فن لینڈ کے دارالحکومت میں امریکا اور روس کے صدور کی ملاقات بالآخرہوہی گئی۔ سولہ جولائی کو ہونے والی ملاقات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پوٹن سے بہ راہ راست پوچھا کہ آیا انہوں نے 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی؟ظاہر ہے کہ اس قسم کے سوال کا جواب کیا ہوسکتا تھا۔ صدرپوٹن نے صاف انکار کردیا۔اس قضیے کا پس منظر یہ ہے کہ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ اور ان کی مخالف امیدوار ، ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن میں سخت مقابلہ تھا۔انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ بہت بے و قو فی کی باتیں کرتے رہے،لیکن ہیلری نے خاصی سمجھ داری سے مہم چلائی تھی اور آخر تک سب کو یقین تھا کہ وہ ٹرمپ کو شکست دے دیں گی مگر جب انتخابات کے نتائج آئے تو معلوم ہوا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے ہیں۔جب ٹرمپ جیت کر آگئے تویہ الزامات لگناشروع ہو ئے کہ دراصل انہوں نے روسی مدد سے فتح حاصل کی ہے، کیوں کہ اس وقت وہ روس کے بارے میں خاصے تعریفی جملے کہہ رہے تھے اورپوٹن کے لیے بھی رطب اللسان تھے۔پھرامریکی ریاستی مشینری نے ا س بات کی تحقیقا ت شروع کیں کہ روس نے کس طرح امریکی صدارتی مہم میں مداخلت کی۔ تھوڑی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آگئی کہ رو س نے امریکی سیاسی جماعتوں ، صدارتی ا مید و ا ر و ں اور خود ریاستی مراکز کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرلی تھی۔یوں ہیلری کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچا اور ٹرمپ کو جتایا گیا۔ٹرمپ ۔ پوٹین ملاقات کے بعد بھی روسی صدر نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی امریکی محکمہ انصاف نے بارہ روسی سرکاری اہل کاروں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے کمپیوٹرز ہیک کر کے ہیلیری کی انتخابی مہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاکر ٹرمپ کی جیت ممکن بنائی۔ حالیہ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے یہ کہا کہ انہیں امریکا کے جاسوسی کے اداروں پر بھروسہ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ 2016ء کے انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے کہا کہ صدرپوٹن نے اس بات کی سختی سے تردید کی ۔یہ ایک طرح کی گول مول بات تھی جو صدر کے عہدہ ٔ جلیلہ پر فائز آدمی کررہا تھا یعنی ایک طرف وہ اپنے اداروں پر اعتماد کا اظہار کررہے تھے اور دوسری طرف پوٹن کے طاقت ور موقف کا بھی اعتراف کررہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے یہ اشارہ بھی دیا کہ غالباً صدرپوٹن کی تردید ٹھیک تھی اور کوئی وجہ نہیں کہ اس تردید کو قبول نہ کیا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ،پوٹن کی تردید تسلیم کرسکتے ہیں تو پھر ان کے اپنے اداروں پر اعتماد کا کیا جواز ہے؟
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ خود اپنے اداروں سے ڈرے ہوئے ہیں، اس لیے کھل کر اس بات کا اظہار نہیں کررہے کہ جاسوس اداروں کی اطلاعات غلط بھی ہو سکتی ہیں۔دراصل اگر صدر ٹرمپ،پوٹن کی تردید کو رد کر د یتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ روسی مداخلت کو تسلیم کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خود ان کا عہدہ خطرے میں پڑجائے گا۔