اسدمرزا
دنیا کے1.3بلین کیتھولک عیسائیوں کے سربراہ پوپ فرانسس بین المذاہب روابط کے لیے وقف تین روزہ دورے پر انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ پہنچے،وہاں سے وہ پاپوا نیو گنی، تیمور، لیسٹے اور سنگاپور کا سفر کریں گے۔جکارتہ میں، پوپ نے شہر کی مشہور استقلال مسجد کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے اور مسلم رہنماؤں نے ایک معتدل اور روادار معاشرے کے لیے اپنے وژن کا خاکہ پیش کیا اور پرتشدد انتہا
پسندی کے خاتمے پر زور دیا۔
زیر زمین ’’برادرانہ سرنگ‘‘- Tunnel of Fraternity میں خطاب کرتے ہوئے، جو کہ مسجد کو سڑک کے پار اَور لیڈی آف دی اسمپشن کے کیتھولک کیتھیڈرل سے جوڑتی ہے، پوپ فرانسس نے اس سرنگ کو ’’مکالمہ اور ہم آہنگی کی جگہ‘‘ قرار دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ مختلف مذہبی برادریوں کو مختلف عالمی چیلنجوں کا دوستی کے ساتھ جواب دینا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ’’دوسروں کا خیرمقدم کرتے ہوئے اور ان کی شناخت کا احترام کرتے ہوئے، بھائی چارہ انہیں دوستی میں سفر کرنے اور روشنی کی طرف لے جانے والے مشترکہ راستے پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘‘
بین المذاہب مکالمہ :انڈونیشیا میں دوسرے مذاہب کے ساتھ اسلام کے مکالمے اورباہمی رواداری کے لیے آپسی بات چیت ایک اہم روش رہی ہے،واضح رہے کہ انڈونیشیاکی آبادی تقریباً 275 ملین ہے،جس میں تقریباً 87 فیصد مسلمان ہیں، جو اسے دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک بناتا ہے۔گزشتہ بدھ کو ایک تقریر میں پوپ فرانسس نے سیاسی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ انتہا پسندی کا مقابلہ کریں اور بین المذاہب رواداری اور سماجی ترقی کو فروغ دیں۔ اسی طرح، انھوں نے چرچ کے پادریوں کو کھلے ذہن اور جامع طور پر متحرک ہونے کی تاکید کی۔پوپ فرانسس کا ’استقلال مسجد‘ میںاستقبال وہاں کے امام، نصرالدین عمر نے کیا، جنہوں نے اسے ’’ایک خوش آئند‘‘ موقع قرار دیا۔ عمر نے بتایا کہ 1961 میں قائم ہونے والی مسجد میں 250,000 نمازیوں کیجگہ ہے، اور اس کا ڈیزائن فریڈرک سیلابان نامی ایک عیسائی ماہر تعمیر نے بنایا تھا، جس نے ڈیزائن کا مقابلہ جیتا تھا۔اپنے وسیع حجم کی وجہ سے استقلال ایشیا کی سب سے بڑی اور مکہ اور مدینہ کے بعد دنیا کی تیسری بڑی مسجد ہے۔ عمر نے کہا:’’یہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ ہے، بلکہ انسانیت کے لیے بھی ایک عظیم گھر ہے۔‘‘ اپنے اس عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہ ’’انسانیت ایک ہے اور اس لیے کوئی بھی شخص استقلال مسجد میں داخل ہو سکتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔”
’’اس مسجد کے ذریعے انسانیت کی بھلائی کے لیے کسی کو بھی خوش آمدید کہا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مسجد میں باقاعدگی سے بین المذاہب اور بین الثقافتی تقریبات کے ساتھ ساتھ سفارتی سرگرمیوں کی میزبانی کرتی ہے، اور یہ پری اسکول سے سیکنڈری اسکول تک تعلیم بھی فراہم کرتی ہے۔عمر نے کہا کہ اس کے پاس جکارتہ میں یونیورسٹی آف قرآن سائنس اور مصر، مراکش اور امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ دونوں سطحوں کے خواتین کیڈر پروگرام بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ ہمارا مخصوص ہدف اور توقع ہے کہ علماء کیڈر کے سابق طلباء اعتدال پسند اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ رہنما بنیں۔‘‘
’’یہ مسجد انڈونیشیا میں مذہبی رواداری اور اعتدال پسندی کو بھی فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے،ساتھ ہی وہ مختلف مذاہب کو جوڑنے کا کام بھی کرتی ہے۔‘‘انڈونیشیائی قوم ’’بھنیکا تنگگل ایکا‘‘ پر عمل پیرا ہے، جس کا مطلب ہے ’’تنوع میں اتحاد‘‘۔پوپ فرانسس نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ مسجد کو ایک عیسائی نے ڈیزائن کیا تھا جو کہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ’’مسجد دیگر عبادت گاہوں کی طرح مذاہب اور مختلف روحانی احساسات کے درمیان مکالمے، باہمی احترام اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی جگہیں ہیں۔‘‘اس احترام کو ہر روز اس کو فروغ دینا چاہیے، ’’تاکہ مذہبی تجربات ایک برادرانہ اور پرامن معاشرے کے لیے حوالہ جات بنیں اور کبھی بھی دوری یا تصادم کی وجہ نہ بنیں۔‘‘ انہوں نے کہا۔
