پاکستان نے الیکشن 2018 بالآخر منعقد ہو گئے۔دینی جماعتوں کے بشمول ہارنے والی دیگرسیاسی جماعتیں اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے الزام تراشیاں کرتی ہیں۔تاہم ان الزام تراشیوں کی کوئی اہمیت نہیں۔اس وقت اہم ترین موضوع الیکشن 2018میں دینی جماعتوں کی شرکت اور عوام کی جانب سے ان جماعتوں کو ملنے والا ٹرن آئوٹ ہے۔ مملکت خدادادخالصتاًایک ایسامسلمان ملک ہے جس کی97؍فیصد آبادی مسلمان ہے ۔ اس کے آئین کے مطابق ملک کا کوئی قانون اساسی اسلام کے منافی نہیں ہو سکتا۔ اس ناطے مملکت خداادادمیں حکومت سازی کے لئے ووٹ جوکہ ایک جدید اصطلاح ہے، کی حیثیت اور اس کی اہمیت پرصاحب تفسیرمعارف القرآن مفتی محمدشفیع صاحب نے اسے’’ شہادتِ حق‘‘ قراردے کرمعارف القرآن کے جلدنمبر3صفحہ نمبر70/71میں مفیدبحث کی ہے۔ ہماراآج کایہ موضوع جمہوریت کے جوازیاعدم جوازپرہرگزنہیں بلکہ صرف اورصرف یہ پتہ لگانامطلوب ومقصودہے کہ انتخابی سیاست میںمملکت خدادادا کی دینی جماعتیںروبہ زوال زوال کیوںہیں۔
پاکستانی سیاست دینی جماعتوں کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے۔ پاک معاشرے میں علما ء اپنا گہرا اثرورسوخ رکھتے ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کے حامی اور وفادار کارکن ورضاکار موجود ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود بہت اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں دینی جماعتیںسیاست کے میدان میںپسپا کیوں ہورہی ہیںاور دینی جماعتوں کے امیدوں کے آبگینے کیوں ٹوٹ جاتے ہیں ؟ کیوں ان کے پلیٹ فارم سے امیدوارالیکشن جیت نہیں سکتا ؟کیوں پاکستان کے عوام الناس ایک عالم ِ دین کو ووٹ نہیں ڈالتے ؟ آخران کی اس انتخابی ناکامی کے علل واسباب کیا ہیں؟مملکت خدادادا کی سیاست میںدینی جماعتیںروبہ زوال زوال کیوں؟ہم دیکھ رہے ہیںکہ پاکستانی عوام کی غالب اکثریت نے ان جماعتوں کو کل کی طرح آج بھی انتخابی سیاست میںمسترد کر دیا۔اس عدم اعتماد کی کیا وجوہات ہیں؟ہم کوشش کریں گے کہ مملکت خدادادکی دینی جماعتوں کے سیاسی مدوجزر اورعوامی سطح پران کے اُمیدواروں کے مستردکئے جانے کی وجوہات کا اجمالی جائزہ لیں۔
پاکستان کی دوبڑی دینی جماتیںجماعت اسلامی اورجمعیت علماء اسلام روزاول سے ہی میدان سیاست میں موجود ہیں ۔ا س کے باوجودیہ کتنابڑاالمیہ ہے کہ جماعت اسلامی نے حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی میں کوئی ایک نشست بھی حاصل نہیںکی، جب کہ جمعیت علمائے اسلام بھی اپنی منشاء اور فعالیت کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں حاصل نہیں کر سکی ۔ گو اپنی بساط کے مطابق یہ دونوں جماعتیں باقی دینی جماعتوں سے بہتر پوزیشن میں ہیں اورمملکت خدادادکے طول وعرض میں ان کے کارکنان اور وابستگان موجودہیںلیکن اس کے باوجود اس بار قومی سیاست میں وہ ایسا کردار ادا کرنے سے قاصرر ہیں جو ان کا مطمح نظر تھا۔ بے شک پاکستان میںجماعت اسلامی کبھی بھی ایک مقبول جماعت نہ رہی لیکن بہر حال سیاسی منظرنامے میں یہ ایک سنجیدہ سیاسی حقیقت مانی جاتی تھی۔سید مودودی کا زمانہ تھا تو فکر کی دنیا میں جماعت اسلامی کا ڈنکا بج رہا تھا۔قاضی حسین احمد کا دور آیا تو عدم مقبولیت کے باوجود قومی سیاست میں جماعت اسلامی کو سنجیدگی سے لیا جاتا تھا۔سید مودودی کی اپنی علمی وجاہت تھی اور قاضی صاحب کی اپنی شخصی جاذبیت تھی، سید منور حسن بھی تھے تو کم سے کم ان کی گفتگو سے علمی ذوق کا پتہ تو ملتا تھا ۔
