پن بجلی پیداواری صلاحیت 20000میگاواٹ،76برس بعد صرف3443.8 میگاواٹ پیدا پیداوار17فیصد سے آگے نہ بڑھ پائی|| قابل تجدید توانائی کے شعبہ میں بھی کارکردگی مایوس کن ،بجلی بحران کیسے ٹلے؟

 اشفاق سعید

سرینگر // جموں کشمیر کے آبی وسائل کو بروئے کار لا کربجلی پیدا کرنے کی مرکز یا متواتر ریاستی حکومتوں کی طرف سے کوئی پالیسی نہیں اپنائی گئی ، نتیجے کے طور پر آزادی کے بعد 76برسوں کے دوران جموں کشمیر میں صلاحیت کے برعکس صرف 17فیصد (3443.8) میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکی ہے جبکہ یہاں کے آبی وسائل سے بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 20ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے۔جموں وکشمیر میں ان دنوں بجلی کا شدید بحران پیدا ہو چکا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یو ٹی سیکٹر میں بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے سرکار نے کوئی سنجیدہ پالیسی نہیں بنائی جس کا اثر آجکل کی صورتحال پیدا ہونے سے ظاہر ہورہا ہے۔ اگرچہ این ایچ پی سی پروجیکٹوں سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے، لیکن اسکا براہ راست فائدہ جموں وکشمیر کو نہیں مل رہا ہے ۔معاشرے کا ایک طبقہ بجلی کے بحران کو غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ قرا ر دے رہا ہے۔ معلوم رہے کہ جموں وکشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں گرمیوں میں 1800میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور سردیوں میں یہاں 2500سے2800میگاواٹ کی طلب پہنچ جاتی ہے۔ اس سال پورے نومبر میں لوگوں کو 1000سے1100میگاواٹ ہی بجلی فراہم کی گئی جس کے نتیجے میں انہیں گھنٹوں اندھیرے میں رہنا پڑا ۔اب اگرچہ پھر سے سرکار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اضافی بجلی حاصل کرے گی تو یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیںکہ ریاستی حکومتیں جموں وکشمیر میں 76برسوں سے بجلی پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہوئی ہیں ۔اس وقت کشمیر میں جہلم او ر دیگر ندی نالوں پر 252میگاواٹ کے بجلی پروجیکٹ کام کررہے ہیں ،جبکہ چناب پر 933.8میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح راوی پر سیوا (سوم ) 9میگاواٹ کا پروجیکٹ ہے۔ کل ملا کر جموں وکشمیر میں یو ٹی سیکٹر میں مقامی بجلی پروجیکٹوں کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 1,193.8میگاواٹ ہے ۔محکمہ کا کہنا ہے کہ سردیوں کے موسم میں ان بجلی پروجیکٹوں سے پانی کی مقدارمیں کمی کے نتیجے میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت صرف 200سے250میگاواٹ تک رہ جاتی ہے اور باقی ماندہ بجلی مرکزی سرکار سے خرید کر یہاں سردیوں کی طلب کو پورا کیا جاتا ہے ۔یو ٹی سطح پر ہی کئی سال قبل جموں وکشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے 201میگاواٹ کے 5بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تھا جس میں سے صرف 2بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر آئندہ سال کے آخر میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ان بجلی پروجیکٹوں میں کرناہ 12میگاواٹ اور پرنائی سرنکوٹ 37.7میگاواٹ شامل ہیں جبکہ 93میگاواٹ نیو گاندربل، 48میگاواٹ لوہر کلنائی کشتواڑ اور مہورہ کی تعمیر صرف کاغذات تک ہی محدود ہے ۔

