شبنم بنت رشید
زیادہ نہیں صرف دو سال پہلے کی بات ہے جب مجھے اپنے ایک خاص دوست عمران کے سسرال شادی کی ایک دعوت پر جانا تھا۔ اسلئے اُس دن میں کام پر نہیں گیا، صبح سویرے نہا دھو کر نئے کرتے کا سیٹ اور اس کے ساتھ میچنگ واسکٹ اور چپل پہن لی، پھر اپنی امی سے اجازت لیکر روانہ ہوا۔ عمران کا سسرال ایسے شہر نما تاریخی قصبے میں تھا جہاں بازار کے اندر کافی پرانی دکانیں بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ اسکے علاوہ اس پر رونق بازار میں دکانوں کے ساتھ ساتھ کہیں ٹھیلے تو کہیں ریڑھیاں بھی نظر آتی تھیں۔ اسلئے ہر موسم میں لوگوں کا کافی رش رہتا تھا، انتہائی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو ایک دوسرے کی تانک جھانک کرنے کی نہ فکر ہوتی تھی اور نہ فرصت۔ بڑی مدت کے بعد میں نے اس قصبے میں قدم رکھا تھا، اسلئے یہاں سب کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔
دعوت سے لطف اندوز ہو کر عصرسے پہلے جونہی میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تو سجے سجائے گیٹ کے پاس میں نے فردوس کو دیکھا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر بری طرح چونکی۔ اسے دیکھ کر میں شاک میں چلا گیا، لیکن میں نے خود کو سنبھالا اور اس کے نزدیک جا کراس کے مد مقابل کھڑا ہوا، وہ بھی ٹھہر گئی۔ فردوس ت..ت…تم؟ تم…تم یہاں کیسے؟ میں بوکھلا سا گیا تو میں نے ایک ساتھ اس سے کئی سوال پوچھ لئے۔ تم کبھی میرے گھر آنا سب کچھ بتاؤں گی۔ میرا گھر یہاں پاس میں ہی ہے، یہ جواب دیکر پھر وہ تیز قدم اٹھاتی ہوئی عورتوں کے سائبان میں چلی گئی۔ میں کچھ دیر وہیں حیران و پریشان کھڑا رہا۔ مجھے گھر جانے کی جلدی تھی اس لیے فردوس سے بات کیے بغیر ہی وہاں سے چلا گیا۔ مگر فردوس کے بارے میں جاننے کا تجسس میرے ذہن پر بری طرح سوار ہوا۔
مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب میری امی کی طبیعت خراب چل رہی تھی، کچھ دن پہلے اسے دمے کا اٹیک ہوا تھا، وہ مجھے اکثر نہایت ہی عمدہ اور دلچسپ قصے اور کہانیاں سنایا کرتی تھی لیکن نہ جانے ایک دن کیوں باتوں ہی باتوں میں ایک ایسی بات بتائی جس سے تو میری جان ہی اٹک گئی۔ امی نے بتایا کہ وہ دن قیامت سے کم نہ تھا، جب میرا جنم ہوا تو اسی وقت میری ماں بھری جوانی میں اس دنیا کو چھوڑ کر چلی گئی۔ میرے ابو کافی مال دار ہونے کے ساتھ ساتھ جوان بھی تھے، اسلئے انہوں نے کچھ ہی عرصے میں دوسری شادی ایک کنواری لڑکی سے رچائی، لیکن وہ لڑکی سوتیلی اولاد کے وجود کو اپنانے سے انکار کرتی رہی تو میرا ننھا وجود ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ مگر امی نے مجھے گود لیکر سب کی پریشانی کو دور کردیا۔ آج کے دن مجھے معلوم ہوا کہ میری امی دراصل میری ممانی ہیں انکے منہ سے یہ بات سن کر مجھے بہت کچھ سمجھ آیا کہ امی کے مائیکے والوں اور اسکے بچوں کا رویہ میرے ساتھ اچھا کیوں نہیں ہے۔ کیوں وہ روز روز امی سے میری شکایتیں لگاتے رہتے ہیں۔ شاید انہی شکایتوں سے تنگ آکر امی نے ایک روز مجھے گاؤ خانے کے اوپر بنے کمرے میں رہنے کے لئے کہہ دیا۔ مجھے میری حد سمجھ میں آگئی، اسلئے گاؤ خانے کے اوپر بنے کمرے میں منتقل ہو گیا۔ پہلی رات بہت رویا، اب تو کسی خواہش کا اظہار کرنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔ اسلئے کچھ دنوں کے بعد ہی پڑھائی چھوڑ کر محنت کی کمائی کی راہ پر نکل پڑا۔
