یقینکرو بھائی دلی کو جب زکام ہوتا ہے تو ملک کشمیر میں ہوائیں سہمی سہمی چلتی ہیں اور جب وہ چھولے بٹورے تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیںتو اپنے سیاسی بھکاری یہاں پلیٹ، برتن، ٹوپی تک آگے پھیلاتے ہیں کہ آ پ ہمارے ان داتا ہیں، اس میں کچھ ڈال دو ۔ماناکہ اسے اہل کشمیر’’ لعنتہ منز چونچا ‘‘ کا محاورہ بولتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی پیچھے رہ جائے۔ اسی لئے جیسے ہی کنول بردار وزیر داخلہ نے نئی ڈگڈگی بازار میں متعارف کرائی اپنے سیاسی کفن چور اس پر تھرکنے لگے ۔ ناچ میری بلبل کہ پیسہ ملے گا ۔ اس کو ہاتھوں ہاتھ لے بیٹھے کہ یہ تو ناگپوری مٹھ سے ملا پرشاد ہے ۔اور تو اورایک دوسرے پر سبقت لینے اخباری دفاتر کا طواف کرنا شرو ع کردیا کہ بھائی جان حج کرو میرا بیان جلی سرخی جماکر چھاپ دو، نہیں تو ہوسکتا ہے کہ دلی والے اَن داتا ناراض ہو کر انتو دھیا یوجنا والی راشن ٹکٹ پھاڑ دیں ۔ایسا ہوا تو ہماری قسمت بھوکوں مر جائے گی اور نجانے آگے کی کتنی نسلیں دانے دانے کو ترسیں۔اس دوڑ میں نیشنلی ساگر سے وانی تک ، ایں جہانی سے آن جہانی تک ، پیپلز کے بیگ سے مدنی تک یعنی دواتی سے قلمی تک اور کنول والے ایرے غیرے سے نتھو خیرے تک ،صوفی سے پھوپھی تک میدان کارزار میں کودے جیسے بات چیت کی فرمایش نہیں ہوئی تیغ و تفنگ کی آزمایش ہوئی ؎
ہر اک نا اہل یوں چپکا ہوا ہے اپنی کرسی سے
دیا ہے نام کفن چور جب سے ہم نے انہیں
اس پر بلا عوض اجرت ایک عدد نصیحت بھی کر ڈالی کہ یہ ڈگڈگی کسی بھی حال میں بجائو اور اس میں سے نت نئے سر نکلیں گے جس سے اہل کشمیر خوش ہوں گے کہ بھائی لوگو! تمہارے دن اب پھر گئے ہیں۔ اب کی بار میز پر آجائو ، بات چیت کرو کہ میز ملی تو کرسی خود بخود دوڑی چلی آئے گی ۔یہ اور بات ہے کہ دلی دربار سے ملی دان میں کرسی کبھی مضبوط نہ تھی ۔یہ ہمیشہ ہی لڑھکتی ، کھٹکتی، ڈولتی دِکھی کہ جب دلی دربار چاہے اسے مضبوط بنانے اور کسی اورکو دکھانے کے لئے دو چار کیل ٹھونک ہی دیںیا ہلکا سا فیوکول مل دے۔کیل بھی ایسے کہ تریپن کیا ، چوسٹھ کیا، پچتھر کیا، چھیاسی کیا یاد کریں تو چھلنے والوں کو اب بھی وہ ٹیس یاد ہے اور فیویکول بھی اتنا کہ ہلکی سی سیاسی ہوا اڑی تو کرسی چٹخ چٹخ بازو ٹانگیں بیک الگ۔ویسے کرسی تو سیاسی مچھندروں کی قسمت ہے آپ تو عام خام عوام ہیں آپ کے منہ میں سرداری عوام کا حق ہے برانڈ والا زیرہ ڈال دیں گے کہ ہم کو معلوم ہے آپ اسی خوشبو کے سہارے پھر سالہا سال جیتے ہیں بلکہ دماغ معطر رہتا ہے اور آئے دن چکر کھاتا ہے کہ ہمیں تو طرزحکومت نے سردار بنا دیا اور اب سب کچھ ہماری جھولی میں ہے۔