اسی لیے وہ دونوں باتیں بہ یک وقت کہہ رہے ہیں یعنی پوٹن بھی ٹھیک ہیں اور امریکی جاسوس ادارے بھی۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ملاقات کے دوران پوٹن نے ایک ’’ناقابل یقین‘‘ پیش کش کر کے امریکی تفتیشی اداروں کے کارندوں کو ا پنے روسی ہم پلہ افسروں کے ساتھ کام کرنے کی دعوت د ی ۔ دراصل صدر پوٹن نے ایک طرح سے ٹرمپ کو الو بنایا اور یہ کہا کہ اگر آپ کے جاسوس ادارے کو روس پر شک ہے تو وہ آئیں اور ہم انہیں اجاز ت دیتے ہیں کہ وہ روسی تفتیشی افسروں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ ظاہر ہے کہ ٹرمپ جس پیش کش کو ’’ناقابل یقین‘‘ قرار دے رہے ہیں وہ ایک روسی پھندہ ثابت ہوسکتا ہے، مگر ٹرمپ اسے اپنی ’’بڑی کامیابی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
ملاقات کے بعد ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ پوٹن سے ملاقات سے قبل امریکا اور روس کے تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پرتھے مگر اس ملاقات کے بعد ان میں ایک مثبت موڑ آگیاہے۔ٹرمپ کے ڈیڑھ سالہ دور صدارت میںیہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ ان کا ذخیرہ الفاظ بہت مختصر ہے جس کی وجہ سے وہ چند الفاظ بار بار استعمال کرتے ہیں۔مثلا ’’عظیم‘‘ ’’ناقابل یقین‘‘ ، ’’شان دار‘‘ یا ’’بہت اچھا‘‘ ، ’’اتنا اچھا کہ بس کیا بتائوں‘‘۔ اس طرح کے الفاظ وہ بہت معمولی باتوں کے لیے بھی ا ستعما ل کر تے ہیں۔جب ان کی شمالی کوریا کے سربراہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اسے بھی بہت بڑی کامیابی قرار دیاتھا،حالاں کہ اس میںسے ’’کھودا پہاڑ، نکلا چوہا‘‘کے مصداق اب تک کچھ برآمد نہیں ہوا ہے۔اسی طرح پوٹن سے حالیہ ملاقات کو بھی وہ بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔دوسری جانب پوٹن نے بڑ ے نپے تلے الفاظ میں ا س ملاقات کو کامیاب اور کارآمد قرار دیا۔اسی تناظر میں ٹرمپ نے اپنے دل کی یہ بات بھی کہہ ہی ڈالی کہ انہوں نے صدارتی انتخاب میں کامیابی اپنی بہتر انتخابی مہم کے نتیجے میں حاصل کی تھی اور اس کا سہرا کسی اور کے سر باندھنا یا کسی کو مورد الزام ٹھہرانادرست نہیں۔بہ ظاہر یہ ملاقات روس کی فتح نظر آتی ہے کیوں کہ صدر ٹرمپ روس سے کچھ بھی نہ منواسکے۔ مثلاً ایران اور شام کے مسئلے پر پوٹن نے کوئی واضح وعدے نہیں کئے۔ حا لاں کہ امریکا کو توقع تھی کہ وہ روس کو مجبور کرے گا کہ واشنگٹن ایران اور شام کی حمایت بند کردے مگر ایسی کوئی بات نہ ہوسکی۔ نہ ہی روس کو کریمیا کے علاقے پر قبضے سے دست بردار کرانے میں ٹرمپ کا میاب ہوسکے بلکہ الٹا یہ ہوا کہ ٹرمپ نے روس کو کام یابی سے عالمی فٹ بال ٹورنا منٹ منعقد کرانے پر مبارک باد پیش کی۔
صدر ٹرمپ جو اپنے آپ کو کاروباری سودوں کا ماہر بناکر پیش کرتے رہے ہیں، اپنے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں کوئی بھی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ انہیں زیا د ہ سے زیادہ ایک ایسا بڑھ بولا کہا جاسکتا ہے جو مسلسل شیخی بگھارتا رہتا ہے اور اپنی ایسی کامیابیوں کا فضول ذکر کرتا ہے اور یہ چیزدراصل امریکا کے لیے بین الاقوامی سبکی کا باعث بن رہی ہے مگر ٹرمپ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ ڈ یڑ ھ سال میں امریکا نے نہ صرف چین اور روس بلکہ چھوٹے ممالک، مثلا ایران اور شام سے بھی مات کھائی ہے اور آ نے والے برس امریکا کو مزید پس پائی کی طرف لے جا ئیں گے مگر کیا کریں کہ امریکا کو پیچھے ہٹانے والے تمام ملک بھی سرمایہ دار ہی ہیں۔