۔15دسمبر کی صبح پلوامہ کے لوگوں کے لئے قیامت بپا کرگئی۔ منہ اندھیرے ہوئے ایک عسکری معرکے میں تین عسکریت پسندوں اور ایک فوجی اہلکار کی ہلاکت کے بعد فوجیوں نے احتجاج کررہے نوجوانوں پر اند ھا دھند گولیاں برساکر سات کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا۔فوجی حکام اور سرکار حسب معمول اپنی اس خونین کاروائی کوجائزجتلانے کے لئے طرح طرح کی تاویلیں دینے لگے۔ سرکاری تاویلیں اپنی جگہ، حقیقت یہ ہے کہ سات غیر مسلح عام شہری گولیاں مار کر ہلاک کر دئے گئے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوجیوں نے احتجاج کرنے والوں کو فقط ڈرانے کے لئے گولیاں نہیں چلائیں۔ پلوامہ میں اُس دن ہر گولی جان لینے کے لئے چلائی گئی تھی کیونکہ جو لوگ بھی مارے گئے گولیاں اُن کے سر، چھاتی یا پیٹھ میں لگیں تھی۔ اگر یہ گولہ باری احتجاجیوں کو منتشر کرنے کی نیت سے کی جاتی توجسم کے اوپری حصوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔
پولیس اور دیگر فورسز کی یہ تاویل کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ’خطرناک حد تک‘ انکاونٹر سائٹ کے قریب آگئی تھی، اس لئے فوج کو گولیأ قتل کو جائز قرار نہیں دے سکتی۔تصادم کی جگہ پر عام لوگوں کا جمع ہونا اور احتجاج کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ یہ رجحان 2016 میں شروع ہوا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی غیرمعمولی داقعہ نہیں تھا بلکہ جائے تصادم پر ایسے واقعات کا ہونا اب ایک معمول بن چُکا ہے۔ اور جب یہ رجحان ایک معمول بن چکا ہے تو ہر کوئی یہی امید کرسکتا ہے کہ سرکاری فورسز جنگجو مخالف کاروائیاں کرتے وقت ایک ایسی حکمت عملی اپنائیںجس میں عام شہریوں کی حفاظت اور سلامتی کو ترجیح دی جائے۔ لیکن پلوامہ میں جو کچھ بھی ہوا، اس سے یہ بات کھل کے سامنے آگئی ہے کہ سرکاری فورسز کی نظروں میں عام شہریوں کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جنگجوئوں کو مار کر تمغے اور انعا مات حاصل کرنے کی دوڑ میں بھلے ہی کتنے عام شہری گولیوں کا نشانہ بن جائیں، اس کی فکر نہ تو سرکار کو ہے اور نہ ہی سرکار کی فورسز کو۔سرکار اور سرکاری فورسز کی یہ ذہنیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کشمیر کوenemy territory کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور عسکریت پسندوں اور عام شہریوں میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی ہے۔
کئی برسوں سے ایک سوال بار بار پو چھا جا رہا ہے کہ کشمیری نوجوان بندوق کی طرف کیوں مائل ہوتا جا رہاہے۔ اس رجحان کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ enemy territory والی ذہنیت ہے۔ سیدھی ی بات ہے، جب کشمیری نوجوان دیکھتا ہے یہاں عسکریت کی آڑ میں ہر کشمیری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو اُسے احساس ہونے لگتا کہ ۔
ٓٓآج اُن کی تو کل ہماری باری ہے
جب کسی حساس نوجوان کو اپنا مستقبل اتنا غیر یقینی نظر آنے لگتا ہے تو وہ بندوق کا راستہ اپناتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس راستے پر چلنے والوں کی منزل صرف موت ہے لیکن نوجوان کو وہ موت اُس موت سے بہتر لگتی ہے جو اُسے پتھر چلانے یا کوئی نعرہ لگانے کے جرم میں گولی مار کر دی جاتی ہے۔
