اسلام آباد //اسٹیٹ بینک کے اس فیصلے کے پاکستانی معیشت پر تو اثرات یقیناً پڑیں گے۔ ملکی تاجروں و صنعت کاروں نے فوری طور پر اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے شرح سود میں اضافے کو صنعتی ترقی میں رکاوٹ سے تعبیر کیا ہے۔سرمایہ کاری بورڈ کے سابق چیئرمین اور ممتاز صنعت کار زبیر موتی والا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا،’’شرح سود میں اضافہ صنعتی شعبے کے لیے بلاشبہ مشکل ترین فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف سرمایہ کاری متاثر ہوگی، بلکہ وہ صنعت کار جو ملک میں امن و امان قائم ہونے کے بعد نئی صنعتیں لگانے کے بارے میں سوچ رہے تھے، وہ اب اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔‘‘انہوں نے مزید کہا،’’سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں شرح سود کم تھی تو اس وقت سرمایہ کاری آرہی تھی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 8 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، لیکن اب پالیسی ریٹ بڑھنے کے بعد سرمایہ کاری میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ حکومت ایک طرف تو لاکھوں ملازمتیں دینے کی بات کرتی ہے لیکن دوسری جانب پیداواری لاگت میں اضافہ کردیتی ہے۔ ایسی صورتحال میں پیداوار اور روزگار کے مواقع کیسے بڑھ سکتے ہیں۔‘‘ماہرین کے مطابق تین سال قبل 23 مئی 2016 کو پالیسی ریٹ پانچ اعشاریہ سات پانچ فیصد کی کم ترین سطح پر تھی، جس میں اب مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری ہے، موجودہ حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس وقت بھی 16 جولائی 2018 کو پالیسی ریٹ صرف چھ فیصد تھا، یعنی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے شرح سود کو نہ صرف دہرے ہندسے میں پہنچا دیا، بلکہ دگنا اضافہ بھی کردیا۔اقتصادی تجزیہ کار عمران سلطان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’پالیسی ریٹ بڑھنے سے نجی شعبے کے لیے قرضوں کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے، یعنی کاروباری افراد کو مہنگے ریٹ پر قرضہ ملتا ہے۔ اس سے ایک طرف تو وہ صنعتوں میں توسیع بند کردیتے ہیں اور دوسری طرف اپنا بوجھ صنعتی پیداوار پر منتقل کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور نتیجہ مہنگائی کی صورت میں عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا،’’پالیسی ریٹ بڑھنے سے یقینا مہنگائی میں اضافہ ہوگا، عام ؤدمی جو پہلے ہی پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ہر چیز پر اضافی پیسے دے رہا ہے، اس کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی، کیونکہ اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، لیکن اس کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا۔’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہر دو ماہ بعد پالیسی میں ردوبدل کرتا ہے۔ اس سے قبل مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے، جس میں ملک کے معاشی حالات بالخصوص مہنگائی میں اضافے کی شرح اور نجی شعبے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