پاکستان کے قومی الیکشن کے نتائج نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیاہے کیونکہ وہاں کے عوام نے مذہبی شدت پسند پارٹیوں کو سرے سے مسترد کر دیا ۔حافظ سعید اور ایسی دیگر پارٹیوں کا ایک بھی سیٹ نہیں جیتنا یہ ثابت کرتا ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے ۱۸؍ اگست کو پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لیا کیوںکہ ان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ۲۵؍ جولائی کو ہوئے الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عمران کی سربراہی میں پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا کیونکہ اب تک جن دو پارٹیوں، پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کی ہے، ان کا پس منظر سیاسی رہا ہے اور ایسا الزام ہے کہ دونوں نے قومی خزانے کو خوب لوٹا ہے اور کرپشن کو بڑھاوا دیا ہے۔ پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے بلکہ دیوالیہ ہو چکی ہے ( آئی ایم ایف سے قرضوں کی معافی کی بات چل رہی ہے )۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ بہت کمزور ہو چکا ہے۔ ایک ڈالر میں ۱۲۰؍ پاکستانی روپے مل رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستانیوں کیلئے عمران خان امید کی ایک نئی کرن ہیں۔ عوام نے ان میں ایسا بھروسہ جتایا ہے کہ پانچوں نشستوں سے وہ کامیاب ہوئے ہیں۔اگرچہ سیاست کے میدان میں بہت پرانے نہیں ہیں لیکن ایک دم نئے بھی نہیں ہیں کیونکہ یہاں تک پہنچنے میں انہیں تقریباً۲۲؍ برس لگے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ کو نئی بلندیوں پر پہنچانے میں ان کا خاصا دخل رہا ہے اور وہ کرکٹ کے میدان کے ایک کامیاب کپتان رہے ہیں۔ اب جب کہ ملک کی کپتانی ان کے حصے میں آئی ہے تو دیکھنا ہے کہ وہ خود کو کتنا کامیاب ثابت کر پاتے ہیں۔ اس بات کے بھی اشارے ملے ہیں کہ پاکستانی فوج ان کی ہم نوا ہے ۔ بایں ہمہ پاکستان میں بحالی ٔ جمہوریت کی امید کی جا سکتی ہے۔
عمران خان آکسفورڈ کے گریجویٹ ہیں اور انگریزی داں ہیں۔ مغرب کو بہت قریب سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہودی نژاد جمائمہ خان سے شادی کے بعد برطانیہ میں ان کا شمار اشراف (elite) میں ہوکر وہ پرنس چارلس اور لیڈی ڈائنا کے حلقۂ احباب میں آگئے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے عمران دنیا بھر میں مشہور ہو گئے اور آج بھی ہیں۔ ان کی دوسری سابق بیوی ریحام خان تو یہاں تک کہتی ہیں کہ پورے پاکستان میں وہ اکلوتے سیلبریٹی ہیں اور اس لئے ان کا دماغ ’’خراب‘‘ ہونا لازم ہے۔ ریحام نے الیکشن سے پہلے عمران کے خلاف ایک کتاب لکھ کر انہیں سیاسی طور پر کمزور کرنے کی کوشش تو کی تھیں لیکن وہ کارگر ثابت نہیں ہوئیں،یعنی کہ عمران کے پلے بوائے والے امیج سے پاکستانیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی شبیہ بے داغ ہے اور وہ شروع ہی سے عوام کی خدمت کیلئے جانے جاتے ہیں۔کسی طرح کی بدعنوانی کا الزام ان پر نہیں ہے۔ یہ سب بتانے کا مقصد ان کی مدح سرائی نہیں ہے بلکہ یہ بتلانا مقصود ہے کہ مغربی ممالک اور مغربی کلچر سے ان کی خاصا شناسائی ہے۔ اس بنا پر ان ممالک سے گفت و شنید اور اچھے رشتے کی استواری میں انہیں کم پریشانی ہوگی، یہ ان کے لئے ایک پَلَس پوائنٹ ہے۔