انہوں نے انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آپسی ملاقات اور باہمی بات چیت کا راستہ انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بعد پوپ فرانسس نے دو تجاویز پیش کیں جو ان کے بقول انڈونیشیا اور بڑے پیمانے پر عالمی معاشرے میں اتحاد اور ہم آہنگی کو جاری رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان کی پہلی تجویز یہ تھی کہ ’’ہمیشہ گہرائی سے دیکھیں‘‘ دوسرے کو،’’کیونکہ صرف اسی طریقے سے ہم وہ چیزیں تلاش کر سکتے ہیں جو ہمارے اختلافات کے باوجود متحد کرتی ہو۔‘‘دوم یہ کہ ہر مذہب کے لیے اس کے مذہبی رسومات انتہائی ضروری ہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تمام رسومات ہم سب کو ایک ہی مقصد کی طرف لے جاتی ہیں۔
پوپ کے ایشیا کے سفر میں ہندوستان کیوں شامل نہیں ہے؟
دریں اثنا سوالات پوچھے جا رہے ہیں کہ پوپ ایشیا ۔پیسیفک کے اس دورے پر ہندوستان کیوں نہیں آئے؟ ہندوستان میں انڈونیشیا، پاپوا نیو گنی، مشرقی تیمور اور سنگاپور سے زیادہ کیتھولک ہیں۔ تو پھر پوپ فرانسس کے ایشیا اور اوشیانا کے سفر کے پروگرام میں برصغیر کیوں شامل نہیں تھا؟ یہ سوال ہندوستان میں موجود کیتھولک پوچھ ر ہے ہیں، جن کی تعداد تقریباً 20 ملین ہے۔2021 میں، پی ایم مودی نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے پوپ فرانسس کو ویٹیکن میں’’بہت گرمجوشی سے‘‘ نجی ملاقات کے بعد ہندوستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ مودی نے اس دعوت کی تجدید کی جب وہ اس سال جون میں اٹلی میں جی 7 سربراہی اجلاس کے موقع پر پوپ سے ملے تھے۔لیکن ابھی تک پوپ کے دورئہ ہندوستان کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کیوں؟ مبصرین کا خیال ہے کہ مودی کے دعوت نامے اتنے سیدھے نہیں ہیں جتنے کہ لگتے ہیں۔ جون میں ucanews.com کے لیے لکھتے ہوئے، نرندر دیو نے کہا کہ پوپ کے کسی بھی دعوت نامے کو آر ایس ایس کی توثیق کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی حکمران جماعت پوپ کی ہندوستانی سرزمین پر موجودگی کو منظور نہیں کرتی ہے، اس خوف سے کہ یہ ہندوؤں کی عیسائیت میں تبدیلی کو دوبارہ زندہ اور بڑھاوا دے سکتی ہے۔چیریٹی اوپن ڈورز کے مطابق، ہندوستان عیسائی ہونے کے لیے عالمی سطح پر11 واں بدترین ملک ہے۔ صرف 2024 کے پہلے 75 دنوں میں عیسائیوں کے خلاف امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کے کل 161 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ پوپ کا دورہ آج کے ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں خدشات کو اٹھانے کے لیے پوپ کے دفتر کو ایک موقع فراہم کرنے کے علاوہ، مشکلات کا شکار مذہبی اقلیت کو امید بھی فراہم کرتا۔
پوپ کے ہندوستان نہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی دی جارہی ہے کہ شاید ہندوستان میں کیتھولک پادریوں کی سب سے بڑی تنظیم کیتھولک بشپ کانفرنس آف انڈیا کے پادری ہندوستان آنے کے لیے پوپ کو پوری طرح قائل نہیں کرسکے۔ ساتھ ہی اس کی ایک وجہ یہ بھی دی جارہی ہے کہ شاید پوپ ہندوستان نہ آکر موجودہ حکومت کو اس کے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ کی طرف متوجہ کرانا چاہتے ہیں۔ جس منفی رویے کا شکار مذہبی اقلیتیں خاص طور سے عیسائی اور مسلمان ہورہے ہیں۔
مجموعی طور پر اگر پوپ کے ہندوستان نہ آنے کی یہی وجہ ہے تو یہ موجودہ حکومت کے لیے ایک بڑی ناکامی کے علاوہ قابلِ فکر بات بھی ہے کہ عیسائیوں کے سب سے بڑے رہنما ہندوستانی حکومت کو خاص طور سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف موجودہ حالات کو بدلنے کے لیے شاید کوئی اشارہ دے رہے ہیں۔ لیکن اس اشارے سے کوئی زیادہ خوش آئند قدم اٹھانے یا ماحول کو بہتر کرنے کے لیے ہندوستانی حکام کی جانب سے کسی مثبت پہل کی امید کرنا فضول لگتا ہے۔ کیونکہ ان کے لیے اقتدار میں قائم رہنا زیادہ ضروری ہے نہ کہ ملک میں سماجی اور مذہبی تنوع قائم کرنا۔امید یہی کی جاسکتی ہے کہ شاید ہندوستان میں موجود، سرگرم انتہائی قوم پرست تنظیمیں ملک میں مذہبی رواداری اور بقائے باہمی کے بارے میں پوپ کے مشوروں پر عمل کرکے ہندوستان کو دوبارہ ایک ایسا ملک بنادیں جس کو کہ تنوع ، مساوات اور شمولیت کے لیے ہمیشہ ایک مثال کے طو
ر پر پیش کیا جاتا تھا۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)