فلک ریاض
“ارے حرام زادے تو مجھ سے لڑتا ہے۔کتیا کی اولاد اپنی اوقات دیکھ پہلے۔ بجلی کی ترسیلی لائن تمہارے باپ کی ہے کیا\۔ تمہاری نوکری محکمہ بجلی میں کیا لگی اپنے آپ کو یہاں کا گورنر سمجھتا ہے کیا، نیچ کہیں کے۔۔۔” شہباز سید غصے کی وجہ سے آگ بگولا ہو رہا تھا اور اس کا دوست شبیر اس کو کس کے پکڑے ہوے تھا۔ بجلی کا لائن مین محمد حفیظ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ میری ڈیوٹی ہے اور حکم ہے محکمہ کی طرف سے کہ جو کوئی بھی غلط طریقے سے ترسیلی لائن پر کنکشن ڈال دے تو مجھے اسے ہٹا دینا ہے۔ اسی بات پر شہباز سید اور اس کے درمیان تو تو میں میں شروع ہو گئی تھی۔اگر شبیر بیچ میں نہیں آتا تو معاملہ ہاتھا پائی پہ اتر آیا تھا۔
“امی میں سکول کے لیے نکلتی ہوں…”شازیہ نے ماں کو آواز دی تو ماں نے باورچی خانہ سے ہی پکارا ۔۔۔”آج دوپہر کا کھانا کھا لینا، میں نے ٹفن بیگ میں رکھ دیا ہے۔۔کل کی طرح نہیں بولنا کہ کھانے کی فرصت ہی نہیں ملی..”اس نے فکر مند لہجے میں تلقین کی تو شازیہ نے مسکرا کر کہا۔۔۔نہیں کل سچ میں بچوں کے امتحانات کی وجہ سے کھا نہ سکی آج تو ضرور کھاؤں گی۔۔۔”
شازیہ۔شہباز سید کی چچا زاد بہن ہے ۔۔دونوں کے مکان پاس پاس ہی ہیں۔ شہباز کا کاروباری بازار میں بڑا شوروم ہے اورپانچ چھ ملازم بھی ہیں۔ اس کے والد احمد سید اور شازیہ کے والد محمد سید دونوں گزر گئے ہیں ۔شہباز منجلا بھائی ہے اور اس سے بڑا ایک ہے جو سرکاری ملازم ہے اور اس کے بعد دو بہنیں ہیں جو دونوں بیاہی گئی ہیں۔ شازیہ بھی منجلی بہن ہے اور اس سے بڑے دو بھائی اور شازیہ کے بعد ایک بہن۔ خود وہ ایک پرائیویٹ سکول میں جاب کر رہی ہے۔
شہر کا نامور سکول ہونے کی وجہ سے اچھی خاصی تنخواہ اسے مل جاتی تھی۔
“ماں تم میرے لیے کچھ نہیں کر رہی ہو۔۔۔کتنی بار کہا تم سے کہ میری محبت کے بیچ پھر کوئی دوسرا آجائے گا اور شازیہ کو لے کے جائے گا۔ کل اچھی ساعت ہے۔کل چاچی کے گھر جاؤ اور شازیہ کا ہاتھ مانگو۔۔۔”وہ ماں کو سمجھا رہا تھا تو ماں بولی۔۔۔۔”
“لیکن اگر جمیلہ نے انکار کیا تو میری بےعزتی ہو جائے گی۔۔۔یہ بھی تو سوچو۔۔۔” شہباز کی ماں نجمہ نے تیوری چڑھا کے بولا تو شہباز بولا۔۔۔”ارے ماں تم بھی کتنی سیدھی سادی ہو… وہ لوگ تو چاہ رہے ہوں گے کہ ہم ان کو رشتہ بھیج دیں، وراثت اور آمدنی میں ہم ان سے بہت آگے ہیںاور میرا تو اچھا خاصا بزنس ہے۔ نوکر چاکر ہیں۔۔وہ تو ایک پرائیویٹ سکول میں ملازمہ ہے۔۔۔” اور ہمارے گھر آکے اس کے بھاگ کھل جائیں گے۔۔” وہ اپنی ترچھی مونچھوں کو بل دیتے ہوئے بولا۔ تو ماں نے جانے کی حامی بھر لی۔
“ان حرام زادوں نے جرآت کیسے کی ہمیں انکار کرنے کی۔ انہوں نے ہمارا دبدبہ، ہماری شان اورہمارا رتبہ دیکھا نہیں ہے کیا۔۔؟ تم اپنا فشارِ خون نہ بڑھاؤ ماں۔۔۔میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر اس گھر کی کوئی بہو گی تو بس شازیہ۔۔”انکار کے بعد شہباز سید غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا اور اپنی ماں کو تسلی دے رہا تھا۔ نجمہ خاتون اپنا ماتھا پکڑ کے بیٹھی ہوئی تھی۔