ا ن کی موجودہ یعنی تیسری بیوی اُن کے لئے لکی ہیں ۔اگرچہ وہ افغانی برقعے میں رہتی ہیں جس سے عمران کے اسلام پسند رویے کی جانب اشارہ ملتا ہے۔مذہب سے عمران خان کا کتنا تعلق ہے یا وہ کتنا مذہبی ہیں یہ دنیا پر عیاں ہے۔ حال ہی میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں انہوں نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ بس ناستک ہونے سے رہ گیا کہ یہ والدہ کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا۔ اپنے اسی مضمون میں جو ’’گلف نیوز‘‘ میں شائع ہوا ہے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے، عمران نے اپنا دل نکال کے رکھ دیا ہے اور مغرب و مشرق نیز اسلامی مادی و روحانی تصادم کی سچی تصویر کشی کی ہے اور یہ بتلایا ہے کہ مغرب مادہ پرستی کو اختیار کرتے ہوئے ترقیات کی سیڑھیاں چڑھتا گیا اور ہم مشرقی(لوگ) مذہب کے بے معنی تعبیر کے نشے میں چُور ہوتے گئے جس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ہمارا تنظیمی ڈھانچہ بے حد کمزور ہے جب کہ مغرب میں ایسا نہیں ہے۔جہاں تک پڑوسی اور جنوبی ایشیا کے ممالک سے رشتوں کی بات ہے اور اس میں بھی بالخصوص ہندوستان سے تعلقات استوار کرنے کی جو بات ہے عمران نے ہندوستان کے ساتھ تجارت پر زور دیا ہے اور یہ بیان بھی دیا ہے کہ اگر ہندوستان ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو وہ دو قدم آگے بڑھیں گے۔یہ ایک خوش آئند جذبہ ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے کشمیر کے مسئلے پر بھی توجہ دلائی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ جلد حل ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان رشتوں میں جو تلخی ہے اس کی اصل وجہ کشمیر ہے، ایسا عمران کا خیال ہے۔
دنیا بھر میں دہشت گردی کے تعلق سے جو شبیہ پاکستان کی بنی ہے اس کو دور کرنے کی پہلی سخت ضرورت ہے۔اسلئے ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ مذہبی جنونیوں پر شکنجہ کسیں گے کیونکہ پاکستان کو برباد کرنے میں انہیں کا ہاتھ رہا ہے۔ عوام نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اب سربراہِ اعظم کی ذمہ داری ہے کہ نام نہاد مذہبی پارٹیوں کو کنارے ہی نہیں بلکہ ٹھکانے لگائیں جنہوں نے مذہب اسلام کے نام پر اپنی اپنی دکانیں لگا لی ہیں اور کسی نہ کسی بہانے پاکستان اور اس کے عوام کو نقصان پہنچاتی رہتی ہیں۔ معیشت کے بعد دہشت گردی کا قلع قمع عمران کا نصب العین ہونا چاہئے ۔سوشل میڈیا ہی پر عمران کے ممکنہ کابینی وزرا کی جو تفصیلات گردش میں ہیں اگر وہ واقعتاً وقوع پذیر ہو جائیں تو اس سے پاکستان کیلئے بہتری کی صورت نکل سکتی ہے کیونکہ بیشتر وزراء پڑھے لکھے ہیں۔ویسے میں ہم ہارورڈ نہیں بلکہ ہارڈ ورک میں یقین رکھتے ہیں۔ اس ہارڈ ورک کا نتیجہ کیا نکلا ہے، اب مخفی نہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے ہارڈ ورک کر کے در اصل سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچایا ہے اور ابھی بھی پہنچا رہے ہیں۔رافیل سودے میں جس طرح کی ڈیل ہوئی ہے اور انل امبانی کو لاکھوں کروڑ روپیہ کا جو فائدہ پہنچایا گیا ہے ،اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ایک ایسی کمپنی جو خود ۴۵؍ ہزار کروڑ روپے کے قرض میں ڈوبی ہوئی ہو اور جسے دفاعی کام کاج کا کوئی تجربہ نہ ہو ویسی کمپنی کو ٹھیکہ دینا چہ معنی دارد؟ اسی طرح بڑے بھائی مکیش امبانی کی ممکنہ جیو یونیورسٹی کو ایک ہزار کروڑ روپے کاسرکاری گرانٹ کا کیا مطلب ہوتا ہے جب کہ یونیورسٹی ابھی وجود میں آنے والی ہے۔ اسی طرح کا ہارڈ ورک نوٹ بندی بھی ہے۔ نوٹ بندی سے سرمایہ داروں کو کس طرح فائدہ پہنچایا گیا، دوسری حکومت آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔عمران کے ممکنہ وزرا اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ ان میں خواتین بھی خاصا پڑھی لکھی ہیں۔ ان سب سے ان کے ارادے کا پتہ چلتا ہے کہ وہ حقیقتاً پاکستان کومصائب سے نکالنا چاہتے ہیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ پڑوسی کا خوش حال ہونا ہمارے لئے بھی اچھا ہے۔اب ہم اپنے گھر کی طرف آتے ہیں.۔۷۰؍ برسوں کے بعد پاکستان سدھرنے کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے، ایسا ہمیں فی الحال دکھائی دے رہا ہے۔ وہیں اتنے ہی سال بعد ہم تباہی کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ وہ یوں کہ پاکستان میں اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی ایک بھی مین اسٹریم سیاسی پارٹی دائیں بازو کی نہیں ہے جب کہ ہندوستان میں بی جے پی علی الا علان نہ صرف دائیں بازو کی پارٹی ہے بلکہ اپنی اِس کیفیت کو مزید شدت عطا کر رہی ہے۔پاکستان کی تینوں پارٹیاں مرکزی دھارے کی پارٹیاں ہیں اور عوام کی سائیکی بھی سیکولر ہے جب کہ یہاں سیکولر لفظ سے اب رفتہ رفتہ اجتناب برتا جانے لگا ہے۔ کہنے کو تو ہم بڑی جمہوریت ہیں لیکن اپوزیشن لیڈران کے مطابق یہاں خاموش ایمرجنسی یعنی آمریت ہے۔
عمران خان نے ایک اور اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی حلف برداری سادگی سے منائیں گے اور کسی بھی سربراہِ مملکت کواس تقریب میں نہیں بلائیں گے کیونکہ پاکستان قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ وہ چاہتے تو اپنی یومِ آزادی ۱۴؍ اگست سے پہلے حلف لے کر وزیر اعظم بن جاتے اور یومِ آزادی پراس طرح ان کی خوب تشہیر ہوتی لیکن انہوںنے ۱۴؍ اگست کی پروا نہیں کی اور اپنی حلف برداری ۱۸؍ اگست کو رکھی ۔ ہمارے یہاں تو جی ایس ٹی کے نفاذکی بھی اعلیٰ پیمانے پر تقریب منائی جاتی ہے اور رات بھر پارلیمنٹ کھلا رکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ دوسری آزادی ہے اور معمولی سے معمولی حصولیابی کو جشن کی صورت منایا جانا معمول کا حصہ بن گیا ہے۔ اِن سب میں کیا عوام کے ٹیکس کے بے تحاشہ روپے برباد نہیں ہوتے؟ یا تو ہم حقیقت سے منہ چرا رہے ہیں یا احساسِ کمتری کے شکار ہیں۔
اس لئے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خوابوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں آ جائیں۔ غرور و تکبر کا دامن چھوڑ دیں کیونکہ یہ پستی کی جانب لے جائیں گے ۔۔۔اور اس کی ضد بھی چھوڑ دیں کہ جو ہم کر رہے ہیں وہی صحیح ہے۔اس طرح کی سوچ اورفکر سے دراصل ہم ملک ہی کا نقصان کر رہے ہیں۔ویسے یہ سوال غور طلب ہے کہ کیا ہمارے اسکیم میں ملک کی فلاح ہے؟ یا صرف ہم خود کی یااپنی پارٹی کیلئے سب کچھ کر رہے ہیں ؟
……………………………..
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883