پاکستان کی نئی حکومت کو جو پچھلے کم و بیش دو مہینوں سے عمران خان کی سر کردگی میں مصروف عمل ہے شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستانی اقتصاد قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا نظر آتا ہے ۔بین الاقوامی اقتصادی اداروں سے جو قرضے لئے گئے ہیں اُنکا تخمینہ 28 بلین ڈالر کے قریب ہے۔اِن قرضوں میں اصل زر کی ادائیگی تو دور کی بات ہے حتّی قرض پر سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرضوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ آج سے دس سال پہلے تک یعنی 2008ء میں پاکستان پر صرف 6 بلیون ڈالرکا قرضہ تھا جو 2013ء میں 16بلیون ڈالر تک پہنچ گیا اور 2018ء تک یہ 28 بلین ڈالر تک پہنچا بلکہ ایسی بھی خبریں آ رہی ہیں کہ یہ قرضہ 30 بلیون ڈالرتک پہنچ چکا ہے جس کا مقایسہ2008ء کے قرضے سے کیا جائے تو یہ کم و بیش پانچ گنا بن جاتا ہے ۔جہاں 2008ء سے 2013ء تک پاکستان پیپلز پارٹی (PPP)کے آصف علی زرداری کی صدارت کے تحت دو وزرائے اعظم اقتدار میں رہے وہی 2013ء سے 2018ء تک مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف بر سر قتدار رہے۔عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (PTI) کا دعوہ ہے کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف نے بے تحاشا قرضے لے کے ملک کو ایک سنگین صورت حال سے دو چار کیا ہے ۔
سیاست میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان الزام تراشی ایک معمول ہی سہی البتہ جو حقیقت سامنے آ رہی ہے اُس کو کسی بھی لحاظ سے پرکھا جائے تو دس سال کے عرصے میں قرضے میں جو پیسہ عالمی اقتصادی اداروں سے اٹھایا گیا وہ ایک کثیر رقم ہے۔عالمی اقتصادی بازار کو دیکھا جائے تو دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جو قرضے سے عاری ہو حتّی امریکی حکومت جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی نگہباں ہے عالمی اقتصادی منڈی سے قرضے اٹھاتی رہتی ہے تاکہ ملکی کاروبار کو چلایا جا سکے لیکن اقتصادی طور پہ پیشرفتہ ممالک کی صنعتی پیداواراتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ آسانی سے لئے ہوئے قرضے اتارنے کی پوزیشن میں رہتے ہوئے اقتصادی دباؤ سے مبرا ہوتے ہیں البتہ پاکستان میں حالات کچھ اور ہیں۔ پاکستان میں ایکسپورٹ کی سطح بہت کم ہے جو ظاہر ہے صنعتی پس ماندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ایکسپورٹ کی کمی کے باعث زر مبادلہ کی بھی شدید کمی ہے جس سے ملک قرضے اتارنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ PTI لیڈرشپ کا دعوہ ہے کہ اگر قرضے لئے گئے تو اُن کا مصرف اقتصاد کے ایسے سیکٹر میں ہونا چاہیے تھا جہاں صنعتی پیداوار بڑھنے کے امکانات کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹ میں پیشرفت کے امکانات میسر رہتے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ پاکستانی اقتصاد بڑھتی ہوئی امپورٹ بل اور گھٹتی ہوئی ایکسپورٹ بل کا شکار ہے او ر ادائیگی کے توازن کو بر قرار کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے جس کو سدھارنے میں کافی وقت درکار ہو گا۔
