سرینگر //گورنر انتظامیہ کی جانب سے ریاست میں بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کرانے کے عمل کو پہلے مرحلے میں ہی شدید دھچکا لگا ہے۔ ریاست کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی نیشنل کانفرنس نے انتخابات سے دور رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔پارٹی کی فیصلہ سازکور کمیٹی نے کہا ہے کہ جب تک مرکزی اور ریاستی سرکاریں دفعہ 35 اے کو تحفظ دینے اور اس حوالے سے واضح موقف اختیار کرنے کے اقدامات کو بروئے کار نہیں لاتی تب تک نیشنل کانفرنس ایسے چنائو میں حصہ نہیں لے گی ۔یاد رہے صرف تین روز قبل ڈاکٹر فاروق نے کہا تھا کہ عوام کو اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کیلئے چنائو میںبھر پور طریقے سے حصہ لینا چاہیے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ریاستی گورنر انتظامیہ نے اکتوبر نومبر میں بلدیاتی چنائو اور نومبر دسمبر میں پنچایتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔نواے صبح کمپلیکس میں بدھ کو پارٹی کی کورکمیٹی کا اجلاس ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں پارٹی کے لیڈران نے وادی میں امن وامان کی صورتحال اور ریاست کے اسپیشل اسٹیٹس کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا ۔میٹنگ میں کہا گیاکہ ریاست کے اسپیشل اسٹیٹس سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں نیشنل کانفرنس متحد ہے اور ہم سب ایک ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ پارٹی کے ایک سنیئر لیڈر ،جو اس میٹنگ میں موجود تھے، نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اجلاس کے دوران زیادہ تر لیڈران کی یہ رائے تھی کہ ریاست کی موجودہ صورتحال ان انتخابات کیلئے موزون نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں موجود لیڈران کا کہنا تھا کہ جب تک دفعہ35Aکے معاملہ پر مرکزی سرکار اپنا موقف واضح نہیں کرتی تب تک ایسے انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔ انہوں نے مزید کہا’’ انتخابات لوگوں کی حق رائے دہی کیلئے انجام دیئے جاتے ہیں اور جب لوگ ہی انتخابات کیلئے تیار نہیں تو پھر یہ کیسے انتخابات ہیں‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس ہمیشہ سے یہ چاہتی آئی ہے کہ یہاں خوشگوار ماحول میں انتخابات ہوں لیکن جو حالات ریاست کے ہیں اُس میں یہ ممکن نہیں لگ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں سب لیڈران نے کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کی نیت صاف نہیں ہے ۔اجلاس کے فوراً بعد ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ دفعہ35اے کیساتھ کسی بھی قسم کی چھڑ چھاڑ نہ صرف جموں وکشمیر بلکہ ملک کیلئے بھی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مرکزی اور ریاستی سرکار کا رول دفعہ 35Aکے متعلق لوگوں کے جذبات اور احساسات وخواہشات کے مخالف ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی سرکار اس بات کو نظر انداز کررہی ہے کہ اس شق کو ریاستی اور مرکزی سرکار کے درمیان مذاکرات کے بعد ہی آئین میں شامل کر کے 1952کے دہلی اگریمنٹ کا حصہ بنایا گیا ہے ۔اس کے علاوہ اس دفعہ کو ریاست کی آئین ساز اسمبلی نے بھی دفعہ370کے تحت منظور کیا تھا۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر اس کے خلاف کوئی ایسی کوشش کی گئی تو یہ مرکز اور ریاست کے رشتے پروار ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اعلان کردہ پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات کے بارے میں کور کمیٹی میٹنگ کے دوران لیڈران نے اُس پر تبادلہ خیال کیا جس میں لیڈران نے اس بات کو محسوس کیا کہ 35اے کیساتھ غیر ضروری چھیڑ چھاڑ کی کوششوں سے پیدا شدہ صورتحال کو نظرانداز کرتے ہوئے ان انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک مرکزی اور سریاستی سرکاریں آرٹیکل 35 Aپر اپنی پوزیشن واضح نہیں کریں گی اور عدالت عظمیٰ میں اس دفعہ کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے کئے گئے اقدامات لوگوں کے سامنے نہیں رکھیں گی تب تک نیشنل کانفرنس ان انتخابات میں حصہ نہیں لے گی ۔پریس کانفرنس کے دوران اس سوال کہ ،جس میں قومی سلامتی مشیر ڈول نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر کے کیلئے الگ آئین ایک بھول اور غیر ضروری اقدام تھا، کا جواب دیتے ہوئے سابق وزیر خزانہ عبدالرحیم راتھر نے کہا کہ اگر ریاست کا الگ آئین بھول اور غیر ضروری اقدام تھا تو پھر ریاست اور مرکز کے درمیان طے پایا گیا دستاویزی الحاق بھی غیر ضروری اقدام اور ایک بھول تھی۔کورگروپ میٹنگ میں پارٹی کے تمام سینئر لیڈران جن میں پارٹی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر ، عبدالرحیم راتھر ، محمد شفیع اوڑی ، ڈاکٹر مصطفی کمال ،محمد اکبر لون،مبارک گل ،سکینہ ا یتو ،شمیمہ فردوس ،رمضان چودھری ،سجاد کچلو ، کفیل الرحمان ، مشتاق بخاری ،جاوید رانا ، ناصر اسلم وانی اجے سدھوترہ ،بی ایس سلاتھیہ ،خالد نجیب سہروردی کے علاوہ دیگر اراکین بھی موجود تھے ۔