حیرت اس بات پرہے کہ سید مودودی کی جماعت اسلامی کو کہاں لا کھڑاکیاگیا ہے؟سید مودودی جیسی عظیم شخصیت کی جماعت اور ایسا فکری افلاس؟؟؟اب جماعت اسلامی میںفکری افلاس کا عالم ایسا ہے کہ اسے دیکھ کر کچھ اچنبھا ہوتا ہے۔موجودہ امیر سراج الحق کی قیادت میں جماعت اسلامی نے گذشتہ پانچ سال عمران خان کے ساتھ مل کر حکومت کی، مدت کار کے آخر ی دوماہ رباقی تھے کہ اس میں سے کیڑے نکالنے شروع کر دیئے۔ایسے رویے کو ہمارے ہاںکم سے کم الفاظ میں موقع پرستی کہا جاتا ہے ۔یہ معمولی بات نہیں بلکہ ایک غیر معمولی سانحہ ہے۔ کیا جماعت اسلامی میں اتناقحط الرجال ہے کہ اس کی شوریٰ میں چند ایسے نجیب لوگ بھی باقی نہیں بچے ہیں جن کی صلاحیت اورقابلیت موجودہ قیادت کو اہ بھٹکنے سے روک سکے۔کیااس کی شوریٰ میں سب کی قوت گویائی سلب ہوچکی ہے کہ وہ اپنی قیادت سے پوچھتی کہ زوال کے اس سفر کی کوئی آخری منزل بھی ہے؟ یا قافلہ انقلاب نے راہِ حق کے لیے اسی طرح استقامت سے غیر فقاریہ پالیسیوں کا بوجھ اٹھائے چلتے چلے جانا ہے؟ تفنن طبع اورلطائف کے لئے موجودہ امیر کی سادگی،درویشی اور غربت کی کہانیاں اپنی جگہ درست لیکن کیاسیدمودودی کے چھوڑے ہوئے منصب پرفائزہونے کے حوالے سے وہ علمی صلاحیتوں اورقابلیتوںسے لیس متاثر کن شخصیت ہیں۔فکری اُلجھنیں موجودہ امیرجماعت کے دامن گیر کیوںہیں؟آج جماعت اسلامی پاکستان کی بے سروسامانی کا یہ عالم ہے کہ نہ اس کی کوئی پالیسی ہے نہ کوئی بیانیہ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی اسے غیر سنجیدگی سے نہیںلیتا۔جماعت پر اس سے برا وقت اور کیا ہو سکتا ہے؟پورے ملک میں ایک حلقہ اب ایسا نہیں رہا جہاں سے کہا جا سکے کہ جماعت اسلامی کی جیت یقینی ہے۔جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنی عوامی سیاست کے تابوت میں آخری کیل2013کے الیکشن میں صوبہ خیبرپختونخوا میں چند وزارتوں کی خاطر پی ٹی آئی سے اتحاد کرکے خود ہی ٹھونک دی۔ خیبرپختونخواہ میں اقتدارکی لذت آفرینی کی خاطر جماعت اسلامی کی قیادت نے جن مصلحتوں سے کام لیا، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔اس گٹھ جوڑ کے باعث جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کا دُم چھلا تصور کیا جانے لگا۔ اس کی تازہ مثال پانامہ کیس ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ سپریم کورٹ میں پہلے سراج الحق گئے لیکن ساراکریڈٹ سارا عمران خان لے گئے۔یہ بھی کتنابڑاالمیہ ہے کہ ایک طرف جہاںجماعت اسلامی پانامہ کیس کے حوالے سے نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی، لیکن وہیں دوسری طرف پاکستان کے زیرانتظام کشمیرمیں وہ نون لیگ کے ساتھ باضابطہ شریک اقتدارہے؟