شازیہ اپنے مرحوم والد کا پینشن کیس نپٹانے کے لیے اے جی آفس پہنچی تو زمین کے وسیع رقبے پہ تعمیر اے جی آفس کے احاطے میں اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کدھر جائے۔اس نے ایک آدمی سے پوچھ لیا کہ مجھے اس کام کے لیے کدھر جانا ہوگا۔۔ ۔۔تو اس نے کہا کہ آپ دوسرے مالے میں جائیں اور وہاں پہ کمرہ نمبر چار میں آپ رئیس صاحب کے پاس جائیں۔ وہ اکاؤنٹنٹ ہیں۔۔وہی آپ کی مدد کریں گے۔ جب وہ وہاں پہنچی تو بہت شور شرابہ سنا۔۔دو چار آدمی ملازمین کے ساتھ بدتمیزی کر رہے تھے اور آفس کا سامان ادھر ادھر پھینک رہے تھے۔کوئی وجیہ نوجوان ان کو نرمی سے سمجھا رہا تھا۔۔”دیکھیے ہم آپ سے معافی مانگ چکے ہیں ہم مانتے ہیں کہ ہم سے تاخیر ہوئی… آخر میرے اسٹاف ممبر بھی انسان ہیں روبوٹ نہیں ہیں۔۔۔کلرک صاحب کے والد فوت ہو چکے تھے اسی لیے آپ کی فائل اٹھا نہ سکے۔۔۔دو دن کے اندر اندر آپ کا کام نپٹایا جائے گا میں زبان دے چکا ہوں۔۔۔” وہ ان کو سمجھا رہے تھےتو ان لوگوں میں سے ایک جوان آگے بڑھا اور ان کو دھکا دے کے گرانے کی کوشش کی۔۔۔تو باقی ملازمین اور اس لڑکے کے ساتھ لوگوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
رئیس صاحب نے خود کو سنبھالا اور نرم لہجے میں بولا ” اے نوجوان میرے بھائی۔۔۔میں یہاں کا آفیسر ہوں اور سرکاری ملازم ہوں۔۔۔۔آپ اپنے غصے پہ قابو پائیے۔۔۔میں اگر چاہوں تو ابھی ایک منٹ میں آپ کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل سکتا ہوں۔۔۔مگر آپ کا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔۔۔۔جائیے آپ کا کام میں خود کروں گا۔۔۔۔”ایک دوسرے ملازم نے ٹیلی فون اٹھا کے پولیس کو فون کرنا چاہا۔ تو رئیس صاحب نے روک لیا۔ شازیہ جو وہیں کھڑی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ رئیس صاحب کا رویہ اور گفتار میں نرمی کا لہجہ دیکھ کے بہت متاثر ہوئی۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایک آفیسر ہو کے بھی اور اتنی طاقت ہو کے بھی انہوں نے یہ سب کیسے برداشت کر لیا۔ وہ انہی خیالات میں گمُ تھی کہ بھاری سی آواز نے چونکا دیا۔۔۔” جی کہیے محترمہ…. ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں…؟”
اس نے سرعت سے گردن گھمائی۔۔”… جی وہ جی… سر میرے والد صاحب کا پینشن کا کیس تھا…”اس نے رئیس کو ساری جانکاری دی تووہ بولے۔۔” کوئی بات نہیں آپ کے کیس میں دس پندرہ دن درکار ہیں آپ کو ایک دو بار آنا پڑے گا ۔ تو آپ کا کیس ہم کلیئر کر دیں گے انشاءاللہ۔۔۔”
وہ گھر آئی تو رئیس کے خیالوں میں کھو گئی۔۔۔وہ سوتی جاگتی کھاتی اٹھتی بیٹھتی اسے صرف رئیس کا چہرہ نظر آتا۔پہلی بار کوئی مرد اس کے خیالوں اس کی نظروں کے راستے سے دل میں اتر گیا تھا۔ یعنی اسے محبت ہو گئی تھی۔
کیس کے سلسلے میں دو تین بار اے جی آفس گئی۔تو رئیس سے ملنا ہوا۔ اس کا فون نمبر بھی حاصل ہوا۔ واٹس ایپ نمبر پہ وہ رئیس سے فائیل کے بارے میں پوچھتی تو وہ وہاں سے جواب دیتے تھے۔ پیغامات اور بات چیت کا سلسلہ جاری رہا اور دھیرے دھیرے محبت پروان چڑھنے لگی۔
