’ پہلوان‘ افسانہ

ایف آزاد دلنوی

وہ دہاڑی مزدور تھا۔ وہ آس پاس کے لو گوں کے گھروں میں جا کر کام کرتااور ہر کام بہت پھر تی سے کرتارہتا۔کمروں کی صفائی ستھرائی کرنا ‘انگھیٹی کے لئے بالن کاٹنا‘ بازار سے سبزی منگوانا‘با ڑی میں کام کرنایا شادی بیاہ کے موقعے پر برتنوں کی صفائی کرنا۔وہ ہر کام بڑی مہارت سے کرتا تھااور بنا تھکے ۔ محلے والے اس کو پہلوانؔ کہہ کر پکارتے تھے کیوںکہ وہ جسمانی طور پر بہت مضبوط تھااوروہ گھنٹوں کاکام منٹوں میں کرتا۔ محلے میں ہر ایک اس کو کام پر لاتا اور اس سے کام کرواتا۔وہ زبان کا پکا تھاکسی کو زبان دیدی تو اگلے دن ٹھیک وقت پر آدھمکتاتھا۔آگے ایک ساعت نہ پیچھے۔۔قمیض شلوار درست کر لیتاپھر قمیض کے سرے پکڑ کران میں گانٹھ ڈال دیتااور ٹھیک نو بجے کام پر لگ جاتا۔وہ کچھ کچھ توتلابھی تھاکام کے دوران اسے جب بھی پیاس لگ جاتی تو زور سے آواز دیدیتا۔
’’بھا۔۔۔۔۔۔۔بی۔۔۔۔۔۔۔۔پا۔۔۔نی۔‘‘
عورتیں اندر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتیںکیونکہ پہلوان ؔکے حلق کے گیئرانھیںپکارتے پکارتے پھنس جاتے تھے۔ عورتیں پانی لانے میں ذرا سی تاخیر کرتیں تو جا کر کچن کی کھڑکیوں کے پٹ زور زور سے کھٹکھٹاتااور آواز دیکر اُلٹے پائوں واپس آکر کام پر لگ جاتا۔جب اندر سے کوئی عورت پانی لے کر آتی تو وہ غصہ بھرے لہجے میں اسے کہتا ۔
’’بھا۔۔۔۔۔۔بی۔اتنی ۔۔۔۔۔ دیر ۔۔۔کیوں لگاتی ہو۔کام میں خلل پڑ تا ہے۔‘‘
وہ کام کے دوران کاہلی برتنے کا بالکل بھی قائل نہیں تھا۔ اگر اس کوکسی کام کرنے والے روبوٹ سے تشبیہہ دی جاتی تو بے جا نہ تھا وہ کہتا تھا
’’انسان کو ہمیشہ حلال کی روزی روٹی کھانی چاہئے۔ آخر ایک دن جسم کے پنجرے سے روح کو اُڑ جانا ہے اور ہر عمل کا حساب دینا ہے۔‘‘
اس لئے وہ اکیلے ہی کام پر جانا پسند کرتا تھااور بڑی ایمانداری کے ساتھ کام کر تا رہتا۔پہلوانؔ گھر میں سب سے بڑا تھا، دو چھوٹی بہنیں تھیںجو اپنے سسرال میں خوش وخرم زندگی بسر کر رہی تھیں۔ماں جوانی میںہی بیوہ ہو چکی تھی مگر اس نے ایک سایہ دار درخت کی طرح انہیں اپنی چھائوں میں رکھا۔ اس نے دوسرا بیاہ نہیں کیاکیونکہ بچے چھوٹے تھے اور نا فہم تھے۔ پہلوان ؔکے دو چھوٹے بھائی بھی تھے۔ ایک ذہنی طورپر ناخیز تھا۔ اس نے ایک دن ایک گیت ’’رمبا ہو ۔۔۔۔۔۔۔رمبا ہو۔۔۔۔‘‘ پر ڈانس کیا تب سے لوگ اس کو رمبا ؔپکارتے رہے۔ وہ روز مویشی لے کر صبح ہی گھر سے نکل جاتااور دن بھر انھیںگھاس چراتارہتا، کبھی کاہچرائی تو کبھی لوگوں کی ملکیتی زمین میںانھیں گھسا دیتا۔جب یہ مویشی کسی کی فصل کو نقصان پہنچاتے تو وہ رمباؔ سے جھگڑتااس کو خوب کھری کھوٹی سناتا۔رمباؔ حرف بہ حرف وہی باتیں دہراتاجو مخاطب غصے میںآکراس کو سناتا۔پھر کچھ دیر کے بعد مخاطب خود ہی چپی سادھ لیتا۔ خود ہی کو کوستا اور پھر مویشیوں کے پیچھے دوڑ کر ان کو نکال باہرکرنے کی کوشش کرتا۔کبھی کبھارجب جھگڑا طول پکڑ لیتاتو رمباؔ اپنی ماں کو خبر کرواتا۔ اور وہ دوڑے چلی آتی اوررمبا ؔ کی جسمانی ناخیزی کی وکالت کرتے ہوئے جھگڑے کو رفع دفع کرتی ۔دوسرا بھائی گھر میں بیٹھے بیٹھے مزے لے رہاتھاالبتہ باغات سے جو تھوڑی بہت آمدنی آجاتی وہ اس کا حساب رکھ لیتااور گھر کے لئے سودا سلف خرید لاتا۔ سماجی مسئلوں میں ٹانگ اڑانا‘مسجد کمیٹی کے کاموں میں نقص نکالنا ‘ہمسائیگی میں فتنوں کوہوا دینا ‘ یہ اس کے پسندیدہ مشغلے تھے۔ پہلوان ؔمحنت مشقت کر کے جو کمائی کرتا وہ سب بھائی کے ہاتھ میں دیدیتا۔ان کی عمر میں زیادہ فرق نہیں تھا اس لئے ماں چاہتی تھی کہ دونوں کی شادی اکٹھے کریں۔ ایک دفعہ ایک لڑکی کا اتہ پتہ مل گیاتو پہلوان ؔکولڑکی دیکھنے کے لئے کہا گیا۔وہ لڑکی دیکھنے گھر سے تو نکلا مگر بیچ راستے سے ہی واپس لوٹ آیا۔گھر پہنچ کر ماں کے کمرے میں چلا گیااور اسے گویا ہوا ۔
’’ماں پہلے بھائی کی شادی کریں گے۔‘‘
ماں حیران ہو کر بولی۔
’’ کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟!! تم توبڑے ہو پہلے تمہاری شادی ہونی چاہیے۔‘‘
’’ماں دیکھو ۔۔بھائی اکثر گھر میں ہی رہتا ہے۔ گھر میں پرائی لڑکی آئے گی اس کا دل لگارہے گا۔‘‘
ماں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی۔۔مگر۔۔۔۔۔۔وہ ایک نہ مانا۔
پہلوان ؔکے بھا ئی نے بالکل بھی تاخیر نہیں کی ۔چٹ منگنی پٹ بیاہ۔اس نے ہر ایک رسم ادا کر وائی اور بیاہ کر لیا۔شادی والے دن پہلوانؔ نے خوب ناچ لیا۔خیر گھر میں دلہن آگئی اور کچھ ہی دنوں میں اس نے گھر کی ذمہ داری سنبھال لی۔ جب پہلوانؔ پوری طرح مطمئن ہو گیاتو وہ پھر سے کام پر لگ گیا۔اب وہ جہاں جہاں کام پر جاتااس گھر کی عورتیں اس کے پاس جاتیں اور نئی دلہن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں پوچھ لیتیں۔ وہ کام کرتے ہوئے ہر ایک بات کاجواب دیدیتااور عورتیں خوب مزہ لے لیتیں۔کچھ وقت گزر گیا۔وہ ایک دن ایک گھر میں کام کر رہا تھا کہ گھر کامالک پوچھ بیٹھا۔
’’ پہلوانؔ تم نے اپنے بھائی کا گھر تو بسا لیاہے لیکن اپنے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے۔‘‘
پہلوان ؔنے ایک سرسری نظر اس پر ڈالی اورکوئی خاطر خواہ جواب بھی نہیں دیا۔وہ اپنی ہی دھن میں کام کرتا رہا لیکن مالک باتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولا۔
’’پہلوانؔ تم جسمانی طور پر فٹ تو ہو۔۔ نا۔‘‘
یہ سن کر وہ پھٹ بولا
’’ہاں صاحب میں بالکل فٹ ہوں ۔مجھے کیا ہوا ہے میں شیر کی جیسی پھرتی سے کام کرتا ہوں۔‘‘
’’پہلوانؔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔ تم میں کوئی مردانہ کمی تو نہیں ہے۔‘‘
یہ سن کر وہ اس کو کچھ دیر تک دیکھتا رہا پھر سامان اٹھا کر وہاں سے چل دیا
اورگھر جا کرسوچتارہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ سب لوگ میرے بارے میں یہی سوچتے ہونگے۔ مالک کی یہ بات اس کو اندر سے کترتی رہی اور اب اس نے کام پر جانا بند کر دیا۔وہ کچھ دن گھر پررہا تو ماں بہت پریشان ہو کرپوچھ بیٹھی ۔
’’بیٹے کیا بات ہے تم کئی دنوں سے کام پر نہیں گئے۔‘‘