اتنا ہی نہیں قلم دوات والی بانوئے کشمیر بھی میدان میں اتری اور فتویٰ جاری کردیا کہ یہ موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دو کیونکہ وزیر با تدبیر نے سونے کی چڑیا تمہاری کھڑکی کے پاس رکھ چھوڑی ہے ، پٹ کھولو اور جٹ پکڑ لو پھر دیکھنا یہ کیسامیٹھا بولتی ہے ، سنہرے پر تولتی ہے ، پچِ پچِ کرتی ہے تو آر پار لوگوں کے دل جھوم اٹھتے ہیں، دماغ گھوم پڑتے ہیں،رواں رواں میں دھوم مچتی ہے۔ہم تو تین میں ہیں نہ تیرہ میں پر سونے کی چڑیا کا تصور ہی ہمیں تھرک تھرک نچا دیتا ہے لیکن وہ جو تین میں بھی ہیں اور تیرہ میں بھی بلکہ تِن ترہ(تباہ) کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس سونے کی چڑیا کے پر گنتے ہیں ۔ان پروں کے اندر انہیں سونا تو نہیں بلکہ سلانے کی، بھلانے کی اور تلملانے کی دوائی دکھائی دیتی ہے۔وہ تو سوال کر بیٹھے ہیں کہ ایسی فاختائیں تم نے ماضی میں بھی اڑائیں۔ایک تو تازہ تازہ ہی اُڑی کہ رمضان میں جنگ بندی کا خوش رنگ پرندہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے پر پھڑپھڑاتا رہا اور ہماری آنکھوں کو خیرہ کر گیا بلکہ مدھر لے سے کانوں میں رس گھولتا رہا ۔پر ہمیں کیا معلوم تھا کہ گورکھا فوجی کی وہ تیس سال پرانی بات سچ نکلے گی کہ شاحب جی ہم انڈیا کا گولی نقصان نہیں کرتا، کھکری مار کر منڈی اڑا دیتا ہے۔اور اب کی بار کھکری کے بدلے ٹائر گھومے ، عادل اور قیصر کی جان چلی۔ تیل تو گاڑیوں کا جلنا ہی تھا ،وردی پوشوں کو روزانہ الاونس ملنا ہی تھا،کوئی اضافی خرچہ نہیں ہوا ،البتہ لگے ہاتھوں گولی بولی سب کا نقصان ہونے سے رہ گیا۔بات بولی کی رٹتے رہے کام گولی کے بدلے اسٹیرنگ سے لیا کیونکہ گولیاں تو برسوں سے چلا رہے ہیں ۔کبھی شہر شہر قریہ قریہ کبھی سرحدوں پر۔یہ وردی پوش بھی دلچسپ لوگ ہیں اپنی وردی کے اوپر داغ لگنے نہیں دیتے پر انہیں کیا معلوم جب سارا دل ہی کالا ہو اس پر نیا تارکول کا داغ نہیں دکھتا ۔کولگام میں کئی کو مارڈالا اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق مرے ہوں پر ہی الزام لگایا کہ یہ لوگ اِس میں ملزم تھے ،اُس میں مشکوک تھے ،وہاں مجرم تھے یہاں قانونی شکنجے میں۔مطلب فائیل بند بھی ہوگئی تفتیش کا کوئی جھنجھٹ نہیں،اضافی طاقت کا استعمال کوئی الزام نہیں، لگے ہاتھوں انعامی رقم بھی وصول ہو گئی ۔وصولی بھائی کیا کہنا۔ اور تو اور وردی پوشوں کو سب کچھ نظر آتا ہے کہ اڑتی چڑیا کے پر گنتے ہیں،سنگ بازوں کے ہاتھوں میں کتنے پتھر ہیں، ان کی تعداد تک بتاتے ہیں،چھپے چہروں کے پیچھے اصلی شکلیں نکال لاتے ہیں ،پر اپنے مجرم بھائی نظر نہیں آتے۔