ریاست جموں و کشمیر میں پلوامہ میں سی آر پی ایف کانوائی پر ۱۴؍فروری کا فدائی حملہ خونین تاریخ میں تادیر یاد کیا جائے گا۔ بیک وقت ۴۹؍جوانوں کی ہلاکت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ پلوامہ واقعے نے کشمیر میں مودی حکومت کی نااہلی کی پول پھرکھول کر رکھ دی ہے۔ اس سلسلے میں کئی سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور گورنر انتظامیہ پر ہی نہیں بلکہ خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر شدید اعتراضات کئے جارہے ہیں۔ قارئین کرام شاید غور کررہے ہوںکہ پلوامہ واقعہ کا 2019ء کے پارلیمانی انتخابات سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ کیااس واقعہ سے مودی حکومت کچھ فائدہ اٹھاسکتی ہے یا اس سے مودی حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے؟ ویسے سارا سنگھ پریوار خاص طور اس اندہ ناک واقعہ کا بھرپور سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس المیہ سے قبل آنے والے پارلیمانی انتخابات میں مودی کی کامیابی کے تعلق سے شکوک و شبہات ظاہر کئے جارہے تھے ۔ بھاجپا اور مودی خاص کر تین ریاستوں کے ا سمبلی انتخابات کے بھاجپا مخالف نتائج کے تعلق سے سنگھ فکر مند اور گھبرایا ہوا تھا۔ لگتا تھا کہ انتخابات میں بھاجپا کی کامیابی کیآزمودہ حربے کچھ زیادہ کارآمد نظر نہیں آرہے تھے۔ مثلاً ۲۰۱۴ء میںکانگریس کی عدم کارکردگی اور نااہلی وبدعنوانیوں کے باعث بی جے پی کانگریس کا متبادل سمجھی جاتی تھی لیکن بھاجپا نے حکومت میں خود کو کانگریس سے بھی بدتر ثابت کر کے اچھے دن کے خواب تہس نہس کرتی رہی ۔ مودی جی نے جن وعدوں کے سبز باغ دکھاکر انتخابی کامیابی حاصل کی تھی ،وہ انہوں نے پورے ہی نہ کئے۔ اس لئے عوام الناس کو لگ بھگ پانچ سال کے عرصہ میں اُن کے تمام دعوے اور وعدے سراب لگتے رہے۔ مرأکز اور کئی ریاستوں میں بی جے پی کی حکمرانی ہے، اس وجہ سے بی جے پی کے پاس الیکشن کمیشن اور دیگر اہم اداروں پر دبائو ڈالنے کا پورا موقع تھا۔ ای وی ایم، ووٹرس کی فہرستوں اور ووٹنگ میں دھاندلیوں کے مواقع تھے لیکن اتنے نہیں کہ بھاجپا مخالف لہر کے باوجود پارٹی کامیاب ہو جائے۔ ٹھیک ہے ماحول کو فرقہ واریت سے مسموم کرنا انتخابی کامیابی کے لئے بی جے پی کا ایک پرانا فارمولہ رہا ہے مگر یہ حربہ بھی اب کامیابی کا سبب نہیں بن سکتا ،کیونکہ عام ووٹر ہندو مسلم فرقہ پرستی کی بنیاد پر مر کزی حکومت کی ناکامیاں بھول جانے اور مودی وعدوں کی عدم تکمیل کومعاف کرکے مودی کو وزارتِ عظمیٰ پھر سے سوپننے کے لئے تیار نہیں ۔ پلوامہ صدمے کا فائدہ بھاجپا بے شک اٹھانے کارقص نیم بسمل کر رہی ہے مگر ۲۷؍ فروری کو اکیس اپوزیشن پارٹیوں نے پارلیمنٹ میںاپنا اجلاس بلاکر مشترکہ بیان میں مودی سے فوج کی قر بانیوں پر سیاست نہ کر نے سے خبردار کر دیا ۔ اُدھر پلوامہ واقعہ کے ۱۲؍ دن بعد پاکستان کے خلاف سخت فضائی حملے ، اسلام آباد کا جوابی حملہ اور اس کے مابعد کی کہانی دنیا کے سامنے ہے ۔ قبل ازیں تجارتی میدان میں پاکستان سے’’ انتہائی ترجیحی ملک ‘‘ کا درجہ واپس لے لیا گیا تھااور جموں کشمیر میں لبریشن فرنٹ قائد یاسین ملک اور جماعت اسلامی ( جواب ممنوعہ ہے )کے امیرڈاکٹر حمید فیاض اور اراکین جماعت کی گرفتاریاں زور و شور سے کی گئی ہیں۔ بہرحال پاکستان سے بدلہ لینے کیلئے فوج کو مکمل اختیارات اور کھلی چھوٹ دئے جانے کا بار بار اور جگہ جگہ مودی جی اعلان کررہے ہیں۔ بعض حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پلوامہ کے ردعمل میں پاکستان کو’’ مزا‘‘ چکھانے کی کہانی دنیا نے دیکھی بھی اور سنی بھی مگر ہندوستان اور پاکستان دو ’’نیوکلیئر پاور ‘‘ہیںاور کسی نیوکلیئرپاور لے لئے کسی دوسرے نیوکلیئر پاور پر حملہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لئے زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ محض 2019ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بھرپور ہند پاک جنگ کے امکانات معدوم ہیں۔ ہندوستان میں زبردست پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ ملک کو پاکستان سے صرف بھاجپا حکومت بچاسکتی ہے حالانکہ بھاجپائی حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب ہی کشمیر میں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔ پلوامہ واقعہ کے سلسلہ میں ایک مکتب فکر یہ خیال آرائی کر تا ہے کہیں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں نے پلوامہ حملہ کرواکے پارلیمانی انتخابات سے ذراقبل قومی جذبات برانگیختہ کر نے سے یہ ہدف پورا تو نہ کرنا تھا کہ مودی جی کو قوم کے سامنے نجات دہندہ کے طور پیش کیا جاسکے۔افسوس کہ پلوامہ میں ہندوستان نے اپنے تقریباً50 سپاہی کھودئے لیکن مودی کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے گجرات (2002) میں تقریباً دو ہزار جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ان فسادات کے بعد ہی مودی جی کا گجرات میں سیاسی سکہ رائج ہوا۔ اقتدار کی خاطر سیاست کار کیا کچھ نہیں کر ڈالتے۔ بھاجپا اپنے لئے 2019ء میں دوبارہ برسراقتدار آنا انتہائی ضروری سمجھتی ہے۔ بہر صورت بہت جلد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی ناکامی کے امکانات دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں۔ ملک بھر میں عوام کو روزمرہ پیش آنے والی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود بی جے پی میں مودی مخالف عناصر کھل کر نہ سہی مگر دبے الفاظ میں مودی جی کی ناکامیوں کا تذکرہ کر تے رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں مودی کے ہی ایک وزیر گڈکری نے مبینہ طور مودی کی ناکامیوں کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا کہ جیسے وہ خود کو وزرتِ عظمیٰ کا اُمیدوار بناکر پیش کرنا چاہتے ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ بھاجپا اور مودی کی حکومت کیلئے آنے والے انتخابات میں وہ’’مودی لہر‘‘ فی الحال دوردور بھی کہیں نظر نہیں آتی جس کو اپریل مئی ۲۰۱۴ء میں محسوس کای جارہا تھا۔ حالات کی ا س تصویر میںبی جے پی مایوسی کے عالم میں کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ اس لئے وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آنے والے ایام میں ملک میں سیاسی محاذ پر کیا کیا گل کھلیں گے۔
Ph: 07997694060
Email: [email protected]