مختار احمد قریشی
ایک عظیم ماں کی گود سے ہی عظیم بچے پیدا ہوتے ہیں اور بچوں کی تربیت میں ماں کا کردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ علامہ اقبال جیسی عظیم شخصیت کے پیچھے بھی ان کی پرہیزگار ماں کی تعلیم و تربیت کا بڑا ہاتھ تھا۔ ماں کی پاکیزگی، پرہیزگاری اور اعلیٰ اقدار بچے کی شخصیت سازی میں ایسے مضبوط ستون کا کردار ادا کرتی ہیں، جس پر اس کی زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ماں کی پاکیزگی اور دینداری براہِ راست بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کی والدہ کی تربیت نے ان کے اندر تقویٰ، حق گوئی اور ملت کے لیے خدمت کے جذبات پیدا کئے۔ ماں کی پرہیزگاری اور حلال و حرام میں تمیز کا اثر اقبال کی سوچ، کردار اور زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے۔
آج کل علامہ اقبال جیسے بچے پیدا کیوں نہیں ہوتے؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آج کی مائیں ویسی نہیں رہیں جیسی مائیں ماضی میں ہوتی تھیں۔ آج کے دور کی مائیں اکثر مادی سوچ میں مبتلا ہیں اور بچوں کی اخلاقی و روحانی تربیت پر زیادہ توجہ نہیں دیتیں۔ بچوں کو ہر چیز مہیا کی جاتی ہے، لیکن انہیں حق و باطل، حلال و حرام اور پرہیزگاری کے اصول نہیں سکھائے جاتے۔ ماضی کی مائیں اپنے بچوں کو دین کی بنیادوں پر تربیت دیتی تھیں جبکہ آج دین کے علم کی کمی اور غیر ضروری دنیاوی سرگرمیاں بچوں کی تربیت میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ماں کی عظمت کا یہ پہلو بھی ہے کہ وہ بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ ماں کا کردار کا اثربچے کی پوری زندگی پر پڑتا ہے۔اس لئےجہاںبچوں کے اندر اخلاقی اقدار پیدا کرنے کی ذمہ داری ماں پر ہوتی ہےوہیں بچوں کو اللہ سے محبت، قرآن سے تعلق اور عبادات کا عادی بنانے کا پہلا سبق ماں ہی دیتی ہے۔ اگر ماں خود پرہیزگاری کا نمونہ ہوگی تو بچہ بھی ان اصولوں کو اپنائے گا۔آج کی ماؤں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ علامہ اقبال کی والدہ کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔ بچوں کی جسمانی اور روحانی پاکیزگی کا آغاز ان کی خوراک سے ہوتا ہے۔ والدین کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ بچوں کو جو خوراک دی جا رہی ہے وہ حلال اور پاک ہو۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دنیاوی علم کے ساتھ دینی علم بھی سکھائیں۔ ماں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو جھوٹ، دھوکہ دہی اور بداعمالیوں سے بچنے کی تعلیم دے۔لیکن آج کل ماؤں میں وہ صفات کم پائی جاتی ہیں جو ایک زمانے میں ان کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔ آج کی مائیں اپنے بچوں کے لیے وقت نکالنے میں ناکام ہو رہی ہیں، کیونکہ وہ یا تو ملازمتوں میں مصروف ہیں یا سوشل میڈیا جیسی سرگرمیوں میں مگن ہیں۔ ماضی کی مائیں بچوں کو اخلاقیات اور ادب سکھاتی تھیں، جبکہ آج یہ تعلیم معدوم ہوتی جا رہی ہے۔آج کی زیادہ تر مائیں بچوں کو دین سے جوڑنے کی بجائے مادی کامیابی پر زور دیتی ہیں، جس سے ان کے کردار کی روحانی بنیاد کمزور ہو رہی ہے۔ایک ماں کو چاہیے کہ بچوں کے اخلاق پر خاص توجہ دے۔ جھوٹ، حسد اور دوسروں کی حق تلفی جیسے رویوں سے بچوں کو بچانے کے لیے خود ایک مثال بنے۔ بچوں کو دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ دین کی بنیادی تعلیمات بھی دیں۔اُنہیں اچھے انسان اور اچھے مسلمان بنانے کے لیے ان کے اندر دیانت داری، شکر گزاری اور خدمت خلق کے جذبات پیدا کریں۔بچوں کو اچھا انسان بنانے کے لیے ان کے کردار پر خاص توجہ دی جائے۔ انہیں سچ بولنے، وعدہ پورا کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے کی تربیت دی جائے۔یا رہے کہ ماں کے اخلاقی معیار کا براہ راست اثر بچوں کی شخصیت پر پڑتا ہے۔ اگر ماں خود اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حامل ہوگی، تو بچے بھی انہی اقدار کو اپنائیں گے۔ مائیں اگر بچوں کے سامنے اعلیٰ مثالیں قائم کریں تو ان کی تربیت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوگی۔ بچوں کو سوچنے اور سوال کرنے کی آزادی دینےسے ان کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔انہیں یہ سکھائیں کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف اپنی ذات تک محدود نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی میں بھی ہے۔
بے شک ماں کا کردار صرف گھر تک محدود نہیں بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک نمونہ ہونا چاہیے۔ اگر مائیں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور بچوں کی تربیت میں مثالی کردار ادا کریں، تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑ سکتا ہے۔کیونکہ معاشرتی اصلاح کا آغاز گھر سے ہوتا ہے اور گھر کی اصلاح ماں کی ذمہ داری ہے۔
کاش! ہمارے معاشرے کی مائیں اقبال کی ماں جیسی بن جاتیں اور اپنے بچوں کو دین اور دنیا دونوں میں کامیابی کی راہ دکھاتیںتاکہ ہماری نسلیں دنیا کے سامنے اپنی عظمت کا مظاہرہ کرتیں۔
(مضمون نگارایک اُستاد ہیںاور بارہمولی بونیار سے تعلق رکھتے ہیں)
رابطہ۔8082403001
[email protected]>