محمد تسکین
بانہال// قصبہ بانہال سے قریب تین کلو میٹر دور پنچایت بنکوٹ کے چھاناڑ گاوں کو مہاراجوں کے زمانے سے جوڑنے والا راستہ جو سابقہ رانی روڈ بھی کہلاتا ہے ، کا ایک بڑا حصہ ایک گہری کھائی کے پاس ڈھ جانے کی وجہ سے چھاناڑ ، مجدلہ ، چاپناڑی، ڈگری کالج بستی کے علاؤہ عام لوگوں سکول اور کالج جانے والے بچوں اور مال مویشیوں کو اس پیدل راستے سے گزرنا جان جوکھم میں ڈالنے کے برابر ہوگیا ہے اور کئی لوگ بارشوں کے دوران پنچایت بنکوٹ کے چھاناڑ علاقے کے وانی پورہ ، چھانپورہ ، ٹھیکیدار پورہ اور ڈگری کالج کی بستی کو جانے والے اس پیدل راستے کے بجائے دور کا سفر طے کرکے گھر اور قصبہ بانہال آتے جاتے ہیں۔ چھاناڑ بنکوٹ کی بستی کے سینکڑوں لوگ پہلے ہی علاقے میں قائم کئے گئے ڈگری کالج بنکوٹ بانہال کی چار دیواری کی وجہ سے اپنا دو صدی پرانے راستوں سے منقطع ہوگئے ہیں اور اب ان علاقوں کو جوڑے رکھنے کیلئے سابقہ رانی روڈ یا سابقہ بانہال کارٹ روڈ ( BC ROAD ) کا مرکزی راستہ ’ وجن ‘ کے مقام پر دو سو فٹ گہری کھائی کی طرف نکل جانے سے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے اور اس راستے پر کسی حادثے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔چھاناڑ کے مقامی لوگوں نے کشمیر عظمی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب دو مہینے سے زائد کا وقت گزر جانے کے بعد بھی پنچایتی راج سے ڈی ڈی سی کونسلر بانہال اور محکمہ دیہی ترقیات اور اس کے ملازمین کو اس سلگتے مسئلے کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے اور چھاناڑ کا علاقہ رابطہ سڑکوں ، پیدل راستوں اور پینے کے صاف پانی مسلسل چھ دہائیوں سے نظر انداز ہے اور تعمیر و ترقی کا دور کاغذوں تک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس راستے کے مسلسل نکل جانے کی صورتحال کی وجہ سے عام لوگوں کو قصبہ سے قریب تر اس پیدل راستے کے بجائے دور کے راستوں سے انا جانا پڑتا ہے اور یہ جگہ کسی بڑے حادثے کا موجب بن سکتی ہے کیونکہ وہاں پر گہری کھائی ہے اور راستے کی چوڑائی دس بارہ انچ ہی رہ گئی ہے۔ چھاناڑ سے تعلق رکھنے والے مقامی شہری محمد یوسف ، بشیر احمد ، ریاض احمد اور عبد الحمید پر مشتمل ایک وفد نے کشمیر عظمی کو بتایا کہ جموں سرینگر قومی شاہراہ پر واقع ڈاک بنگلہ بانہال کے سامنے سے یہ راستہ چھاناڑ ، مجدلہ ، چاپناڑی ، کنڈ واڑ ، ڈگری کالج بنکوٹ بانہال ، ہائی سکول بنکوٹ کی بستیوں ، عام لوگوں ، سکول اور کالج جانے والے بچوں اور مال مویشیوں کیلئے کئی صدیوں سے استعمال کیا جاتا آرہا راستہ ہے اور اب اس راستے کے ایک خطرناک کھائی کے پاس نکلنے کا عمل کئی مہینوں سے جاری ہے اور پورا علاقہ پیدل راستے سے منقطع ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ راستہ مہاراجوں کے زمانے میں مہاراجوں اور مہارانیوں کو گھوڑوں اور پالکیوں میں لانے لیجانے کیلئے پیدل نقل و حرکت کیلئے بھی استعمال کیا جاتا رہا اور بعد میں ساٹھ کی دہائی میں چھاناڑ کے ٹھیکیدار محلہ میں خانہ نشین نامور سماجی اور کاروباری شخصیت مرحوم خواجہ غنی جو ، آحسن جو نامی خانوادے نے رانی روڈ کے پیدل راستے کو اپنی ذات پر موجودہ پرائمری سکول چھاناڑ تک اپنی ذاتی چیپ گاڑیوں کے قابل ایک سڑک کی صورت میں تعمیر کیا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ رانی روڈ پر پڑنے والے گگڑواہ نامی ایک نالہ نے کبھی گاڑیوں کے چلنے کے قابل اس سڑک کو پیدل راستے کی ہیئت میں تبدل کر دیا اور اب یہ راستہ ہزاروں کی آبادی کو جوڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں چھاناڑ اور ڈگری کالج کے چار بڑے محلوں کیلئے یہ راستہ اہمیت کا حامل ہے اور وجن کے مقام ایک گہری کھائی کی طرف نکل رہے اس راستے کو فوری طور پر محفوظ بنانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو سو فٹ گہری کھائی کے پاس پیدل راستے کی چوڑائی مشکل سے ایک فٹ تک رہ گئی ہے اور آنے والی بارشوں میں قریب ایک سو میٹر کا حصے کو ڈھ جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ اس سلسلے میں بات کرنے پر ڈی ڈی سی کونسلر بانہال اور سنیئر کانگریس لیڈر امتیاز احمد کھانڈے نے کشمیر عظمی کو بتایا کہ ٓائندہ جون کے مہینے میں اس راستے کی تجدید و مرمت کیلئے ایک پلان مرتب کرینگے تاکہ عوام کو کسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔انہوں نے کہا کہ اس راستے کو جو رانی روڈ کے نام سے مشہور ہے کیلئے پاور ریسوینگ سٹیشن بانہال سے ایک سڑک تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے اور وہ اس پر کاغذی کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تواریخی رانی روڈ والی مجوزہ سڑک سے گگڑواہ بنکوٹ میں قائم سپورٹس سٹیڈیم اور شاہراہ سے ڈگری کالج کیلئے آنے والی رابطہ سڑک کو بھی لنک کیا جائیگا تاکہ ڈگری کالج اور چھاناڑ بنکوٹ کی بستیوں کیلئے ایک سرکل روڈ تعمیر کیا جاسکے جو قصبہ بانہال سے بہت نزدیک رہے گا اور کالج کے بچوں کو براہ راست فائدہ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ چھاناڑ کے لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اور اس راستے اور سڑک کو ہر حال میں تعمیر کرنے کی کوشش ہوگی۔