اس سے قبل پہلگام کی سیر کا موقع زندگی میں دو ہی مرتبہ ملا ہے۔ پہلی مرتبہ غالباً ۲۰۰۰ء میں جب میں دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھا اور پرائیویٹ ٹیوشن کے لیے فتح کدل میں قائم ایک نجی اکیڈمی میں پڑھتاتھا۔ اس اکیڈمی میں ہمارے اسکولtiny tots high school کے ہی زیادہ تر لڑکے اور لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ وہاں پر اساتذہ نے پہلگام جانے کا پروگرام بنایا جس پر تقریباً تمام طلبہ نے جانے کی حامی بھر لی۔ مجھے یاد ہے اْس وقت پہلگام کی ڈیولپمنٹ نہ ہونے کے برابر تھی، صرف قدرتی خوب صورتی تھی۔ آج جس طرح باغات سجائے گئے ہیں ، بچوں کے لیے پارکوں میں مختلف قسم کے جھولے لگائے گئے ہیں اور ایک چڑیا گھر بھی بنایا گیا ہے جس میں بھالو ، چیتاوغیرہ رکھے گئے ہیں۔ان تمام چیزوں کا اْس وقت نام و نشان بھی نہیں تھا۔ بہر حال دوسری مرتبہ۲۰۱۵ء میں کچھ دوستوں کے ہمراہ پہلگام گھومنے آئے تھے۔ امر واقع یہ ہے کہ کشمیر میں جتنے بھی صحت افزاء مقامات ہیں ان میں میری سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ پہلگام ہے۔ کیوں کہ یہاں تفریحِ طبع کے لیے ہر چیز میسر ہے۔ فلک بوس پہاڑ، گھنے دیودار کے درخت، خوب صورت آبشار،لیدر کی حسین، مائل بہ سبز رنگ ندی اور سرسبز باغات غرض خالق کائنات نے اس جگہ کو ہر حیثیت سے نوازا ہے۔ پہلگام کی وادی وسیع و عریض رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں دیکھنے لائق کئی جگہیں ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر انسان یہاں ہفتہ بھرسیر وسیاحت کے لیے آئے تب بھی پورا پہلگام دیکھنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے میں یہاں اختصار سے پہلگام کی چند مشہور تفریح گاہوں کا ذکر کروں۔
کولا ہائی گلیشیر: یہ ایک پہاڑی ہے جس کے دامن سے لیدر ندی نکلتی ہے پہلگام سے بواسطہ آرو اس گلیشیر یا وادی تک پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ علاقہ کبھی سال بھر برف سے ڈھکا رہتا تھا لیکن مختلف وجہ سے یہاں برف پگھلنے لگی ہے اور ایک مطالعہ کے مطابق1985سے اب تک یہ گلیشیر نصف پگھل چکا ہے۔
بے تاب وادی: یہ وادی دلکش اور حسین پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے۔ یہ مقام پہلگام سے 15کیلو میٹر دور ہے۔ سنی دیول اور امریتا سنگھ کی مشہور فلم ’’بے تاب‘‘ کی تمام شوٹنگ اسی مقام پر ہوئی تھی اسی لئے یہ علاقہ بے تاب وادی کے نام سے مشہور ہوگیا۔ یہ وادی پہلگام سے چندن واڑی کے راستے میں پڑتی ہے۔
آرو وادی: یہ سیاحتی مقام پہلگام سے صرف12کیلو میٹر دور ہے۔ یہ وادی بھی اپنے خوبصورت قدرتی نظاروں کیلئے سیاحوں میں شہرت رکھتی ہے۔ دور دور تک پہاڑی سلسلے‘کہیں کہیں برف سے ڈھکی چوٹیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں ایک دیہات بھی ہے جہاں کولا ہائی گلیشیر کیلئے جانے والے قیام کرتے ہیں۔یہ وادی کشمیر کا سب سے بڑا گلیشیر ہے۔ یہاں کئی ہوٹل‘ ریسٹورنٹ اور ہٹس دستیاب ہیں جہاں قیام کیا جاسکتا ہے۔ آر وادی کے اطراف کم سے کم 20 جھیلیں‘چوٹیاں اور سر سبز و شاداب وادیاں ہیں۔ موسم سرما میں یہاں شدید برف باری ہوتی ہے اس لئے اسکیٹینگ اور دیگر برفانی کھیلوں کے دلدادہ سیاح بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔یہاں مچھلی پکڑنے‘گھڑسواری کرنے کا بھی موقع دیا جاتا ہے۔
