شبیر احمد بٹ
یہاں پر پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ پرائیوٹ اسکولوں کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو پبلک اسکولوں کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ان پبلک اسکولوں میں مقامی پبلک کے منتخب شدہ افراد کی کمیٹی ہوا کرتی ہے اور باضابطہ طور پر والدین کے ساتھ اسکول کے نظم و نسق اور دیگر ضروری امورات پر صلاح مشورہ ہوتا ہے بچوں کی ایڈمیشن فیس ، ماہانہ فیس ، ٹرانسپورٹ فیس اور کتابوں یا وردی کی قیمت کوئی ایک فرد طے نہیں کرتا ہے بلکہ اسکول کی منیجنگ باڈی اس پر فیصلہ لیتی ہے اور اس منیجنگ باڈی میں وہ والدین بھی ہوتے ہیں جن کے بچے ان اداروں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں ۔غریب اور یتیم بچوں کو مفت تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے دیگر تعلیمی اخراجات پر بھی نظر ثانی کی جاتی ہے ۔ وقت کی تیزی کے ساتھ ساتھ تعلیم نے جب ایک کاروباری انڈسٹری کی شکل اختیار کی تو بڑے بڑے سرمایہ دار اس میں اپنا پیسہ لگانے لگے وہ بھی محض اس غرض سے کہ یہاں منافع کمانے کے کئی سارے وسائل ہیں ۔یعنی اب ہمارے یہاں پبلک اسکول کم اور نجی کاروباری ادارے زیادہ ہیں ۔ان نجی اداروں میں ہر چیز کا سوداہوتا ہے ۔ہر چیز کو نفع اور نقصان کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ تعلیمی ادارے کم اور فوجی چھاونیاں زیادہ دکھائی دیتی ہیں ۔ اسکول کے احاطے میں جانے کے لئے کئی ساری مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ہر ادارے میں نجی ہسپتالوں کی طرح فیس کاونٹر الگ سے بنائے گئے ہیں جہاں وصولی کرکے والدین کو چلتا کیا جاتا ہےاور ان چیزوں کو اسکول ڈیسپلن کا نام دے کر بچوں کے ذہنوں پر ڈیسپلن کا الگ سا تصور مسلط کیا جاتا ہے ۔ ان اداروں میں جو اساتذہ کام کرتے ہیں ان کی تقرری کے لئے بھی الگ الگ اور طرح طرح کے معیار اپنائے جاتے ہیں ۔ تنخواہ کی بات کریں تو عقل حیران ہوجاتی ہیں کہ کس طرح یہ اپنے مفاد کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا استحصال کرتے رہتے ہیں اور کہیں کہیں تو چار پانچ ہزار کی قلیل تنخواہ پر ان لوگوں سے بھی اپنا کام چلاتے ہیں جن کو خود ابھی ٹیوشن کی ضرورت ہے ۔ ان اداروں کے یہ مالکان تعلیمی میدان میں کم اور بزنس کے معاملات میں زیادہ تجربہ کار ہوتے ہیں اس لئے یہ اپنے اداروں میں تجارت کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں ۔یہ کتابوں ، کاپیوں اور اسٹیشنری کے ساتھ ساتھ تعلیم کے نام پر موسمی اعتبار سے تمام اقسام کے ملبوسات کی تجارت بھی کرتے ہیں ۔غرض ہر اسکول اسٹیشنری اور ریڈی میڈ گارمنٹس کا اپنا ایک الگ ہال مارک رکھتا ہے اگر اسی تیزی کے ساتھ یہ کاروبار چلتا رہے گا تو وہ دن دور نہیں جب ہر اسکول کے اندر ایک بہت بڑا مال بھی ہوا کرے گا جہاں سے کھانے پینے کی چیزیں،برتن صابن اور جھاڈو کنگھی بھی بچوں کو اپنے اپنے اسکولی نام سے خریدنی پڑے گی ۔نام بھی کتنے زبردست ہوں گے ڈی پی ایس بریانی ، ڈی پی ایس تیل، برن ہال کنگھا ، برن ہال گھی ، کانوینٹ شمپو وغیرہ وغیرہ ۔اسی طرح ان تجارتی اداروں میں پرنٹنگ کے نام پر والدین سے دس کی جگہ سو اور سو کی جگہ ہزار کا منافع لیا جاتا ہے ۔یہاں سرکار غریب اور بے روزگار الیکٹرک آٹو رکشا والوں کے پیچھے مہینوں تک پڑی رہی کہ ڈھائی روپیہ ، پانچ روپیہ کلو میٹر کے حساب سے کرایہ لیا جائے مگر ان تجارتی اداروں میں بغیر کسی ریٹ لسٹ کے ٹرانسپورٹ کے نام پر لاکھوں کا نہ صرف منافع کمایا جاتا ہے بلکہ اورلوڈنگ کرکے ، معصوم بچوں کو ذہنی اور جسمانی اذیتیں دے کر ٹریفک قوانین کی کھلے عام دھجیاں اڈائی جاتی ہیں ۔ یہ ادارے باہر سے کسی بس اسٹینڈ سے کم نظر نہیں آتے ۔ غرض تعلیم کے نام پر یہ لوگ ٹرانسپورٹ کے میدان میں بھی اب اپنی ساکھ بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ۔اب میرے کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کتابیں،وردیاں، پرنٹنگ مواد یا گاڑیاں ان اداروں کی کمزوری یا نقص ہے بلکہ بات یہ ہے کہ تعلیمی میدان میں اگر بچوں اور والدین کی سہولتوں کا خیال رکھا جائے تو اچھی بات ہے مگر بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ بچوں کو ذہنی و جسمانی نشونما بہترین طریقے پہ کی جاسکے ۔مگر یہاں یہ ادارے محض اپنی کمائی کو دوگنا کرنے کے لئے ان چیزوں کو تعلیم کے نام پر فروخت کرتے ہیں اور نتیجہ ہمارے سامنے ہیں ۔اجول رانا نامی طالب علم وقت پر فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے امتحان نہیں دے پاتا ہے اور وہ خودکشی کرلیتا ہے ۔ اسی طرح کے سینکڑوں دلدوز واقعات ہیں جو ان اداروں کے ٹھیکیداروں کی وجہ سے دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں ۔اگرچہ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق اسکولی بستہ کا وزن،نصابی کتابیں اور دیگر چیزوں کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے مگر حالات جوں کے توں ہے ۔کے ، جی کلاسز کے اسکولی بستہ کا وزن دیکھا جائے تو پندرہ سال کا بچہ بھی اٹھاتے وقت کراہتا ہے ۔ جس طرح سے ان ننھے منھے بچوں کو گاڈیوں میں لاد کر لوڈنگ اور اَن لوڈنگ کا کام کیا جاتا ہے وہ باعث عبرت بھی ہے اور باعث شرمندگی بھی ۔ پچھلے سالوں سے حکومتیں ان چیزوں کا ازالہ کرنے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے ۔کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہے ۔آفیسرس کاغذی احکامات جاری کرتے ہیں ۔مگر عملی میدان میں سب کچھ سراب ہی دکھائی دیتا ہے ۔ یہاں کا باوائے آدم ہی نرالا ہے ۔ایک طرف ان اداروں پر لگام کسنے کی باتیں ہوتی ہیں اور دوسری جانب لگام کسنے والے ہی ان اداروں میں مہمان خصوصی بن کر کاجو کشمش اور چائے بڑے چاو سے نوش فرماتے ہیں ۔تعلیم ہر بچے کا حق ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں تعلیم کے میدان میں پرائیوٹ سیکٹر بھی ریڈھ کی ہڈی کے مترادف ہے ۔مگر ہر بات اور ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ۔پوچھ گچھ اور جوابدہی لازمی ہے ۔جب کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہو جب کوئی جوابدہی ہی نہیں ہوگی تو پھر عوام کو اس استحصال اور ظلم سے کون چھٹکارا دے پائے گا ۔ان اداروں میں جب بچوں کے اخراجات اور پھر بچوں کی سہولتوں کا موازنہ کیا جاتا ہے تو چاک گریباں کرنے کو جی کرتا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ آئے روز ان تجارتی منڈیوں کو سرکار کی جانب سے ضمانتیں ملتی ہیں جس کی وجہ سے اب شہرو گام نئے نئے مرکز دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔لگام کسنے کی بات تو دور ان کے اس بغیر ریٹ لسٹ کے کاروبار کو مختلف معاملات میں سرکاری طور پر تقویت دی جاتی ہے ۔پھر سرمائی اور گرمائی چھٹیوں میں ٹرانسپورٹ فیس کا معاملہ ہو ، انیول فیس کی آڑ میں بیلڈنگ فنڈ کی صورت میں ایڈمیشن فیس کی بات ہو یا پھر دیگر گھوٹالے۔ جب تک کاغذی فائلوں سے باہر نکل کر عملی طور پر ان چیزوں پر روک نہ لگادی جائے تب تک یہ سب کچھ ہوتا رہے گا اور غریب عوام لٹتی رہے گی۔
گھوٹالے بھی کیوں نہ ہو جب علم ہو نیلام
ہر شے کی قیمت لگتی ہے تعلیم کے دوار میں
رابطہ۔ 7889894120
[email protected]