اظہار خیال
ڈاکٹر اجے کمار
ہندوستان اپنی جمہوریہ کا 75 واں سال منا رہا ہے،جو جمہوری سفر کا ایک اہم لمحہ ہے۔اسی موقع پریونین پبلک سروس کمیشن (پوپی ایس سی ) اپنے 100ویں سال میں داخل ہوتے ہوئے ایک اہم سنگ میل عبور کررہا ہے ۔ پبلک سروس کمیشنز (پی ایس سی ) کا تصور ہمارے آباواجداد نے آئینی اداروں، سول سروسیز میں اہلیت کے محافظ کے طور پرکیا تھا،جن کےکندھوں پر دنیا کی سب سے متنوع اور سب سے بڑی جمہوریت میں حکمرانی کی وسیع ترذمہ داری ہوتی ہے۔اسی کے مطابق پوپی ایس سی کوسنٹرل سول سروسز کے افسران کی بھرتی، ترقی اور نظم ونسق سے متعلق معاملوں کااہم رول تفویض کیا گیا ہے۔ اس لیے گزشتہ 100 برسوں میں اس کے ارتقا کی داستان محض کسی ادارے کی تاریخ نہیں بلکہ ہندوستان کے اس غیر متزلزل ا عتماد کی علامت ہے، جو انصاف، اعتماد اور دیانت داری پر مبنی ہے۔
اعلیٰ سول سروسز میں بھرتیوں کی نگرانی کے لیے ایک آزاد کمیشن کے قیام کا تصور آئین کے مسودے کے بننے سے بہت پہلے ہی سب سے مضبوط آواز اختیار کر چکا تھا۔ لی کمیشن کی رپورٹ (1924) میں بیان کیا گیا‘‘جہاں کہیں بھی جمہوری ادارے موجود ہیں، تجربے نے یہ دکھایا ہے کہ ایک مؤثر سول سروس کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ذاتی اثر و رسوخ سے محفوظ رکھا جائے اور اسے وہ استحکام اور تحفظ حاصل ہو جو اس کی کامیاب کارکردگی کے لیے لازمی ہے۔یہ استحکام اور تحفط ہی اسے ایک غیر جانبدار اور مؤثر ذریعہ بناتی ہے ، جس کے ذریعہ کوئی بھی حکومت، خواہ ان کی سیاسی صورت حال کچھ بھی ہو، اپنی پالیسیوں کو نافذ کرنے کر سکتی ہے۔‘‘اس کے بعد، آئینی اسمبلی کے رہنماؤں نے بھی آزاد پبلک سروس کمیشنز کے خیال کی حمایت کی اور دلیل دی خواہ حکومتیں تبدیل ہوتی ر ہیں، انتظامی مشینری کو غیر جانبدار، پیشہ ورانہ اور آئینی اخلاقیات کے اصولوں پر مستحکم رہنا چاہیے۔ یہ مؤقف بھی بہت واضح طور پر پیش کیا گیا کہ سول سروسز میں بھرتیوں کا پورا اختیار ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا جا سکتا، کیونکہ ایسا کرنے سے سیاسی مداخلت بڑھے گی اور عوام کا اعتمادکمزور ہوگا۔
لہٰذا، آئین کے بانیان نے آئین کے حصہ XIV ،میں آرٹیکل 315 سے 323 کو شامل کیا ، جس کے تحت یونین اور ریاستی پی ایس سی کو خصوصی درجہ دیا گیا ۔ ایسا ان کی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا کہ بھرتی ، ترقی اور تادیبی معاملات خوف یا حمایت سے پاک ہوں ۔ یہ ان کے وژن کا ثبوت ہے کہ یہ ادارہ آج بھی اہلیت، اعتماد اور دیانتداری کے اصولوں پر مضبوطی سے کھڑا ہے ۔
اگرچہ بھرتی کے لیے کھلا مسابقتی امتحان 1850 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھا ، لیکن وہ امتحانات لندن میں منعقد کیے گئے اور برٹش سول سروس کمیشن کے ذریعے منعقد کیے گئے ۔ انڈین سول سروس کے لیے مسابقتی امتحان اس سے کئی سال پہلے برطانوی سول سروس کے لیے تھا ۔ ان بیرون ملک امتحانات نے ہندوستانی امیدواروں کو نمایاں نقصان پہنچایا ۔ تاہم ، مشکلات کے باوجود ، کچھ ہندوستانیوں نے آئی سی ایس میں داخلہ لیا اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ ستیندر ناتھ ٹیگور (1863) آئی سی ایس میں داخل ہونے والے پہلے ہندوستانی ، آر سی دت (1869) سریندر ناتھ بنرجی (1869) اور دیگر ابتدائی کامیابی حاصل کرنے والے چند تھے ۔ ہندوستانی قیادت کی طرف سے انگلینڈ اور ہندوستان میں بیک وقت اس کے امتحانات منعقد کرانے کا مسلسل مطالبہ کیا لیکن اس وقت کے حکمرانوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ اگرچہ پہلی جنگ عظیم کے بعد آبادیاتی توازن بدل گیا ،پھر بھی سول سروسز نوآبادیاتی پالیسی کا ایک ذریعہ بنی رہی ۔
حالانکہ ہندوستان میں آزاد پبلک سروس کمیشن کا پہلا ذکر ، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ، 1919 میں ملتا ہے ، جو 1924 کے لی کمیشن کی سفارشات کے بعد ، اکتوبر 1926 میں پبلک سروس کمیشن کے طور پر قائم کیا گیا تھا ۔ ابتدائی طور پر سر راس بارکر کی سربراہی میں ، اس ادارے کے کام محدود تھے اور یہ نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت ایک محتاط تجربہ تھا ۔ 1935 میں اسے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے طور پر دوبارہ تشکیل دیا گیا ، جو ہندوستانیوں کو انتظامیہ میں ایک بڑا کردار دینے کی سمت میں ایک اہم قدم تھا ۔پھر 1950 میں جمہوریہ بننے کے بعد اس نے یو پی ایس سی کے طور پر اپنا موجودہ آئینی درجہ حاصل کر لیا ۔ یہ تاریخی ارتقاء نہ صرف انتظامی تسلسل کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ہندوستان کے اپنے جمہوری اداروں میں بڑھتے ہوئے اعتماد کی بھی عکاسی کرتا ہے ۔ اپنے ابتدائی برسوں میں یوپی ایس سی کچھ ہی امتحانات کا انعقاد کرتا تھا لیکن آج یہ باوقار سول سروسز امتحان سے لے کر انجینئرنگ ، جنگلات ، طبی اور شماریاتی اور دیگر خدمات تک ایک وسیع اور متنوع پورٹ فولیو کا انتظام سنبھال رہا ہے ۔ اس کا دائرہ خود جمہوریہ کے ساتھ بڑھا ہے ، لیکن عوامی خدمت کے لیے بہترین صلاحیتوں کو بھرتی کرنے کے وا سطے اس کا بنیادی کام تبدیل نہیں ہوا ہے ۔
اگر یو پی ایس سی کی تاریخ اس کی بنیاد ہے تو اعتماد ، دیانت داری اور انصاف پسندی کے اصول اس کے ستون ہیں ۔ کئی دہائیوں کے دوران ، لاکھوں امیدواروں نے کمیشن پر اپنا اعتماد ظاہر کیا ہے ،یہ جانتے ہوئے کہ کامیابی اور ناکامی صرف ان کی قابلیت پر منحصر ہے ۔ یہ اعتمادیونہی ہی نہیں قائم ہوا بلکہ اسے سخت محنت اورایمانداری سے قائم کیا گیا ہے ۔ عمل میں شفافیت، تشخیص میں غیر جانبداری اور غلط طریقوں کے خلاف سخت رخ نے اسے ممکن بنایا ہے ۔ سوالناموں کی ترتیب سے لے کر ملک بھر میں ان کے محفوظ انعقاد تک امتحانات کی شفافیت کی انتہائی سختی سے حفاظت کی جاتی ہے ۔ رازداری اس عمل کی بنیادہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ادارہ پورے ملک دل اور اعتماد جیت رہا ہے ۔ دریں اثنا ، دیانت داری کا مطلب ہے ادارے کو سیاسی یا بیرونی دباؤ سے بچانا ، رازداری برقرار رکھنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ کامیاب ہونے والے حقیقی طور پر سب سے زیادہ قابل ہیں ۔