یو ٹی سیکٹر پروجیکٹ
لور جہلم 105میگاواٹ ، اپرسندھ فسٹ 22میگاواٹ ، اپرسندھ دوم 105میگاواٹ ، گاندربل 15میگاواٹ ، پہلگام 3میگاواٹ اور کرناہ 2میگاواٹ بجلی پروجیکٹ موجود ہیں اور کل 252میگاواٹ بجلی سٹیٹ سیکٹر کے بجلی پروجیکٹوں سے پیدا ہوتی ہے۔اسکے علاوہ چنینی فسٹ ، دوم اور سوم سمیت بھدرواہ اور بغلیہار میں موجود یو ٹی سیکٹر کے بجلی پروجیکٹوں کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 933.8 میگاواٹ ہے۔چننینی فرسٹ ،دوم اور سوم 32.8میگاواٹ ،بھدرواہ 1میگاواٹ،بغلیہار (اول )450میگاواٹ، بغلیہار (دوم) 450میگاواٹ اور سیوا( سیکنڈ )9میگاواٹ بھی شامل ہیں ۔
سینٹرل سیکٹر پروجیکٹ
جموں وکشمیر میں این ایچ پی سی کے بجلی پروجیکٹوں کی پیدواری صلاحیت 2250میگاواٹ ہے جن میں کشن گنگا 330میگاواٹ ،اوڑی سیکنڈ 240میگاواٹ ،سیو ا (دوم) 120میگاواٹ ،ڈول ہستی 390میگاواٹ ،اوڑی فسٹ 480میگاواٹ اورسلال 690میگاواٹ شامل ہیں۔
منصوبہ بندی کا فقدان
وادی کے معروف ماہر اقتصادیات شکیل قلندر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ محکمہ بجلی کو لوگوں پر چوری کا الزام لگانے سے پہلے خود کی ناکامیوں پر توجہ دینا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ محکمہ نے سمارٹ میٹروں کی تنصیب کے بعد یہ دعویٰ کیا تھا کہ لوگوں کو بلا خلل بجلی فراہم کی جائے گی لیکن وہ بجلی کہاں ہے؟ ۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح کی صورتحال بنی ہوئی ہے، اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ماضی میں بجلی کی پیداوارکے حوالے سے جو بھی کوششیں ہوئیں اُن میں منصوبہ بندی کا فقدان تھی اور حکومت کو ایک بار پھر ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے بجلی پیدا کرنے کی مخلصانہ پالیسی کا بلیو پرنٹ تیار کرنا چاہئے تاکہ چار پانچ برسوں کے دوران جموں وکشمیر بجلی پیدا کرنے میں خود کفیل بن سکے اور اس ضمن میں بجلی پیداوار کے متبادل ذرائع پر عملدرآمد ناگزیر بن چکا ہے۔
بحران ختم نہ ہوگا
جانکار حلقوںکا کہنا ہے کہ جہاں پن بجلی پیداوار میں اضافے کی کوششیں بہت سے پاور پروجیکٹوںکے ساتھ چل رہی ہیں جواس وقت عمل درآمد کے مختلف مراحل ہیں تاہم جموں و کشمیر میں بجلی کی پریشانیوں کے ختم ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ جب تک یہ پروجیکٹ بجلی پیدا کرنا شروع کرینگے ،اُس وقت تک بجلی کی طلب میں بھی اضافہ ہو چکا ہوگا۔ان حلقوںکا کہنا ہے کہ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے پن بجلی پیداوار کے علاوہ قابل تجدید توانائی کے دیگر دستیاب متبادلات کو تلاش کرنے کا تصور کیا گیا تھا جن میں سے جموں و کشمیر کے لئے سب سے زیادہ موزوں شمسی توانائی کی پیداوار تھی تاہم صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جموںوکشمیر شمسی توانائی کی پیداوار میں بہت پیچھے ہے اور اب تک صرف30میگاواٹ شمسی توانائی ہی پیدا کررہا ہے جو ملکی اوسط سے بہت پیچھے ہے ۔واقف کار حلقوںکا کہنا ہے کہ ہندوستان میں 748990 میگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کی تخمینہ صلاحیت ہے جس میں سے 70096 اب تک زیادہ تر گزشتہ ایک دہائی میں پیدا کی جا چکی ہے۔ راجستھان اس وقت 17839 میگاواٹ کے ساتھ شمسی توانائی پیدا کرنے میں تمام ریاستوں سے آگے ہے۔اس کے بعد گجرات 10133 میگاواٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ کرناٹک 9050 میگاواٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ تامل ناڈو میں6892 میگاواٹ، مہاراشٹرمیں 4870،تلنگانہ میں4695 ،آندھرا پردیش میں 4552،مدھیہ پردیش میں 3021،اترپردیش میں 2526 ، پنجاب میں 1190، ہریانہ میں 1106 اور چھتیس گڑھ میں 962 میگاواٹ شمسی توانائی فی الوقت پیدا ہورہی ہے ۔جانکار حلقوں کے مطابق جب ہم توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال میں بھی اس قدر پیچھے ہوں تو بجلی کا بحران ختم نہیںہوسکتا بلکہ اگر فوری طور پن بجلی کے ساتھ ساتھ شمسی توانائی کی پیداوار پر توجہ مرکوز نہ کی گئی تو آنے والے ایام میں بجلی کا بحران مزید سنگین ہوجائے گا کیونکہ طلب میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا اور پیداوار اور طلب کے درمیان خلیج پاٹی نہیں جاسکتی ہے ۔