وہ ایک ریسٹوران میں بیٹھے چائے پی رہے تھے…”آپ آج اتنے اداس سے کیوں نظر آرہے ہیں رئیس…؟اس نے سوال کیا تو اس نے چائے کا کپ نیچے رکھ کے ایک لمبی سانس لی… اور بولا…. تھوڑا سا پریشان ہوں شازیہ تم ایک اچھے خاندان کی لڑکی ہو مانا کہ میں اچھے عہدے پہ فائض ہوں مگر میرا خاندان تم لوگوں جیسا نہیں ہے۔۔۔۔شاید تمہارے گھر والے اس رشتے سے انکار کر دیں۔۔۔”دل کی بات کہہ کر وہ سوالیہ نظروں سے شازیہ کی طرف دیکھنے لگا۔تو شازیہ بولی۔۔”ذات پات خاندان۔۔۔یہ سب میں نہیں مانتی رئیس۔۔۔ہمارے سماج کی نظروں میں جو بڑے بڑے گھر ہیں اونچے اونچے خاندان ہیں۔۔۔ان گھروں کے اندر میں نے انسان نما درندے پیدا ہوتے دیکھے ہیں۔۔۔اور لوگوں کی نظروں میں جن کی کوئی اہمیت نہیں ان گھروں کے اندر میں نے مقدس بدن بہترین پرورش کی نورانی شعاعوں سے سرشار دیکھے ہیں۔۔۔۔میں نے بھی زندگی دیکھی ہے مجھے آپ میں اپنا مکمل جہاں نظر آتا ہے اگر میں شادی کروں گی تو بس آپ سے۔۔۔۔ اب ہم ایک دوسرے کو دو سال سے جانتے ہیں۔۔میں نے آپ کو آپ کے گھر کو پوری طرح سے جان لیا ہے”اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
“تم لوگ ہماری ناک کٹوانا چاہتے ہو کیا چاچی۔۔۔شازیہ ہماری بہن ہے ہمارے خاندان کا خون ہے۔۔۔محلے بھر میں اس کے چرچے ہو رہے ہیں۔۔رمضان شیخ مونسپلٹی میں صفائی کرمچاری کا بیٹا پڑھ لکھ کے آفیسر کیا بن گیا۔۔۔کیا اپنے نام سے ذات کا دھبہ مٹا سکتا ہے۔۔اور تم لوگوں کی عقل ماری گئی ہے کیا ۔ان کا خاندان دیکھا ہے۔۔کہاں وہ کہاں ہم۔۔۔۔۔”
شہباز سید کا بھائی اپنی چاچی کے گھر ان کو سمجھانے آیا تھا تو شازیہ نے بہت دھیمے الفاظ میں نرمی سے کہا۔۔’’بھائی جان کیا خرابی ہے رئیس میں۔۔۔؟.. شریف ہے، آفیسر ہے، خوبصورت ہے، شراب نہیں پیتا، جوا نہیں کھیلتا، ان کے گھر میں شور شرابہ نہیں ہوتا’’ ان کی عورتیں باپردہ ہیں۔۔دیندار گھرانہ ہے۔۔۔گالی گلوچ نہیں کرتے۔۔لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔۔۔اور کیا چاہیے ہم کو ۔۔‘‘ کہہ کے شازیہ نے سر جھکا لیا۔
’’تم پاگل ہو گئی ہو۔۔جس انسان کے اجداد ہمارے گھروں میں نوکر ہوا کرتے تھے۔۔ان کو ہم اپنی بیٹی دے دیں۔۔۔ہم شریف لوگ ہیں وہ سماج پہ دھبہ۔۔‘‘
شازیہ کا چچازاد اپنا آپہ کھو بیٹھاتو شازیہ نے جو صبر کا باندھ مشکل سے باندھ کے رکھا تھا ٹوٹ گیا تو وہ تلخ لہجے میں بولی”… کون سے شریف ہیں ہم… کیا آپ نے ایک شریف لڑکی سے شادی کر کے باہر ودیش میں چوری چھپے ایک اور عورت سے شادی نہیں کی ہے۔۔کیا میرا اپنا بھائی روز چرس پی کر گھر نہیں آتا ۔۔۔۔کیا آپ لوگوں کا روز اپنے پڑوسیوں سے جھگڑا نہیں ہوتا۔۔۔آپ کے شوروم پہ کوئی ملازم دو مہینے سے زیادہ ٹکتا کیوں نہیں۔۔۔ ملازمین سے ہمیشہ آپ جھگڑتے نہیں کیا؟۔۔۔۔
بد زبانی گالی گلوچ کیا ہم لوگوں کی عادت نہیں۔۔۔کون سے خاندانی لوگ ہیں ہم، کس خاندان کی بات کرتے ہو آپ بھائی جان۔۔۔۔یہ معاملہ پرورش کا ہے میرے بھائی۔۔۔۔میں رئیس سے شادی کر کے اپنے بچوں کو رئیس کی طرح بنانا چاہتی ہوں۔۔اپنے بھائیوں کی طرح نہیں آپ سب کی طرح نہیں۔۔۔”
آپ کی اونچی ذات آپ سب کو مبارک۔۔میں کم ذات والوں میں رہنا چاہتی ہوں آج سے مجھے بھی کم ذات والی عورت سمجھئے۔۔”
وہ کم ذات والا گھر جہاں گالی گلوچ نہیں، بدزبانی نہیں، اونچی آواز میں کسی سے بات نہیں۔۔۔”
شازیہ کی تیکھی ترچھی باتیں سن کے وہ وہاں سے
دندناتا ہوا نکل گیا۔
“السلام علیکم۔۔۔؟رئیس کمرے میں آیا اور سب سے پہلے دلہن کو سلام کی..”وعلیکم السلام”.. شازیہ نے دھیمے سے جواب دیا… اندر مسکراہٹ اور خوشیوں کے دیپ جگمگانے لگے….. اور باہر آسمان پہ چودھویں کا چاند اپنے جوبن پہ تھا۔۔۔۔اور ستارے جِلملا رہے تھے۔
���
حسینی کالونی چھتر گام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109