شفافیت کا مطلب ہر پس منظرکے امیدواروں کو مساوی مواقع فراہم کرنا ہے خواہ وہ شہری ہوں یا دیہی باشندے ہوں ، امیرہوں یا محروم طبقات سے ہوں ، انگریزی میں روانی یا عدم روانی والے ہوں ۔ ہمارے جیسے متنوع ملک میں ، جہاں عدم مساوات برقرار ہیں ، یہ حقیقت کہ یو پی ایس سی کے امتحانات کو حقیقی “مساوی مواقع” کے طور پرتصور کیا جاتا ہے ، جو آزاد ہندوستان کی قابل فخر حصولیابیوں میں سے ایک ہے ۔ یہ فلسفہ بھگود گیتا کی لازوال حکمت میں جھلکتا ہے ، جہاں بھگوان کرشن کہتے ہیں: “تسمادسکت: ستننت کاریم کرم سماچر ۔ اسکتو ہیاچرنکرم پرماپنوتی پروشا:۔” یعنی، بغیر کسی لگاؤ کے ، اپنے فرض کو مستقل طور پرجیسا کرنا چاہئے ویسا کرتے رہیں ؛ کیونکہ بغیر لگاؤ کے عمل انجام دینے سے ، شخص اعلیٰ درجہ حاصل کرتا ہے ۔ یو پی ایس سی اس اصول پرعمل کرنے کی بہترین مثال ہے:یہ اپنی ذمہ داری کو پوری سختی اور غیر جانبداری کے ساتھ ادا کرتا ہے، بغیر کسی لگاؤ یا نتائج کی پرواہ کئے بغیر۔
یو پی ایس سی بھرتی کا عمل وقت کے ساتھ تیار ہوا ہے ۔ امتحانات کے پیٹرن میں تبدیلیاں آئی ہیں: 1979 میں سول سروسز ابتدائی امتحان کا تعارف ؛ وقتا فوقتا نصاب کی تنظیم نو ؛ اخلاقیات کے پیپر اور سول سروسز اپٹیٹیوڈ ٹیسٹ کا تعارف ۔ ان اصلاحات میں سے ہر ایک کو کافی بحث و مباحثے کے بعد لایا گیا تھا ، تاکہ منتخب کیے گئے سول سروس افسران نہ صرف جانکاری کے حامل ہوں بلکہ عصری حکمرانی کے مطالبے کے مطابق مہارت اور دیانتداری سے بھی آراستہ ہوں ۔
یو پی ایس سی کے بھرتی کے سفر کے مرکز میں ہزاروں خواہش مند نوجوان ہیں جو لگن ، استقامت اور ملک کی خدمت کے خواب سے متحرک ہو کر سال بہ سال آگے آتے ہیں ۔ ایک زمانے میں یہ صرف چنندہ شہری علاقوں کے لوگوں تک محدود تھا ،لیکن آج سول سروسز امتحان دور دراز اور سب سے زیادہ پسماندہ علاقوں سمیت ہندوستان کے تقریبا ہر ضلع کے امیدواروں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ یہ غیر معمولی تنوع ‘ہندوستانی خواب کے حقیقی جذبے کی عکاسی کرتا ہے-یہ خواہش کہ ہنر ، محنت اور عزم سب کے لیے مواقع کے دروازے کھول سکتا ہے ۔ یو پی ایس سی ان بہادر امیدواروں کو سلام پیش کرتا ہے اور ملک کے ہر کونے تک پہنچنے کے لیے پرعزم ہے ، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ہر خواہش مند شہری کو ملک کی خدمت اور ترقی میں شراکت داری کا موقع ملے ۔
یو پی ایس سی سال بہ سال قابل ذکر درستگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے پیچیدہ مسابقتی امتحان-سول سروس امتحان منعقد کرنے میں بے پناہ فخر محسوس کرتا ہے ۔ پری( ابتدائی) امتحان کے لئے تقریبا 10-12 لاکھ درخواست دہندگان کے ساتھ شروع ہونے والے ، مین امتحان کے امیدواروں کے پاس 48 مضامین میں سے انتخاب کرنے اور انگریزی میں اپنے جوابات لکھنے یا ہندوستان کے آئین کے تحت تسلیم شدہ 22 زبانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار ہے ۔ یو پی ایس سی پھر ان متعدد مضامین کے امیدواروں کا ایک ہی میرٹ پر مبنی درجہ بندی میں جائزہ لیتا ہے-یہ دنیا میں کہیں بھی پیمانے اور نفاست میں منفرد کارنامہ ہے ۔ سول سروسز کے امتحانات کا لاجسٹکس واقعی غیر معمولی ہے ۔پری( ابتدائی) امتحان ملک بھر میں 2500 سے زیادہ مقامات پر منعقد ہوتا ہے ۔ مینز امتحان کے لیے ، یہ کام ایک پیچیدہ چیلنج بن جاتا ہے: اس بات کو یقینی بنانا کہ ملک بھر کے مختلف مراکز پر ہر امیدوار کو اس موضوع کا سوالیہ پیپر ملے جس کا انہوں نے انتخاب کیا ہے ۔ یہ پیچیدگی معذور امیدواروں کے لیے کیے گئے خصوصی انتظامات سے مزید بڑھ جاتی ہے ، جس میں ان کےلئے لکھنے والوں کی فراہمی بھی شامل ہے ، جبکہ بصارت سے محروم امیدواروں کو بڑے فونٹ میں سوالنامے فراہم کیے جاتے ہیں ۔ امتحان کے بعدامیدواروں کے ذریعہ سوالنامے کے دیئے گئے جوابات کا جائزہ 48 مضامین کے اعلی ماہرین کے ذریعے خفیہ طریقے سے کیا جاتا ہے ،اور یہ اسی زبان میں کیا جاتا ہے جس زبان میں جوابات لکھے گئے ہیں ۔ یہ سب ایک سخت سالانہ ٹائم لائن کے اندر بغیر کسی رخنہ اندازی کےیہاں تک کہ کووڈ-19 وبائی مرض یا قدرتی آفات جیسے واقعات کے دوران بھی مکمل کیا جاتا ہے ۔ یہ ہموار اور وقت کا پابندعمل موثر طریقے سے،منصفانہ اورمساوات کے ساتھ پیچیدگیوں کوآسان بنانے اورتنوع کوسنبھالنے میں ہندوستان کی صلاحیت کی عکاسی کرتاہے۔
جیسا کہ ہم یو پی ایس سی کا صدسالہ جشن منا رہے ہیں ،تو یہ مناسب ہوگا کہ ہم ان گمنام ہیروز- سوالنامے تیار کرنے والوں سے لے کر جوابات کی تشخیص کرنے والے ماہرین جو کمیشن کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں،ان کو بھی اعزاز بخشیں جن کی وجہ سے یہ کامیابی ممکن ہوسکی ۔یہ ملک کے بہترین ماہرین تعلیم اور مہارت رکھنے والے لوگوں میں سے کچھ ہیں ،جن میں سےہر ایک اپنے اپنے شعبے میں ماہر ہے ، پھر بھی وہ بنا کسی پہچان یاشہرت کی جستجو کے لگن اورمحنت کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔ ان کا باریک بینی سے کیا گیا کام ، غیر جانبدارانہ فیصلہ اورعمدگی کے تئیں ان کا غیر متزلزل عزم یو پی ایس سی کی ایک منصفانہ ، شفاف اور مضبوط انتخابی عمل کو انجام دینے کی صلاحیت کی بنیاد رہا ہے-جس نے ملک کا اعتماد حاصل کیا ہے اور وقت کی کسوٹی پر کھرا اترا ہے ۔ میں ذاتی طور پر ان میں سے ہر ایک کا ان کی بے لوث خدمت کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں ، جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہزاروں امیدواروں کےخوابوں اور امنگوں کے انتخاب کا فیصلہ انصاف پسندی ، سختی اور دیانتداری سے کیا جائے ۔
کئی برسوں سے یو پی ایس سی کامقصد ہمیشہ ایک ہی رہا ہے کہ ایسے امیدواروں کا انتخاب کیا جائے جو لگن کے ساتھ ہندوستان کی خدمت کریں گے اور اپنے فرائض میں قصوروار پائے جانے والوں کو منصفانہ سزا دیں گے ۔ کئی دہائیوں سے یو پی ایس سی نے ملک کو ایسے سول سروینٹس دیے ہیں جنہوں نے بحرانوں کے دوران اضلاع کانظام سنبھالا ، اصلاحات کے ذریعے معیشت کا انتظام کیا ، بنیادی ڈھانچے اور ماحولیاتی چیلنجوں کی نگرانی کی ، اور قوم کی تعمیر میں بے شمار پوشیدہ طریقوں سے تعاون کیا ۔ ان کا کام ہر ہندوستانی تک پہنچتاہے ، خواہ ان کا خدمت کے پیچھے ہاتھ پوشیدہ ہی کیوں نہ رہے ۔ سب سے زیادہ قابل لوگوں کا انتخاب کرکے ‘سیوک کے طور پر ہندوستان کے لوگوں کی خدمت کرنے کے مقصد کا تسلسل ہی یو پی ایس سی کی میراث کی وضاحت کرتا ہے ۔ ‘پردھان سیوک کے طور پر عزت مآب وزیر اعظم کے ساتھ سول سروس کو اس ملک کے لوگوں کا ‘سیوک ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔
جیسے جیسے کمیشن اپنے سویں سال میں داخل ہو رہا ہے ، یہ لمحہ نہ صرف جشن منانے کاہے بلکہ غور و فکر کے لیے بھی ضروری ہے ۔ صد سالہ ماضی کا احترام کرنے ، حال کا جشن منانے اور اگلی صدی کے لیے وژن پیش کرنے کا ایک موقع ہے ۔ جیسے جیسے ہندوستان دنیا کے رہنما کے طور پر پرانی شان وشوکت کو دوبارہ حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے ، عالمی مسابقت اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے پیدا ہونے والے چیلنجز حکمرانی کے موجودہ ماڈلز کو متاثر کر رہے ہیں ۔ ایک ادارے کے طور پر ، یو پی ایس سی مسلسل آگے بڑھنے کےلئے کوشاں رہے گا اوران تبدیلیوں کواپنانے کی کوشش کرے گا تاکہ ہندوستانی جمہوریت میں انصاف اور مواقع کا روشن مینارہ قائم رہے ۔
یو پی ایس سی پہلے ہی اپنے آپ کو جدید تقاضوں کے مطابق تیار کر چکا ہے اور اسی سلسلے میں کئی اصلاحات کا آغاز کر چکا ہے۔ ہمارا نیا آن لائن درخواست پورٹل امیدواروں کے لیے درخواست کے عمل کو آسان بناتا ہے، جبکہ حال ہی میں متعارف کرائی گئی چہرے کی شناخت سے متعلق ٹیکنالوجی امتحان کے عمل میں کسی بھی قسم کے فراڈ کو مکمل طور پر ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ہمارے امتحانی اور بھرتی کے عمل میں کی جانے والی اصلاحات وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق ہیں۔جہاں ہم منتخب امیدواروں کی تلاش کے ساتھ ساتھ ان کی مدد بھی کررہے ہیں جو ہمارے عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔پرتبھا سیتو پہل اُن لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کر رہی ہے جو حتمی پرسنالٹی ٹیسٹ تک پہنچ جاتے ہیں لیکن حتمی فہرست میں شامل نہیں ہو پاتے۔پرتبھا سیتو پہلے ہی کئی افراد کے لیے مفید ثابت ہو چکا ہے۔یو پی ایس سی نے اپنی کارکردگی کو مؤثر اور کارگر بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال کی تجویز پیش کی ہے تا کہ عمل اور طریقہ کار کی شفافیت کو متاثرکئے بغیر کام مزیدبہتراورکارگرہوسکے۔
بطور چیئرمین، اپنے کمیشن کے دیگر ارکان کے ساتھ، یو پی ایس سی کا صد سالہ جشن مناتے ہوئے، ہم سب اپنے ادارے کی میراث کی مضبوطی اور پورے سماج کے ذریعہ اس ادارے کے تئیں ظاہرکئے گئے اعتماد سے خوش ہیں اوراس سے ترغیب حاصل کرتے ہیں ۔ ہم اس عزم کو دوہراتے ہیں کہ ہم دیانتداری، انصاف اور اعلیٰ معیار کے اس سنہری معیار کو برقرار رکھیں گے، تاکہ یو پی ایس سی آنے والے برسوں میں بھی ملک کی خدمت اسی اعتماد اور خصوصیت کے ساتھ جاری رکھے۔
(مضمون نگاریونین پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین ہیں۔
اس مضمون میں ظاہر کیے گئے خیالات اور آراء ذاتی ہیں۔) بشکریہ پی آئی بی