عادل مرا تو وردی پوش کے ہاتھوں ایکسیڈنٹ ہوگیا ، قیصر مرا تو وردی پوش گھبرا کر گاڑی دوڑابیٹھا اور وہ جو بمنہ میں گاڑی الٹی اس میں ڈرائیور کا نہیں بلکہ سنگ بازوں کے سایوں کا دوش تھا کہ وہی سامنے دِکھے اور گاڑی قابو سے باہر۔اس پر اپنے سیاسی مگر مچھ سنگ بازی سے زیادہ مہلک بیان بازی میں مصروف۔تازہ بیان بھی کیا مزیدار ہے کہ اگر سنگ بازوں کے خلاف ایف آئی آر واپس لئے تو فورسز کا منو بل گر جائے گا ۔مطلب اگر منو بل گر گیا تو پھر خاک میں مل جائے گا۔پھر منو بل ڈھونڈو تو انفکشن زدہ مل جائے گا ۔اور انفکشن زدہ چیز صحت کے لئے درست نہیں ۔ ہو نہ ہو منو بل گرنے کے سبب ہی فوجی خود کشی یا برادر کشی میں آئے دن مصروف ملتے ہیںیعنی اب کی بار مودی مفتی سرکار میں سب کچھ ایف آئی آر پر ہی ٹنگا ہوا ہے ؎
کیا قیامت ہے گرفتاری کے وارنٹ آگئے
میں نے تو نعرہ دیا تھا خواب میں کشمیر کا
کنول والے سیاسی مشٹنڈے بھی عجب مخلوق ہیں کہ ایسے میں دھمکی دئے جا رہے ہیں کہ جنگ بندی کی شرط مانی نہیں تو گولیاں پھر چلیں گی۔سنگ بازی بند نہ ہوئی تو ہم پھر بندوقوں کے دہانے کھولیں گے۔مطلب صاف ہے کہ یہ جو عادل اور قیصر مرے اس میں ہمارا کوئی دوش نہیں بلکہ خود ہی تیز رفتار گاڑیوں کے سامنے کھڑے ہوگئے ، بریک فیل ہوا کہ دماغ ، گاڑی تیز چلی کہ دل کا چور، شیشہ صاف تھا کہ دل میں میل اور اسی کے طفیل وہ زخمی ہوئے ۔پھر ہمارا کیا قصور زخموں کی تاب نہ لا کر مرے ہم نے تو کچھ نہیں کیا ۔تاب تو لانا بنتا ہے نا۔ادھر بات چیت کے بگل بجے ادھر کنول بردار وزیر اپنے من کی بات کہنے لگے کیونکہ من کی بات کہنے کا ٹھیکہ انہوں نے لیا ہے اور اس کے جملہ حقوق زعفرانیوں کے نام منتقل ہوئے ہیں۔اس لئے ایک منسٹر بات چیت کا شور مچاتا ہے، دوسرا اس پر غور کرتا ہے تیسرا اس کی تائید کرتا ہے چوتھا اس پر کفن اوڑھتا ہے اور پانچواں اس کی میت اٹھاتا ہے ،پر ادھر اپنے قلم بردار اس کے جیون دان کی قسمیں کھاتے ہیں ۔
ویسے اپنے ملک کشمیر کا مسلہ کچھ ہے ہی ایسا کہ ہر کوئی من کی بات کہتا ہے کیونکہ اپنے مسلے میں ہر کسی کی بات فٹ ہوجاتی ہے ۔ یقین نہ آئے تو پرکھ لو کہ کبھی کبھی یہ مسلٔہ گھمبیر بھی بن جاتا ہے، اس لئے نہیں کہ اس کے سبب علاقے میں خونریز جنگ کا خطرہ ہے بلکہ اس لئے کہ ایک کرکٹ کھلاڑی کی فارم خراب ہوجاتی ہے ۔وہ ٹیم کی قیادت سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوتا ہے یا یوں کہئے اسے ٹیم کی آرام گاہ سے لات مار کر بھگایا جاتا ہے ۔جب ایسا ہوتا ہے تو وہ اپنی شرمندگی چھپانے کے لئے سنگ بازی ، فوجی طاقت، اور نجانے کیا کیا مسئلے چھیڑ دیتا ہے بلکہ اپنا ایک گوتم تیار کرتا ہے کہ کوئی اسے بلے بازی کا طعنہ نہیں دیتا۔سنا ہے ہر صبح ہر شام مسلٔہ کشمیر کی پوجا کرتا ہے ، آرتی اُتارتا ہے کہ تم ہی ہو جو مجھے وقتاً فوقتاً شرمندگی سے نجات دلاتا ہے ۔اس لئے میرے اَن داتا جیتے رہو سالہا سال ؎