اسی طرح جمعیت علماء اسلام کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے ۔مولانا شبیر احمد عثمانی نے پاکستان کے معرض وجودمیںلانے میں قائداعظم کامکمل ساتھ نبھایااور پاکستان کے تمام علما ء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی جدوجہد کی اور جمعیت علما ء اسلام کی داغ بیل ڈالی ، جس کے امیراول سرخیل عالم دین مولانا احمد علی لاہوری منتخب ہوئے ۔ مرورزمانہ کے ساتھ ساتھ آج اس کی امارت مولانا فضل الرحمن صاحب کے سپردہے جن کی سیاست عملیت پسندی کا شاہ کار تو کہی جا سکتی ہے لیکن ان پر کسی اصول پسندی کی تہمت دھرنا بہت مشکل ہے۔وہ نواز شریف اور زرداری کی حکومتوں میں کشمیرکمیٹی لے اُڑے جس کے سالانہ کروڑوں بجٹ ہے لیکن کشمیرکازکے لئے ان سے ٹکے کے برابر کام نہ ہوسکا۔پہلے زرداری اورپھرنوازشریف کی حکومت میں وہ باضابطہ حصہ داررہے ہیں۔دونوں کے دور حکومت میں کشمیرکمیٹی کے وہ چیئرمین رہے جو ایک مرکزی وزیرکے برابرکامنصب ہوتاہے ۔ نوازشریف کی حکومت میں وہ اس حدتک شریک اقتداررہے ہیں کہ خودوہ کشمیرکمیٹی کے سربراہ رہے ،ان کے نائب غفورحیدری سنیٹ کے نائب چیئرمین جب کہ ان کے دست راست اکرم درانی نوازشریف حکومت کے وزیرپلاننگ رہے ۔اب کی باراگرنوازشریف کی نون لیگ یازرداری کی پیپلزپارٹی الیکشن جیت جاتی تومولاناکواسی طرف کروٹ بدلناتھی، لیکن اب کی بار عمران خان برسراقتدارآئے ہیں۔چونکہ مولانا عمران خان کی مخالفت میں زمین ،آسمان کے قلابے ملاچکے ہیں اوراسے یہودی ایجنٹ قراردے چکے ہیں، اس لئے مراعات اورمفادات کے حصول کے حوالے سے انہیں ایک بڑی اُفتادکاسامناہوگا کیونکہ ان کے دروازے مولاناپرمقفل پڑے ہیں۔
پاکستان کی دینی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی سیاست کا مرکز کمزور ہے جس کے باعث انہیں لبرل سیاسی جماعتیں استعمال کر لیتی ہیں۔ یہ بھی ایک دو عہدے ،وزارتیں یاکشمیرکمیٹی کی چیئرمینی تن برضا ہوکرقبول کرلیتے ہیں۔دوسری سبب دینی جماعتوں کاجماعتی تعصب، مسلکی بالادستی، مخصوص فکرونظر کا ترجمان بن جاناہے ۔یہ ان جماعتوں کی تاریخ رہی ہے کہ ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کے لئے وہ کبھی اپناسینہ الم نشرح نہیں کرسکیں۔ کبھی بھی یہ نہیں دیکھا گیاکہ جماعت اسلامی کاسالانہ اجتماع ہواوراس میں جمعیت علمائے اسلام یاجمعیت اہل حدیث کے قائدین و اراکین قطاراندرقطارشریک ہوں،عین اسی طرح جب جمعیت علماء اسلام یاجمعیت اہل حدیث کاسالانہ کنونشن ہوتواس میں جماعت اسلامی کے ارکین صفاصف شامل ہوں۔پاکستان کی دینی تنظیموں کی تاریخ یہی بتلاتی ہے کہ ملکی انتخابات سے قبل وہ ایک متحدہ طاقت کی بجائے متصادم الفکراورمتضادالرائے گروہوں میں منقسم ہوتی ہیں جس کے باعث ان کی ہوا عین موقع پراُکھڑ جاتی ہے۔الیکشن کے دوران کندھے سے کندھاملاکرعوام کے سامنے ان کانمودارہوناکوئی معنی نہیں رکھتا۔جب اپنے ذاتی اورمخصوص جماعتی مفادات قربان کرنے کی طاقت نہ ہوتوصورت حال یہی ہوتی ہے جس کاانہیں سامنا کر ناپڑتاہے۔ملکی انتخابات سے قبل یہ دینی جماعتیں اگرخلوص نیت ،ملی جذبے، مثبت اورتعمیری سوچ لے کر اپنے ذاتی اورتنظیمی مفادات پس پشت ڈال کر صرف اورصرف ملی مفادات کی خاطرآگے بڑھ جاتیں تو کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا، ان کے چاہنے والے کروڑوں میں ہوتے مگر ان کے ذاتی اورجماعتی مفادات انہیں خلوص دل کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہونے دیتے ۔ اے کاش! روزاول سے پاکستان کی دینی جماعتیں جماعتی تعصب، مسلکی بالادستی، اپنے مخصوص فکرونظر کو ایک طرف رکھ کرمملکت خدادادکوایک فلاحی ریاست بنانے پرملی سطح پر مبنی سیاست کرتیں تویقینا آج انہیں میدان سیاست میں ناکامی کامنہ دیکھنانہ پڑتا۔یہ تاریخ کا کڑوا سچ ہے کہ جہاں اجتماعیت کی ضرورت ہواورجہاں شیرازہ بندی درکار ہو، پاکستان دینی جماعتیںوہاں منقسم قوت بن کر راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔
مملکت خدادادکے میدان سیاست میںدینی جماعتوں کی ناکامی کا ایک بڑاسبب یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک یہ جماعتیں وہ ذہن تیار نہیں کرسکیں جو یہ فہم و ادراک کر سکیںکہ دین و سیاست جدا جدا نہیں ہیں اور نہ ہی اہل مذہب عصری سیاست کو ایک پاکیزہ سیاست میں ڈھالنے کا شعور عوامی لیول پر اُجاگر کرسکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ دینی جماعتوں کی قیادت کا وہ انوکھاطرز عمل ہے جو روایتی سیاست دانوں سے ملتا جلتا ہے اور ان کی سیاست بھی مروجہ سیاست ہی کی طرز پر ہے۔ عوام کو یہ شکوہ ہے کہ عام سیاست دان جو سیاست کے تقدس اور اس کی اہمیت نہیں پہچانتے، ان سے صرف نظر کریں، لیکن اگر دینی جماعتیں بھی منافقت اور جھوٹ کی سیاست کریں تو یہ بہت بڑا جرم اور عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ دینی جماعتوں کے قائدین ایک طرف انقلاب کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب جب انہیں کبھی ایک دوسیٹیں مل بھی جاتی ہیں تووہ روایتی سیاسی جماعتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے وزارتوں کے مزے لوٹتے ہیں ۔عوام ان کے قول و فعل میں تضاد دیکھتے ہیں توفطری طورپر ان کے دل میں ان جماعتوںسے نفرت اور بیزاری جنم لیتی ہے۔
عمومی طورپرمملکت خدادادکی دینی جماعتوں کے مدارس منقسم ہیں، امتحانات منعقدکرانے کے ان کے بورڈ جداجدا ہیں،ان کی مساجد تقسیم ہیں، ان کے لباس ایک ودسرے سے میل نہیں کھاتے ہیں ،ان کے جبہ ودستار تک تقسیم ہیں،ان کی ٹوپیاں تقسیم ہیں،ان کی رسومات تقسیم ہیں اور ان کے نعرے تقسیم ہیں،ان جماعتوں کا متفرق تصور دین بھی اوران کے اندرکی ٹوٹ پھوٹ، یہ سب ان کی ناکامی کے اہم اسباب ہیں ۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ تنظیمی تعصب،مسلکی بالادستی اورمخصوص فکرونظرکی بنیادوں پر سیاست کرنے والے مملکت کے سواداعظم کوایک ہونے کادرس دے کراسلام یااسلامی نظام قائم کرنے کے لئے ووٹ مانگیںاورعوام ان کو دل و جان سے قبول کرلیں؟مملکت خداداد کے عوام سمجھتے ہیں کہ اگر باہم دست وگریبان یہ جماعتیں کامیاب ہو جائیں تو یہ ملک کے عوام کو تقسیم درتقسیم کر دیں گی اور قوم کے بدن پارہ پارہ کو مزید ریزہ ریزہ کرنے کے رکھ دیںگی۔ جب آپ کی صف میںموجودرہنے کے لئے کسی دوسری تنظیمی فلسفے کے پیروکارکی کوئی گنجائش ہی نہیں حتیٰ کہ آپ کی مسجدمیں بھی اس کے لئے مشترکہ جگہ نہیں ،جب ایک خاص فکر یا مسلک سے تعلق رکھنے والی جماعت کا مخاطب یقینی طور پر اپنا ہی ہم جماعتی ،اپناہی مخصوص فکروفلسفہ اوراپناہی تفہیم دین ہوتو وحدت اُمت کی گنجائش کہاں رہتی ہے ؟یہ طے ہے کہ جب دینی جماعتیں جماعتی تعصب ،مسلکی بالادستی اورمخصوص فکرونظر کی بنیاد پر قائم کی گئی ہوں تو اس بات کا امکان کہاں باقی رہتا ہے کہ وہ اپنی صفوں میں کسی ایسے فرد کو برداشت کرسکیں جو ان سے فروعی معاملات وترجیحات میں مختلف الرائے ہو؟ یہی وجہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ بنک گھٹتا ہے اور سیکولر جماعتوں کے بڑھتے ہوئے ووٹوں کا باعث بنتا ہے۔کاش افکار میں واضح فرق کے باوجودایک ہوکریہ جماعتیں سیاسی نظریات اور اہداف میں ہم آہنگ ہوتیں توبھی بات بن جاتی !