کشمیری نوجوان کسی مریخ سے اُتری ہوئی مخلوق کا حصہ نہیں۔ وہ اسی کائنات، اسی دُنیا کے باشندے ہیں۔ وہ لکھنا، پڑھنا چاہتے ہیں،وہ علم، سائنس، ریاضی، کھیل، ادب ، کاروبارا ور دیگر میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوانا چاہتے ہیں لیکن سرکار کی نوجوان دشمن پالیسیوں نے اُن کو اپنے مستقبل سے مایوس کردیا ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت تو اس مایوسی سے کسی نہ کسی طرح جوج ہی لیتی ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو انتہائی اقدامات اُٹھانے سے بھی نہیں کتراتے ۔اسی لئے ہم کئی نوجوانوں کو عسکریت کی طرف راغب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
ہندوستان اگر واقعی کشمیریوں کو اپنا سمجھتا ہے، جیسا کہ بار بار دعویٰ کیا جاتا ہے تو اُسے کشمیری نوجوان کو اپنانے کی سبیل کرنی ہوگی۔ اُسے کشمیری نوجوان کو اپنے اقدامات سے قائل کرنا ہو گا کہ اُس کا مستقبل محفوظ ہے۔ اور ایسا کرنے کے لئے سرکار کو یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ مستقبل میں پلوامہ جیسے سانحات وقوع پذیر نہ ہوں۔
پلوامہ سا نحہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اس سانحہ کو لے کر یہ بھی لازم بنتا ہے کہ ہم منجملہ قوم تھوڑی دیر کیلئے اپنے اندر جھانکنے کی ہمت بھی کریں۔ کہیں ایسے سانحات میں کسی حد تک ہمارا ہاتھ بھی تو نہیں؟ دنیا بھر میں جب بھی کہیں کوئی سکیورٹی آپریشن ہوتا ہے، وہ جگہ کسی بھی طرح کی آمد و رفت کیلئے اُس وقت تک ممنوع قرار دی جاتی ہے جب تک سرکاری طور آپریشن کے اختتام کا اعلان نہ کیا جائے۔ ایسا دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے اور کشمیر بھی اسی دنیا کا حصہ ہے، اس لئے ایسی صورتحال میں یہی قانون یہاں بھی نافذ ہوتا ہے۔ اگر کسی جگہ ہتھیاروں سے لیس مخالفین مقابلہ آرا ہو رہے ہوں تو ایسی جگہ کی جانب اگر کوئی غیر مسلح شخص رُخ کرے تو یہ خود کشی کے مترادف ہے۔یہ ایک ایسا رجحان ہے جس میں صرف اور صرف جان کے ذیاں ہونے کا ہی خطرہ ہے۔
ہم اس رجحان کو لگ بھگ تین برسوں سے خاموشی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ انکائونٹر کی جگہوں پر ہمارے غیر مسلح لوگ مارے جارہے ہیں اور ہم میں سے کوئی ذرا سی ہمت جُٹا کر یہ نہیں کہہ پاتا کہ تصادم کی جگہوں پر جاکر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے نہ ہی ’تحریک آزادی‘ کی آبیاری ہو رہی ہے اور نہ ہی کشمیریوں کا کوئی بھلا ہو رہا ہے۔ ہاں اگر کچھ ہو رہا ہے تو فقط یہ کہ انسانی جانیں تلف ہو رہی ہیں اور گھروں کے گھر اُجڑ رہے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اس تلخ حقیقت سے آنکھیں چُرانے کے بجائے اس کا اعتراف کرکے اپنی نوجوان پود کو قائل کرنا ہوگا کہ خود کشی اور قربانی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
مستقبل کسی نے نہیں دیکھا۔ کشمیر ہندوستان کا ہی حصہ بنا رہے گا یا پاکستان میں ضم ہوجائے گا یا پھر ایک خودمختار ریاست کی شکل میں اُبھرے گا۔کشمیر کسی بھی شکل و صورت میں ہو، نوجوان اس کا اثاثہ ہیں اور اس کا بیش قیمت اثاثہ رہیں گے۔ اگر ہم اپنے اس اثاثے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں نتائج کی پرواہ کئے بغیر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے نوجوان مسلح تصادم کی جگہوں پر نہ جائیں۔شہادت کا تصور بہت ہی مقدس ہے لیکن ہمیں اپنے نوجوان شہید نہیں بلکہ زندہ چاہئیں ۔
بشکر یہ ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر