محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ
آج کے دور میں پردے کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اصل پردے کے مفہوم سے بہت دور جا چکا ہے۔ فٹنگ عبایا، چمکدار اور خوشنما رنگوں کے فینسی حجاب اور اسٹائلش انداز میں لپٹا ہوا دوپٹہ ،کیا پردہ کہلانے کے لائق ہے؟ موجودہ دور کی مسلمان خواتین، پردے کے نام پر جو کچھ کر رہی ہیں، وہ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ پردہ کر رہی ہیں، جبکہ اصل میں وہ اپنی ہی عزت و وقار کو مجروح کر رہی ہیں۔ آج کل جو عبایا اور حجاب بازاروں میں دستیاب ہیں، وہ حیاداری کے بجائے مزید بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ بعض عبایا ایسے باریک کپڑوں کے ہوتے ہیں کہ اندرونی لباس تک نمایاں نظر آتا ہے۔ کہیں اتنا چمکدار اور فیشن ایبل لباس ہے کہ دیکھنے والے کی توجہ پردے کی روح سے ہٹ کر لباس کی خوبصورتی پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ بعض عبایا ایسے چست اور لچکدار کپڑے کے ہوتےہیں کہ وہ جسم سے چپک کر پورے خد و خال کو نمایاں کرتے ہیں۔ کیا یہی پردے کی اصل روح ہے؟ کیا یہی وہ پردہ ہے جس کا قرآن اور حدیث میں ذکر کیا گیا ہے؟
افسوس !ہماری تعلیم یافتہ خواتین اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ وہ پردے میں ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ پردے میں بھی بے پردہ ہوتی ہیں۔ اگر ہم تاریخِ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پردہ محض جسم کو ڈھانپنے کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے جو عورت کی عفت، پاکیزگی اور عزت کی حفاظت کرتا ہے۔ آج کی لبرل سوچ میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ ’’پردہ تو صرف نظر کا ہوتا ہے‘‘۔ یعنی اگر نیت صاف ہو تو لباس کی کوئی قید نہیںجبکہ یہ سوچ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ اسلام میں پردہ صرف نظر جھکانے کا نام نہیں بلکہ مکمل لباس میں حیا اور شرم کا عنصر شامل ہونا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ عورتیں اپنی زینت کو نہ دکھائیں اور اپنی چادر سے خود کو ڈھانپ کر رکھیں (سورۃ النور، آیت 31)۔ یہ ہم سب پر لازم ہے کہ ہم پردے کو اس کی حقیقی روح کے مطابق اپنائیں نہ کہ اسے ایک فیشن کے طور پر استعمال کریں۔ پردہ وہی قابلِ قبول ہے جو نہ صرف جسم کو مکمل طور پر ڈھانپے بلکہ حیا اور وقار کا بھی مظہر ہو۔ ہمیں مغربی سوچ سے متاثر ہو کر اپنی اسلامی روایات کو پامال نہیں کرنا چاہیےبلکہ فخر کے ساتھ اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہیےکیونکہ اصل کامیابی اسی میں ہے۔
آج کل کی اکثر خواتین اپنی آزادی اور جدیدیت کے نام پر پردہ اور حیا کے تمام اصولوں کو پس پشت ڈال چکی ہیں۔ لباس کا یہ حال ہے کہ پردہ کی جگہ اب فیشن، اسٹائل اور دیگر ظاہری باتوں نے لے لی ہے۔ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہمارا پردہ ہماری پہچان ہے، ہماری عزت کا تحفظ ہے اور یہ اللہ کے حکم کے مطابق ہے۔ جب ہم قیامت کے دن اپنے اعمال کے بارے میں حساب دیں گے، تو کیا ہماری بے پردگی، فحاشی اور بے حیائی کی وجہ سے اللہ کی رضا کی جگہ عذاب ہمارا مقدر نہیںبنے گا؟ صرف عورتوں کا ہی نہیں، ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم اللہ کے احکام پر عمل کریں اور اس کی رضا کے لیے زندگی گزاریں۔ اللہ پاک ہمیں اپنے شیطان کے شر اور اپنے عذاب سے محفوظ رکھے۔اس لئے ہمیں چاہئےکہ اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور اللہ کے احکام کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔
رابطہ۔9037099731