چند مضامین تفصیل کے ساتھ ہونے چاہے تھے ۔ یہ مستقبل کے لئے ایک قابل غور تجویز ہے۔
الغرض’’ پیام ِ طلبہ‘‘ کا زیر تبصرہ شمارہ اُمت مسلمہ کے نوجوانوں کومولانا مودودیؒ کی فکر سے متعارف کرانے میں ایک اچھی اور مثبت کوشش کی حیثیت رکھتا ہے۔ بے شک آج کی دنیا میں معلومات اورمفیدات کے حوالے سے جدید وسائل کی بھرمار ہے، جن کی وساطت سے متلاشیانِ حق فکرونظرکی تہ در تہ دنیا کی پیچیدگیاں سمجھ سکتے ہیں ، پھر بھی مولانا موددویؒ جیسی عبقری شخصیت پر اس نوعیت کا مفیدمواد پیش کرنا یقینا مبارک کام ہے ۔اس کے لئے سب پہلے’’ پیام طلبہ‘‘ کے ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ ادارتی بورڈ اور خاص طور پر اسلامی جمعیت طلبہ کا مرکزی نظم مبارک باد کے مستحق ہیں جو وقتاً فوقتاً اس طرح کے اہم موضوعات کو ہمارے سامنے لاتے ہیں ۔ان سے علی الخصوص کشمیر کی نوجوان پودباطل افکار اور عالم ِکفر کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ رہتی ہے ۔ ادارہ ’’پیامِ طلبہ‘‘ کی یہ کوشش اس حوالے سے لائق احترام ہے۔ ان سطور کے توسط سے قارئین سے التماس ہے کہ ’’پیامِ طلبہ‘‘ کا یہ خصوصی شمارہ اسلامی
جمعیت طلبہ کے مرکزی دفتر واقع باراں پتھر بتہ مالو سرینگر یا ہر ضلع میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ذمہ داروں کے ساتھ رابطہ کر کے جلد از جلد حاصل کرکے اپنی دینی معلومات میں ضرور اضافہ کریں۔