کراچی// پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن کے قریب گولہ باری سے نو افراد ہلاک اور کم از کم 42 زخمی ہو گئے ہیں جس کے بعد چمن سرحد کو بند کر دیا گیا ہے۔سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعے کی صبح سرحد پار سے گولہ باری کے بعد شروع ہونے والی دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔دوسری جانب اس واقعے کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے افغان ناظم الامور کو طلب کیا اور شدید احتجاج ریکارڈ کروایا۔پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق افغان ناظم الامور کو بتایا گیا ہے کہ ’افغانستان کی جانب سے چمن کے علاقے میں بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں متعدد افراد مارے گئے جبکہ کئی زخمی بھی ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔‘بیان کے مطابق ’افغان حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے اس سلسلے کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔‘اس سے قبل چمن کے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اختر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ہسپتال میں لاشیں لائی گئیں ہیں۔پاکستانی فوجی کے شبعہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ افغان سرحدی فورس نے چمن سرحد کے قریب ایک گاو¿ں میں مردم شماری کی سکیورٹی پر تعینات ایف سی کے اہلکاروں پر فائرنگ کی۔شبعہ تعلقات عامہ کے مطابق افغان حکام کو سرحد پر منقسم دیہات کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری کے بارے میں پیشگی طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا تاہم افغان سرحدی فورس 30 اپریل سے مردم شماری کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔کلی لقمان اور کلی جہانگیر منقسم دیہات ہیں جو کہ سرحد کے دونوں جانب واقع ہیں۔پاکستان میں دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ طاہر مسعود نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی علاقوں میں مردم شماری جیسا عمل شروع کرنے سے پہلے چار مختلف سطحوں پر رابطے کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مقامی سطح ر یقیناً رابط کیا گیا ہو گا اور انھیں اس بارے میں عمل ہو گا۔انھوں نے کہا کہ فائرنگ کرنا تو انتہائی قدم ہے اور ایسا اقدام کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔میجر جنرل ریٹائرڈ طاہر مسعود نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کے بارے میں بات کرتے ہوئِے کہا کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان کے نکتہ نگاہ سے بین الاقوامی سرحد ہے اور اس کے پار افغانستان کی کوئی عملداری نہیں جس افغانستان کو سمجھنا چاہیے۔چمن میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ گولے افغانستان کی جانب سے فائر کیے گئے۔