بک رہا ہوں آج کل ہذیان باقی خیر ہے
اور لا حق ہے زرا نسیان باقی خیر ہے
یہ الیکشن تو بڑا جھنجھٹ ہے بھائی ۔اچھے بھلے سیاست دان کو کیا کیا کرواتا ہے۔کہیں ووٹ کے لئے جوتے چاٹو کہیں حمایت کے لئے گدھے کو بھی باپ کہو اور تب تو حالت اور پتلی ہوتی ہے جب کچھ انتخاب ہار ہی جائیں۔ادھر ضمنی انتخاب جو ہار گئے تو کنول برادری کے سوتے سوکھ گئے ۔کنول کو پھلنے پھولنے کے لئے پانی نہیں ،شاید اب انسانی خون سے سینچنے کی تیاری میں لگے ہیں کہ سالہا سال سے ان کا یہی شیوہ رہا ہے۔کیا کریں کسی چیز سے ان کا جی نہیں بھرتا ۔بابری مسجد توڑ دی کہ یہ مغلوں نے تعمیر کروائی۔مانا کہ بیرونی شخصیات کو تاج محل کے سوا دکھانے کو ہے ہی کیا۔جامع مسجد دلی کو یمنا مندر گردانتے ہیں ۔لے دے کے ایک مغل سرائے اسٹیشن بچا تھا ،اس پر بھی ہاتھ صاف کردیا کہ اسے اب دین دیال اپادھیائے اسٹیشن کہلائے گی یعنی اب کی بار مودی یوگی سرکار میں ہوٹل میں چکن مغلائی کے بدلے چکن دین دیال آرڈر کرنا ہوگا ۔پھر معاملہ ٹھندا نہیں ہوگا کیونکہ دین دیال تو (ویشنوی)ویجٹیرین تھا لیکن چکن تو نان ویج ہے۔ایسا ہوا تو کیس بنے گا ، دیش دروہی کا الزام لگے گا، مملکت خداداد کا ٹکٹ کاٹنا ہوگا ۔ یوگی کی دیکھا دیکھی کیا پتہ اپنے قلم دوات بردار مغل روڑ کو دین دیال اپادھیائے مارگ مان لیں۔مغل باغات کو دین دیالو کی عطا کردہ ویشرام سنگھرالے کہ اہل ہند کو سستانے کے لئے تھوڑی زمین فراہمی کا پٹہ ،مغلائی زعفرانی بریانی پر تو کنول برداروں کے وارے نیارے ہوں گے کہ مغل تو دین دیال بن گیا ، زعفرانی تو وہ پہلے سے ہیں اور بریانی تو چاول مصالحہ جات یوجنا بن جائے کہ غریبوں کے لئے اگلے الیکشن سے پہلے میدان میں اتار کر ووٹوں کی بھیک مانگ سکیں۔ اور ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ مغل سلطنت کو دین دیال اپادھیائے ہندو راشٹر بنائے جانے کا با ضابط اعلان ہوگا ۔
اور اس دوران خبر آئی کہ اپنے نیشنلی ٹویٹر ٹائیگر کو نیشنل فوج کا نائب سالار مقرر کیا گیا ۔ویسے وہ تو پہلے بھی اضافی سالار تھا پھر نئی کمان کا کیا مطلب۔ نیشنلی جمعدار و صوبیدار برابر پیغام تہنیت بھیج رہے ہیں ۔ہم تو مخمصے میں پڑ گئے کہ نیشنل فوج تو اصل میں خاندانی شہسواروں کی ٹکڑی ہے۔ اس میں سامان حرب و ضرب خاندانِ شیخ میں تیار ہوتا ہے، اسباب چنگ و رباب بھی خاندانی لے ساز بناتے ہیں پھر اس میں مبارکبادی کیا معنی رکھتی ہے؟اسے اہل کشمیر کہتے ہیں جگرَو رون تہ ٹاٹھیو کھیوو(پیاروں نے تیار کیا اور دلاروں نے نوش کیا)۔
……………
(رابط[email protected]/9419009169 )