پاکستانی اقتصاد کے ماضی کو پرکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ قرضے اٹھانے کی موجودہ روش 1980ء کے دَہے کے آواخر بلکہ 1990 کے دَہے کے اولین سالوں میں شروع ہوئی اور تب سے آج تک پاکستان نے بارہ دفعہ عالمی اقتصادی ادارے آئی ایم ایف (IMF) سے رجوع کیا ۔ آخری بار 2013ء میں امداد کا تقاضا ہوا جبکہ نواز شریف سرکار کا دور حکومت شروع ہوا ۔اُس وقت 6.6بلیون ڈالر کا تقاضا ہوا تھا ۔آج جو تخمینہ لگایا جا رہا ہے وہ پہلے گر چہ 6سے 7بلین ڈالر تک محدود تھا لیکن اب اِس میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے ۔ پاکستانی وزارت اقتصاد اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کے باہمی تخمینے میں پاکستان کو 2018-19. کے مالی سال کے دوراں 11.7بلین ڈالر کے قرضے کا سامنا ہے لہذا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ IMF پیکیج میں 12بلین ڈالر تک کا تقاضا کیا جا سکتا ہے بلکہ کچھ اقتصادی ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ رقم 15بلین ڈالر کو چھو سکتی ہے ۔
عمران خان کی سر براہی میں پاکستان میں نئی سرکار کے ابتدائی دنوں میں جب IMF سے قرضہ اٹھانے کی بات چلی تو امریکی وزیر خارجہ نے اپنے بیاں میں یہ کہا کہ امریکی ڈالروں سے چینی قرض کو ادا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ پاکستان پہ قرضے کا بوجھ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک: CPEC) کو عملی بنانے کیلئے چڑھ گیا ہے ۔ آج بھی امریکی وزارت خارجہ کے بیانات میں یہی ذکر ہو رہا ہے کہ پاکستان سی پیک کے قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے جبکہ پاکستان کا دعوہ یہ ہے IMF پیکیج چینی قرضے اتارنے کیلئے نہیں ہے بلکہ سی پیک کا اجرا ایک دراز مدت کا معاہدہ ہے جس کے تحت پاکستان میں سڑکوں اور ریل کا وسیع جال بچھانا ہے ثانیاََ سی پیک کی ترجیحات میں توانائی یعنی انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری شامل ہے۔ یہ دراز مدت کے منصوبے ہیں اور اِن قرضوں کی ادائیگی کی شروعات میں ابھی کئی سالوں کا وقفہ ہے اور اُن پہ سود کی شرح بھی سنگین نہیں۔پاکستان میں چینی سرمایہ کاری چین کی اپنی ضرورت بن چکی ہے۔سی پیک کے ذریعے چین قراقرم کی بلندیوں سے ساحل سمندر تک پہنچنا چاہتا ہے لہذا بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ میں چین نے وسیع سرمایہ کاری کی۔یہ تجارتی شاہراہ اُس منصوبے کا حصہ ہے جس کا اعلان چین نے پہلی دفعہ 2013ء میں کیا۔ یہ منصوبہ ون بیلٹ ون روڑ (One Belt One Road: OBOR) کہلایا جب کہ بعد میں اِس منصوبے کو بی آر آئے (Belt Road Initiative: BRI) کا عنواں دیا گیا۔یہ 60سے 70ممالک کو ایک ہی اقتصادی راہداری میں پرونے کا منصوبہ ہے اور یہ ممالک بیشتر یورشین(Eurasian)بیلٹ میں وقوع پذیر ہوئے ہیں یعنی یورپی و ایشیائی اور روس اِس کا ایک اہم حمایتی ہے۔سی پیک BRI کا اہم ترین جز ہے۔
چینی اقتصادی منصوبے کی جانب امریکی خدشات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ خدشات کی بنیاد یہ ہے کہ چینی منصوبہ بندی ایک نئے عالمی اقتصادی نظام کو جنم دے سکتی ہے جس سے امریکہ کا عالمی رول متاثر ہو سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پہ جو نیا عالمی اقتصادی نظام وجود میں آیا اُس کا محور امریکہ بلکہ امریکی ڈالر رہا جس سے عالمی تجارت پہ امریکی اجارہ داری قائم ہو گئی جو سلسلہ جاریہ ہے۔ چین نے عالمی تجارت کی اِس نہج سے کافی استفادہ کیا ہے اور اِسی عالمی اقتصادی نظام میں چین کے اقتصادی میدان میں پنپنے کی صورت پیدا ہو گئی اِس حد تک کہ آج چین امریکہ کے بعد دوسری عالمی اقتصادی قوت ہے۔ ماضی قریب کے چینی بیانات میں یہ ذکر بار بار ہوا ہے کہ چین ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہتا جس سے عالمی تجارت کے موجودہ توازن میں فرق آئے جس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ چین امریکہ سے تجارتی تصادم نہیں چاہتا البتہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ چین کی وسیع اقتصادی منصوبہ بندی سے نالاں و نگراں ہے ۔یہ نالانی و نگرانی چینی مصنوعات پہ زیادہ سے زیادہ ڈیوٹی لگانے پہ منتج ہوئی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ چینی مصنوعات امریکی بازار میں مہنگی بکیں گی جبکہ چینی مصنوعات کو لوگ اسلئے خریدتے تھے کہ اُنکی قیمت کم رہتی ہے۔ سستی چینی مصنوعات نے چین امریکی تجارتی توازن کو واضح طور پہ چین کے حق میں کر دیا ہے اور آج کی صورت حال میں منفی تجارتی توازن نے امریکہ کو چین کا مقروض کر دیا ہے۔ چینی اور امریکی اقتصادی رسہ کشی کا شکار پاکستان ہو رہا ہے کیونکہ چین کی وسیع ترین خارجی سرمایہ کاری پاکستان میں ہو رہی ہے جو کہ کم و بیش 62بلین ڈالر تک پہنچی ہے اور اُسکے مزید بڑھنے کا امکاں ہے۔
امریکہ نہ صرف سیاسی و سفارتی میداں میں بلکہ اقتصادی میداں میں پاکستان کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ دباؤ کو اُس حد تک نہیں بڑھانا چاہتا جہاں پاکستان کو اپنے سفارتی ساکھ بنائے رکھنے کیلئے کاملاََ چین و روس کا مرہون منت رہنا پڑے ۔امریکہ پاکستان کی نسبت ایک ایسی پالیسی پہ عمل پیرا ہے جہاں منفی بیاں بازی و اقدامات کے بیچوں بیچ سفارتی رابطے بنائے رکھنے اور کچھ مثبت اقدامات کو رو بعمل لانے کی روش جاری ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو کے اِس بیان کے بعد کہ IMF پیکیج سے چینی قرضے اتارنے کے کوشش پہ امریکہ کی نظر رہے گی، وہ پاکستان کے دورے پہ گئے جہاں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے اُن کی ملاقاتیں ہوئیں۔اِس کے بعد شاہ محمود قریشی کا امریکی دورہ پیش آیا جہاں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کیلئے گئے تھے۔نیو یارک سے شاہ محمود قریشی واشنگٹن بھی گئے اور وہاں مائیک پامپیو اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن سے ملے ۔اِن سفارتی نشستوں کے بعد امریکی بیانات میں یہ واضح ہونے لگا کہ امریکہ IMFپیکیج کی مخالفت نہیں کرے گا البتہ وزارت خارجہ کے بیانات میںیہ اصرار چلتا رہا کہ پاکستان کی اقتصاد ی مشکلات چینی قرضے کا شاخسانہ ہے جبکہ پاکستان اِس نظریے کی نفی کر رہا ہے۔
IMFپیکیج پاکستان سمیت کسی بھی ملک کو دینا یا نہ دینا خالص امریکہ کا فیصلہ نہیں ہو سکتا کیونکہ امریکہ کے علاوہ بھی IMFسے قرضہ لینے کیلئے کئی دوسرے ممالک کو بھی ووٹ دینے کا حق ہے ۔اتفاقاََ ووٹ کی حقداری کے ضمن میں امریکہ اور جاپان کے بعد چین کا نمبر آتا ہے اور چین کاملاََ اِس بات کے حق میں ہے کہ مشکل اقتصادی صورت حال سے نکلنے کیلئے پاکستان IMFپیکیج سے استفادہ کرے۔چند دن پہلے چینی اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے یہ خبر چینی وزارت خارجہ کے حوالے سے چھاپ دی۔ ’گلوبل ٹائمز‘ کو عالمی مطبوعات میں چینی کمیونسٹ پارٹی کا مطبوعاتی ترجمان مانا جاتا ہے۔ چین بلا شرکت غیرے اُن ملکوں کی اقتصاد پہ چھاجانا نہیں چاہتا جہاں چین وسیع سرمایہ کاری کر رہا ہے چونکہ چین پہ یہ الزام ہے کہ وہ کئی ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسا کر اپنے سیاسی و سفارتی مفاد کیلئے تجارتی منڈیاں قائم کر رہا ہے۔دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اقتصادی طور پہ پسماندہ ممالک کے پاس چینی قرضے واپس کرنے کیلئے پیسے نہیں لہذا چین قرضہ جات کے عوض ایسی مراعات کا خواستگار ہے جس سے اُسکی اقتصادی،سفارتی اور سیاسی چھاپ قائم ہو جائے۔چین کو ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کا نام دیا جا رہا ہے جوچند صدیاں پہلے تجارتی منڈیاں قائم کر کے ہندوستان پہ مسلط ہوئی جبکہ چین اقتصادی شراکت داری کو تسلط ماننے سے منکر ہے ۔دنیا البتہ ایک اقتصادی رسہ کشی میں مبتلا ہوچکی ہے جس سے کچھ نئی عالمی حقیقتیں منظر عام پہ آنے کا امکاں ہے۔
عمران خان کی کابینہ میں پہلے یہ تصور اُبھرا کہ IMF کے بجائے دوست ممالک سے رجوع کیا جائے جن میں چین کے علاوہ سعودی عربیہ اور متحدہ عرب امارات شامل رہے لیکن جتنی رقم پاکستان کو مشکل اقتصادی صورت حال سے نبٹنے کیلئے در کار ہے وہ میسر نہیں ہو سکی حالانکہ چین اور سعودی عربیہ نے ایک حد تک ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ سعودی عربیہ نے عمران خان کے دوسرے دورے کے بعد پاکستان کو 12بلین ڈالر کی پیکیج دی جس میں 3بلین ڈالر پاکستان کے خاطے میں رکھے جائیں گے تاکہ ادائیگی کے توازن کو بر قرار رکھنے میں کام آ سکیں ثانیاََ اگلے تین سال میں ہر سال 3بلیون ڈالر کا تیل تاخیری ادائیگی سے فراہم رہے گا۔اِس سے اقتصاد پہ بوجھ کاملاََ نہیں تو قابل قدر حد تک کم ہونے کی توقع ہے۔خام تیل کی قیمتیں تقریباََ دوگنی ہو گئیں ہیں ۔جہاں ایک بیرل کی 47ڈالر تھی وہی یہ قیمت 80ڈالر ہو گئی ہے اور انرجی بل یعنی توانائی کے حصول کیلئے ادائیگی امپورٹ میں سب سے بڑا خرچہ ہے۔ 28اکتوبر کو عمران خان ملائشیا جا رہے ہیں جہاں اُنکا تقاضہ پاکستان میں سرمایہ کاری پہ رہے گااور اور نومبر کے پہلے ہفتے میں وہ چین جا رہے ہیں جہاں مالی اعانت کی توقع ہو گی۔
پاکستانی وزیر اقتصاد اسد عمر کےIMF سے رابطے کے بعد بھی وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیاں منظر عام پہ آیا کہ شاید IMF پیکیج کی ضرورت نہ پڑے لیکن پھر بھی IMF سے رجوع نا گزیر لگتا ہے چونکہ پاکستان کو زر مبادلہ کی شدید ضرورت ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ IMF پیکیج کی آخری درخواست ہو گی بہ معنی دیگر پاکستانی اقتصاد کو اپنی راہ خود ہموار کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ کہنے میں یہ جتنا آساں ہے کرنے میں اُتنا ہی مشکل ہے ۔پاکستان کو اقتصادی بد حالی سے نکالنے کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ سرمایہ کاری کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی راہ ہموار کی جائے اور امپورٹ و ایکسپورٹ میں موجودہ تفاوت کو کم سے کم کیا جائے۔اگلے چند برس عمران خان کی لیڈرشپ کیلئے ایک ایسا امتحاں ہو گا جس میں وہ ملک کا نجات دہندہ بھی بن سکتے ہیں اور ایک ایسے رہبر بھی جس نے کوشش تو کی لیکن مشکل حالات کے سامنے ٹھہر نہ سکے!
! Feedback on: [email protected]