ایک قیامت ہے کہ ہر روز گزر جاتی ہے
تو نے دیکھا نہیں نقشہ میری تنہائی کا
سوال یہ اٹھتاہے کہ فرض کریںکہ یہ جماعتیں برسر اقتدار آ بھی گئیں تویہ مملکت کوکس قعرمذلت میں دھکیل دیں گی؟ یقینی طورپرا س خیال سے بھی عوام الناس کو ان جماعتوں کی جانب سے کرسی ٔ اقتدار سنبھالنے سے ڈرلگ رہاہے ۔ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ عوامی اکثریت اس پراعتمادکرے ؟جب تک نہ مملکت خدادادکی دینی جماعتیںغیر مسلکی بنیاد وں اور من وتُوسے دامن چھڑاکر پر لوگوں کو دعوت نہ دیں اور انہیں اور کھلے دل و دماغ سے اپنے جماعتی نیٹ ورک میں شامل نہ کریں، تب کوئی بات بنے گی وگرنہ عوام بڑے حساس ہیں۔
مملکت خدادادکی دینی جماعتوں کی ناکامی کا ایک سبب ان کا تنظیمی نیٹ ورک بھی ہے، جس کے اندر صاحبان صلاحیت ،اصابت الرائے رکھنے والے قابل ذکر اور صاحب فکر لوگ نظر نہیں آتے۔حالانکہ ان کی صفوں میں ایسے کارکنان کی بھر مار ہے، جن کے اندر ہرمیدان میں فائزالمرام ہونے کی بھرپورصلاحیت،وسعت نظری اور اعلی ظرفی موجودہے۔ جب قائدتنظیم کاچہیتابے شک وہ بے صلاحیت ہی ہو، اس کانائب اورجنرل سیکریٹری یاقیم ہوتوپھرصورت حال غیرواضح نہیں ہوتی ۔جب یہ جماعتیں اپنے تنظیمی سلسلوں میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کی متحمل نہیں تو ملک میں کسی بڑی تبدیل کی نوید کیسے بن سکتی ہیں؟ صرف 22؍برس کی سیاسی ریاضت کے باعث آج اگر عمران خان پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر اُبھرے اور ان کے تبدیلی کے نعرے کو عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی تو کیا دینی جماعتیں یہ سمجھ سکتی ہیں کہ یہی لوگ چالیس ،پچاس برسوں سے دینی جماعتوں کے نعروں اور وعدوں پر کیوں نہیں نکلے؟
ماضی میں پاکستان کی دینی جماعتوں کا ’’ ملی یکجہتی کونسل ‘‘ایک مشترکہ الائنس بنا تھا لیکن بوجہ انانیت اوربہ سبب عدم اخلاص یہ فورم فعال نہ ہوسکا۔اس کے بعد ’’متحدہ مجلس عمل ‘‘کے نام پردوسرا، الائنس بنالیکن 2013ء کے الیکشن میں یہ بھی قائم نہ رہ سکا۔اس زوال پذیری سے دینی جماعتیںعوامی مقبولیت حاصل کرنے سے قاصر دِکھ رہیں۔2013کے الیکشن میںکل 272سیٹوںمیں سے، 10سیٹیں جمعیت علما ء اسلام فضل الرحمن کو ملی تھیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ جے یو آئی کے تمام ووٹرز دیوبندی مکتب فکر کے لوگ تھے، کسی جماعت اسلامی ،کسی اہل حدیث نے انہیں ووٹ نہیں دیالیکن عجیب صورت حال یہ ہے کہ اس دفعہ جولائی 2018 الیکشن میں متحدہ مجلس عمل میں شامل درجن بھردینی جماعتوں کایکاہونے کے باوجود اس نے کل 272؍سیٹوںمیں سے 13؍سیٹیںحاصل کرلیں ،ان میں صرف دوصاحبان جماعت اسلامی پس منظررکھتے ہیں ، باقی گیارہ جمعیت علماء اسلام کاپس منظررکھتے ہیں۔میری رائے کے مطابق دینی جماعتوں کااتحادمتحدہ مجلس عمل تضادات کا مجموعہ ہے جو صرف ذاتی و گروہی مفادات کی خاطر بنائی گئی اورسیٹیں جیت کرانہیں مفادات اورمراعات کی خاطر نوازشریف یازرداری سے بارگینگ کرناتھی ا،س کے سواکچھ اور نظرنہیں آ تارہا۔
ملامت می کندخلقے ومن بردارمی رقصم