’’ماں لوگ میرے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں میری مردانگی پر سوال اٹھانے لگے ہیں۔‘‘
’’بیٹے تم پریشان مت ہو جائو میں تمہارے لئے اچھی سی دلہن لائوں گی۔‘‘
اس کے ساتھ ہی گھر والے اس کے لئے دلہن ڈھونڈ نے لگے۔ گائوں گائوں میں تلاش کیا، درمیانہ داروں سے رابطے کئے مگر رشتے کی بات کہیں پکی نہیں ہوئی ۔آ خر کار ایک بنگالی دلال سے رابطہ کیا تو اس نے پچاس ہزار روپے کی ڈہمانڈ کی۔معاملہ طے ہوا تو کچھ دن گزرنے کے بعد ایک بنگالی لڑکی ان کے گھر دلہن بنا کر لائی گئی۔بہت گرم جوشی کے ساتھ اس کا استقبال کیا گیا،پھول برسائے گئے، مٹھائیاں بانٹی گئیں، چھوٹے چھوٹے بچے ناچ گا رہے تھے، رات دیر تک خوشیوںکا جشن رہا۔اگلی صبح سے اڑوس پڑوس کی عورتیں تحفے تحائف لے کر مبارکباد دینے آئیں۔کئی دن یہ سلسلہ جاری رہا۔پہلوانؔ اپنے دوستوں سے خوب گپیں لڑاتا رہا اور اپنی خوشی کا اظہار کرتا رہا ۔ایک شام بیوی کے کمرے میں جا کر اس سے بات چیت کرنے لگا ۔وہ اپنی زبان میں اسے کچھ کہہ رہا تھا مگر دلہن بنگالی تھی وہ کچھ سمجھ نہیں رہی تھی پھر اشاروں میں سمجھانے کی کوشش کی مگر دلہن بالکل چپ رہی پھر پہلوانؔنے اس کی طرف فروٹ بڑھاتے ہوئے اپنی زبان میں بولا
’’کھائو۔۔۔۔۔کھائو۔۔۔۔۔ اچھاہے۔‘‘
اس پر دلہن زور زور سے ہنس دی اوروہ بھی ہنس دیا ۔ہنستے ہنستے دلہن کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔
’آئی ۔۔۔ لو ۔۔۔۔ یو ۔‘‘
دلہن نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بنگالی زبان میں کہا
’’دور۔۔۔۔ ہو جائو۔‘‘
اور دو چار صلواتیں بھی سنائیں۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہاالبتہ دلہن کے چہرے پر غصہ دیکھ کر گھبراگیااورباہر جانے ہی لگا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔پہلوانؔ سمجھ گیا کہ فون میکے والوں کی طرف سے آیا ہو گا۔اس نے دلہن کو اکیلے کمرے میں چھوڑااورخوددوستوں سے ملنے گیا ۔وہ کیا جانتا تھا کہ اس کی دنیا بسنے سے پہلے ہی اجڑ جائے گی۔اندھیراہونے لگا تھا ایک کار اس کے مکان کے پچھواڑے میں کچھ دیر سے کھڑی تھی جس میںوہ بنگالی دلال ہیٹ پہنے اپنے کسی ساتھی کے ساتھ موجود تھا ۔اس کی پہچان ٹھیک ٹھیک نہیں ہوتی تھی اور راہ چلتے لوگ بھی اس کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دیتے تھے۔وہ فون پر باتیں کئے جارہاتھا پھر اچانک دلہن کے کمرے کی کھڑکی کھلی اس نے نیچے چھلانگ مار ی اور دوڑ کر کار میں بیٹھ کر رفو چکر ہوئی ۔ پہلوانؔکو کسی نے خبر کر دی۔وہ دوڑتا ہوا کمرے میں آیا دلہن کو کمرے میں موجود نہ دیکھ کر زور زور سے چلانے لگا۔
’’ ہائے ۔۔۔ میری میڈم۔۔۔۔۔ہائے میری میڈم۔‘‘
پہلوانؔنے کھڑی سے چھلانگ ماری اور اسی راستے پر دوڑ پڑاجہاںسے وہ بھاگی تھی۔گھر والے ‘ محلے والے پہلوان ؔ کا انتظار کرتے رہے مگر۔۔۔وہ نہیں لوٹا۔
���
دلنہ بارہمولہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005196878