چندن واڑی: یہ علاقہ امر ناتھ یاترا کا بیس کیمپ ہے اور موسم برسات میں یہاں یاتریوں کا ہجوم ہوتا ہے۔یہاں جو ندی بہتی ہے اس کو‘ شیش ناگ کہا جاتا ہے۔ یہاں کئی ایک مقامات پر بے شمار دھابے ہیں۔یہاں بھی کئی ایک دلچسپ نظارے ہیں۔ چندن واڑی کو ایک بہترین پکنک کا مقام کہا جاتا ہے۔
بائی سارن: پہلگام سے5کیلو میٹر دور ہے۔ یہاں سے شہر اوروادی کا نظارہ کافی دلکش ہوتا ہے۔ یہاں کے سر سبز و شاداب پہاڑوں‘میدانوں کو دیکھ کر سیاحوں نے اس علاقہ کو منی سوئٹزرلینڈ کا نام دیا ہے۔ اس کے قریب ہی تولیان جھیل ہے۔ پہلگام سے یہاں سیاح اکثر خچروں پر آتے ہیں۔
تولیان جھیل: پہلگام میں زیادہ ترصنوبر کے درخت پائے جاتے ہیں۔ یہ جھیل صنوبر کے جنگل سے گھری ہے یہ علاقہ دو ہمالیائی پہاڑی سلسلوں پیر پنچال اور زنسکار کے درمیان ہے۔
شیش ناگ جھیل: یہ جھیل امر ناتھ یاترا کے راستے میں12ہزار فیٹ کی بلندی پر ہے۔
کیتر ناگ جھیل: یہ جھیل آرو وادی سے7کیلو میٹردور ہے۔ سال بھربرف سے منجمد رہتی ہے۔
ترمار جھیل: یہ بادام کی شکل کی جھیل ہے۔ یہاں سے کولاہائی پہاڑی20کیلو میٹر دور ہے۔ وادی کشمیر کے دلچسپ نظارے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے پہلو میں ایک اور جھیل ہے جس کو مرسار جھیل کہا جاتا ہے۔ ایک پہاڑی سلسلہ نے ان کو الگ کردیا ہے۔ کشمیر کے16ویں صدی کے حکمران یوسف شاہ چک نے اپنی ایک نظم میں ان دو جھیلوں کا تذکرہ کیا ہے۔ مرسار بھی ایک خوبصورت جھیل ہے۔ یہ علاقہ عام طور پر پہاڑوں پر چڑھنے کے شوقین افراد سے بھرا ہوتا ہے۔
بہر حال مغرب نماز سے کچھ وقت پہلے ہم پہلگام پہنچے اورہم مین چوک سے کچھ آگے بڑھے تاکہ کوئی مناسب ہوٹل رات گزارنے کو مل جائے۔ہماری چاہت تھی کہ ہوٹل بھی اچھا خاصا ہو لیکن اس کا ریٹ بھی مناسب ہو۔ کچھ ہوٹلوں میں ریٹ معلوم کرنے کے بعد ہمیں ایک ہوٹل ملا جس میں ہوٹل منتظم نے ایک رات کا مناسب کرایہ بتایا اور ہم نے سامان ہوٹل کے کمرے میں رکھ دیا۔ اس ہوٹل کا نام مالا کیسل ( maala castle)ہے۔ اس کی ایک سامنے کی عمارت تھی اور ایک بلڈنگ عقب میں بنائی گئی ہے۔ ہمیں عقبی عمارت میں دو کمرے دیے گئے۔ رات گزارنے کا بندوبست ہونے کے بعد ہم بازار میں گھومنے نکلے۔ پہلے مغرب کی نماز مقامی جامع مسجد میں کسر ادا کی۔اس کے بعد نون چائے اپنی نجی گاڑی میں ہی نوش کی۔ آسمان نے مکمل اندھیرے کی چادر اوڑلی تھی۔ہلکی سی ٹھنڈی ہوا بدن میں تازگی لارہی تھی۔ پہلگام کی خوب صورتی بھی دن کے اجالے میں نمایاں ہوتی ہے اس وقت گھپ اندھیرے میں صرف نالۂ لیدر کا شور سنائی دے رہا تھا۔ہم چاروں ایک باغ میں اترے اور شیٹ ڈال کر بیٹھ گئے۔ عشاء نماز تک وہیں بیٹھے مزے دار باتیں کررہے تھے۔پھر وہیں پر عشاء کی نماز ادا کی اور وہاں سے سیدھے ہوٹل واپس آئے۔ہوٹل کی لابی میں رات کا کھانا کھایا۔ سفر سے ہم کافی تھک چکے تھے لہٰذا جلدی بستر پر دراز ہوگئے۔ برادر سلم اور راقم ایک کمرے میں سوئے اور برادر یونس اور ماجد بھائی دوسرے کمرے میں سو گئے۔
