وادیٔ کشمیر میںشاہ ہمدان حضرت میر سید علی ہمدانی ؒنے اسلام کا آفاقی پیغام لاتے ہوئے کئی دست کاریوں کو بھی متعارف بھی کیا تاکہ نومسلم معاشرے کو عقائد کی روشنی قبولتے ہوئے آزوقہ کمانے کی راہ بھی ملے۔ان ہی دست کاریوں میں پشمینہ سازی بھی شامل ہے ۔اس نے صنعت کی شکل اختیار کی تونہ صرف وادی میں اسے کافی فروغ ملا بلکہ اس خطہ ٔ زمین کو پشمینہ اور شاہ توش کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔کئی صدیوں سے کشمیر میں تیار کئے جارہے پشمینہ شال اور ان پر سحر انگیز ہاتھوں سے جادوئی سوزن کاری اقوام عالم میں اتنی مشہورومعروف ہوئی کہ ان کی مانگ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی رہی۔ کشمیر میں بنائے گئے پشمینہ شال شاہان ِ مغل کے درباروں کی بھی زینت بنے رہے اور انگریزوں نے بھی اس کو بہت پسند کیا ۔ غرض پشمینہ شال ایشیاء سے یورپ تک اپنی دھاک بٹھا گئے۔ واضح ر ہے کہ یہ اس شال کااعجاز تھا کہ بدنام زماں بیع امرتسر میں بھی مہاراجہ گلاب سنگھ کو برطانوی حکومت کود یگر اشیاء کے علاوہ پشمینہ شال ہر سال پیش کرنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزوںکے دل پر پشمینہ شالوں کا جادوکس قدر نقش ہوگیا تھا۔ پشمینہ شال کیلئے درکار خام مواد یعنی خاص قسم کا اون دراصل پشمینہ بکری سے حاصل کیا جاتا ہے جو ریاست کے شمالی خطے لداخ کے سرد ترین علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ اس خطے میں لوگ ان بکریوں کو پالتے پوستے ہیں اور یہی ان کے لئے ذریعہ معاش بھی ہے۔ان بکریوں کے پشم میں ریشم سے زیادہ نرمی اور کمال کی گرمی بھی قدرتی طور پیوست ہوتی ہے ۔اس وجہ سے پشمینہ شال باریک اور نرم ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد گرم بھی ہوتا ہے۔ان مخصوص بکریوں سے پشم (اون) حاصل کیا جاتا ہے اور بعد میں انسانی ہاتھ سے صفائی ستھرائی کر کے اس میں سے گندگی باہر نکالی جاتی ہے۔ ماضیٔ قریب تک یہ اون حاصل کرنے کے بعد ریشم نما گولے عموماً وادی میں درآمد کئے جاتے تھے اور پنبہ کے بیو پاری اس مخصوص اون کو کشمیری خواتین سے چرخے پر کتواتے اور یہ خواتین اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر روایتی چرخوں پر اون سے بہت باریک تاریں کاتتی تھیں۔ یوں پشمینہ سازی میں جہاں خاص طور پر خواتین کی شمولیت ہوتی، وہیں یہ کام اُن غریب وبے سہارا خواتین کے لئے روزگار کا ایک اہم ذریعہ تھا جو گھر کی چار دیواری اور چادر کے حصار اپنے گھر کا بوجھ اٹھانے میں گھر والوں کو دست تعاون دیتی تھیں۔ معمولی سی اُجرت ہی صحیح تاہم یہ خواتین گھر کے اندر چرخے پر پشمینہ کات کر اپنے بچوں کی پرورش بھی حلال طیب کمائی پر کرتی تھیں اوران کے لئے تعلیمی مصارف کے لئے خرچہ اکھٹاکرتیں۔ یہ کہنے سے عار نہیں ہونا چاہیے کہ شہروں اور قصبوں میں خواتین نے اسی چرخہ کتائی اور پشمینہ سازی کی بدولت اپنی بیٹیوں کے ہاتھوں پر حنا کے گہرے رنگ بھی جماتیں ۔ بسااوقات یتیم و نادار بچوں کے لئے ان کی مائیں اسی پشمینہ اور چرخے سے خوشیوں اور خوابوں کے سامان خریدتیں اور بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین کو بھی یہی ایک سہارا ہوتا۔ اس طرح اس صنعت کو دن دوگنی رات چوگنی فروغ حاصل ہوتا رہا۔واقف کاروں کی مانیں تو25؍برس قبل3؍کروڑ روپے سالانہ خواتین چرخے پر پشمینہ کتائی کر کے کماتی تھیں جو آج کی تاریخ میں تقریباً25کروڑ کے برابر بنتے ہیں۔کشمیر کے شالباف بُنکر جو زیادہ تر صرف شہر خاص سے تعلق رکھتی ہیں، اپنی غیر معمولی صلاحتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہاتھوں سے تیار کئے ہوئے پشمینہ سوت کو مختلف سائزوں میں تیار کرتے ،اس کے بعد ان پر طلسماتی نقش و نگار والی سوزنی کاری ہوتی ۔ پشمینہ شالوں پر ریشم یا سوت کے دھاگے سے مختلف نقش و نگار چڑھتے تو یہ شال لا مثال شئے بن کر بادشاہوں،نوابوں ، امراء اور رئیسوں کے محلات کی زینت بن جاتے لیکن گزشتہ نصف صدی سے یہ خاص شال ہر خاص و عام میں اسٹیٹس سمبل بنا ۔اس وجہ سے بھی پشمینہ کی کھپت بہت بڑ ھ گئی ہے۔ برصغیر،یورپ،مغربی ممالکوں اور عرب دنیا میں پشمینہ شال اور رومال کا کافی چلن ہے بلکہ اب تواپنی منفرد حیثیت کی وجہ سے یہ مختلف فیشن شوزمیں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
افسوس صد افسوس کہ اتنی ساری خصوصیات کے باوجود یہ صنعت اپنی مادر بھومی میں اب زوال پذیر ہورہی ہے کیونکہ حکومتوں کی مسلسل عدم توجہی سے کشمیر کی اس جنت نما صنعت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی تیاریاں ہوتی جا رہی ہیں۔ عرصہ ہوا سرمایہ داروں نے مشینوں کے ذریعے پشمینہ کی کتائی کا کام شروع کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے جہاں ہزاروں خواتین سمیت لاکھوں لوگوں کے روزگار پر شب خون مارا جارہاہے ۔ اس مشینی تصرف کے سبب امرتسری شال کی طرح اصل پشمینہ کے ملاوٹ شدہ ہونے سے شبہات پیدا کئے گئے۔ صنعت سے جڑے ہوئے لوگوں کی مشترکہ شکایت ہے کہ سرمایہ داروں نے ریاست کے اندر اور باہر مشینوں پر کتائی کا کام شروع کیا ہوا ہے جس کے سبب صدیوں پرانے کشمیری پشمینہ شال کی اصل ہئیت وجاذبیت متاثر ہوئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مشین پرتیار کرنے والے پشمینہ شال کا دھاگہ مضبوبط بنانے کیلئے فی الوقت اس میں کہیں کہیں مبینہ طورمصنوعی دھاگہ بھی ملایا جاتا ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ اسی پر بس نہیں کیاجاتا بلکہ کہیں کہیںیہ مخصوص شال پشمینہ ہینڈلوم کے بجائے’رفل ہینڈلوم پر بُنا جانے لگا ہے ،اس وجہ سے اس کی ساخت میں کافی تبدیلی آنے سے یہ خالص بھی نہیں رہا۔ان کا ماننا ہے کہ پاور ہینڈلوم پر پشمینہ شال بننا کشمیر کی صدیوں پرانی انمول صنعت کو جڑسے اکھاڑنے کی کوشش ہے اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی جا ری رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ لامثال صنعت بھولی بسری بات ہو گی۔ادھر مشینوں پر شال تیار کرنے کی وجہ سے وہ لاکھوں کاریگر بھی بے روزگار ہوگئے ہیں جو چرخوں پر پشمینہ کی بنائی کرکے اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتے تھے۔ شہر خاص سمیت گائوں اور قصبوں میں خاص طور پر جو محنت کش خواتین اس صنعت سے جڑکر اپنی لامثال کاریگری کا نمونہ پیش کر تیں ، روایتی چرخے پر کافی باریک سوت کاتتیں،اپنا روزگار آپ چلاتے ہوئے کشمیر کی اس لافانی صنعت کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتیں ، وہ اب حوصلہ شکنی کے عالم میں کف ِافسوس مل رہی ہیں ۔ کشمیر کے شالباف بنکر جو بیشتر صرف شہر خاص سے تعلق رکھتے ہیں ،اپنے غیر معمولی کاریگرانہ ہنر سے اپنے ہاتھوں تیار کئے ہوئے پشمینہ سوت کو مختلف سائزوں میں تیار کرتے تھے، وہ بشمول رفوگر اس صنعت کے زوال پذیر ہونے پر انگشت بدنداں ہیں۔ ریاستی اور مرکزی سرکار نے بنکروں کیلئے گزشتہ کئی سال سے پشمینہ پرموشن اسکیموں کا اعلان بھی کیا تاہم اس کا فائدہ بھی منظور نظر افراد اور سرمایہ دار ہی اٹھاتے ہیں جب کہ ایسی بعض اسکیموں میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کا ا س کام کاج سے دو ر کا واسطہ بھی نہیں ہے۔کشمیر پشمینہ کاریگر یونین کا مطالبہ ہے کہ سرکار فوری طور پر جعلی رجسٹریشن کارڈوں کو منسوخ کرے تاکہ پشمینہ کی منفرد حیثیت برقرار رہے۔ان کا مطالبہ یہ ہے کہ پشمیہ بُننے کے پاور لوموں کو بھی بند کیا جائے تاکہ اس کاروبار سے جڑے ہوئے بعض سرمایہ داروں کو جعلسازی کا کوئی موقع فراہم نہ ہو۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے جب اس صنعت کا جنازہ نکالنے کی کوشش کی گئی بلکہ ڈوگرہ راج کے دوران بھی بنکروں کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا اور یہ صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی تھی۔ اس زمانے کے حکمرانوں نے اس صنعت اور شالبافوں پر اس قدر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے شالباف معاشی طور پر خستہ ہوگئے تھے۔شخصی راج کے خلاف شہر خاص اور زالڈگر میں شالبافوں نے ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کیا تو اس دوران سخت دل حکام کے ہاتھوں کافی خون خرابہ بھی ہوا جو تاریخ کشمیر کا ایک بد نمادھبہ ہے۔ عوامی راج کے دعوؤں کے دوران بھی شالبافوں کی تقدیر نہیں بدلی کیونکہ اس دور میں بھی ارباب اقتدار نے نت نئے حربے آزما کر اس صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا تے رہے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ نقلی پشمینہ پر فوری طور پر پابندی عائد کر کے ا س صنعت کوبین الاقوامی سطح پر اس کی پہلی والی شناخت کو برقرار رکھا جاتی مگر متعلقہ حکام کو اس بچاؤ کارروائی میں ذر ہ برابر دلچسپی نہیں۔ ماضی تاحال حکومت کی طرف سے اگرچہ اس سلسلے میں کافی زبانی جمع خرچ ہو ا تاہم زمینی سطح پر یہ سب ڈھکوسلہ ہے ۔ اب بھی اگر انتظامیہ اورحکومت مل کر اس صنعت کے تئیں خیرخواہی کی جذبے سے گہری نیند سے بیدار نہیں ہوتے تو بہت دیر ہوجائے گی اور ڈھونڈے سے بھی اس صنعت کا نام و نشان نہ ملے گا ۔ اللہ کرے یہ دن نہ آئے۔
نوٹ : مضمون نگار ’’کشمیر عظمیٰ‘‘ سے وابستہ ہیں