فجر کی اذانیں مساجد سے گونج کر شبستان وجود کو لرزش دے رہی تھیں۔ ہم نیند سے بیدار ہوئے۔ وضو بنانے کے بعد ہوٹل پر ہی جماعت نماز پڑھی۔ پیش ِامامت کا فریضہ ناچیز نے ہی ادا کیا۔ اس کے بعد دیر تک گپ شپ ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ آفتاب پوری طرح طلوع ہوا اور پہلگام کے چاروں اور روشنی پھیل گئی۔ نمکین چائے پینے کا شدت سے تقاضا پیدا ہوا۔ ہم نے طے کیا کہ چائے باہر کسی ہوٹل پر ہی پئیں گے۔ فضا میں جیسے دھیمی خوشبو موجزن تھی۔ نسیم صبح مشام جاں کو معطر کررہی تھی۔ اس پُر کیف ماحول میں ہم مرکزی بازار سے لطف لیتے ہوئے چل رہے تھے۔ چندن واری روڑ پر چلتے ہوئے چھوٹے پل کو پار کرکے کچھ نانوائیوں کی دکانیں نظر آئیں جہاں سے لوگ گرما گرم روٹیاں اور لواسے خرید رہے تھے۔ برادر یونس صاحب نے پانچ دس لواسوں کا آرڈر دیا۔ جب تک تندور سے گرم روٹیاں بنتیں ، ہم نانوائی کی دکان کے عقب سے بہتی لدر ندی میں ساکن بڑے گول پتھروں پر بیٹھ کر پانی کی روانی کا نظارا دیکھتے رہے۔ وہا ں پر کچھ تصویریں بھی لیں۔ بہر حال نانوائی سے روٹیاں لے کر ہم نے وہیں پر موجود ہوٹل سے چائے منگوائی۔ چائے سٹال کے سائن بورڈ پر ریاض احمد لکھا ہوا تھا۔ ہم نے ریاض صاحب سے چائے کے ساتھ ایک عدد آملیٹ اور مکھن کی چند ٹکیاں بھی لیں۔ اوردکان کے آگے رکھے ٹیبل اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ نمکین چائے کی چسکیاں لینے کے ساتھ مختلف مسائل پر مذاکرہ کرتے رہے۔ اسی اثناء وہاں سے فوجی کانوائی گزری۔ سوالیہ انداز میں میں نے ریاض صاحب سے پوچھا کہ یہ فوج کی اتنی گاڑیاں کہاں سے آرہی ہیں۔ ؟ ریاض صاحب گویا ہوئے کہ گاڑیاں امرناتھ یاترا کے سلسلے میں بال تل کے قراب کسی جگہ پارک رکھی جاتی ہیں۔ قریباً ۲۰۰ گاڑیوں میں بڑی تعداد میں فوج کو امرناتھ یاتریوں کی حفاظت کے لیے مامور کیا جاتاہے۔ یہ گاڑیاں اور اس میں فوجی یاترا ختم ہونے کے بعد سے قریباً ایک مہینے تک اسی چندن واری روڑ سے واپس اتر کر کیمپوں میں واپس بھیجے جاتے ہیں۔ میری سوچ اس جانب متوجہ ہوئی کہ کشمیری مسلمانوں نے ہمیشہ یاتریوں کا خیر مقدم کیا ہے۔انتہائی سخت اور ناگفتہ بہ حالات میں بھی کشمیریوں نے یاتریوں کے جان و مال کی حفاظت کی ہے۔ حریت قائدین بلکہ عسکری کمانڈر بھی بارہا بیان دیتے آرہے ہیں کہ یاتری ہمارے معزز مہمان ہیں۔یہ بغیر کسی خوف و دہشت کے پوتر گھپا کا درشن کریں۔ اختلاف اگر ہے بھی تو یاترا کی مدت اور یاتریوں کی تعداد کے متعلق ۔ پہلے پہل یاترا کی مدت صرف ۱۵ ؍دن ہواکرتی تھی جسے پس پردہ سازش کے تحت ۲ مہینے تک بڑھا دیا گیا اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں یاتری امرناتھ گھپا کا درشن کرنے آتے ہیں جس سے قدرتی طور انتہائی حساس fragileماحول پر کافی منفی اثرات پڑھتے ہیں۔
(بقیہ سنیچر کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)