امی پہلے دن سے ہی اپنے بچوں سے نظریں چرا چرا کر میرے پاس آنے لگی، میرے ہر کام کے علاؤہ کھانا پکا کے رکھتی تھیں۔ اس کے پیار اور رویئے میں مجھے کبھی کوئی فرق نظر ہی نہ آیا۔ اس دن انکی طبیعت خراب چل رہی تھی تو اس لئے میں صبح صرف پانی کا ایک گلاس پی کر کام پر روانہ ہوا۔ ابھی گھر سے کچھ ہی دور سڑک کے بیچوں و بیچ نہ جانے کن خیالوں میں گم سُم ہوکر چل رہا تھا تو سامنے موڈ سے ایک بڑی سی گاڑی نکل آئی۔ مجھے بچاتے بچاتے وہ گاڑی سڑک کے ایک طرف پڑے بڑے سے ایک پتھر سے جا ٹکرائی۔ میں دوڑ کے گیا اور گاڑی میں سوار افراد کو گاڑی میں سے نکلنے میں مدد کی، شکر اللّٰہ کا کہ گاڑی میں سوار سارے افراد بال بال بچ گئے اور گاڑی کو بھی زیادہ نقصان نہ پہنچا۔ کوئی صاحب اپنی پوری فیملی کے ساتھ اس گاڑی میں سوار تھے۔ میں کافی شرمندہ ہوا تو میں نے ان صاحب سے معافی مانگ لی کہ میری وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔ انہوں نے کہا نہیں بیٹا تم کیوں معافی مانگ رہے ہو تم تو راہگیر ہو، تمہارا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ حادثہ ہماری قسمت میں لکھا تھا، بھلا قسمت کے لکھے ہوئے کو کون مٹا سکتا ہے؟ ہمیں تو اپنے رب کا شکر کرنا چاہیے کہ ہمارے ساتھ ساتھ تم بھی صحیح سلامت ہو۔ اس کے بعد انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑی بے تکلفی سے اپنا نام بتائے بغیر اپنی فیملی کے ساتھ یوں میرا تعارف کرایا، بیٹا یہ میری زوجہ زاہدہ بیگم ہے اور یہ میرا بیٹا سلیمان اور یہ میری لاڈلی بیٹی زاہدہ فردوس ہے۔ دراصل بیٹا میں بڑی دور سے اپنی فیملی کو اپنی پسندیدہ جگہ پہلی بار گھمانے لایا ہوں اور ہاں بیٹا تم نے تو اپنا نام بھی نہیں بتایا۔ انہوں نے مجھ سے صرف اور صرف میرا نام پوچھا۔ جی…میرا نام سرخاب ہے، میں نے مختصر سا جواب دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ انکی بیٹی فردوس شرمیلی، دھیمی مگر معنی خیز مسکراہٹ ہونٹوں پہ لیے میری طرف بار بار دیکھ کر جیسے آنکھوں سے کوئی بات کہہ رہی ہو جس وجہ سے میں شرمسار ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑا گبھرا بھی گیا۔ اسلئے میں نے اُن سے جانے کی اجازت مانگ لی، مگر انہوں نے گاڑی اسٹارٹ کرکے اُلٹا مجھے اس میں سوار ہونے کی دعوت دی ۔ میں نے کئی بہانے بنائے مگر وہ صاحب نہ مانے۔ کافی اسرار کے بعد میں انکے ساتھ انکی گاڑی میں سوار ہو گیا۔ پھر انہوں نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے روک کر کہا، بیٹا اگر تم ہمارے ساتھ چائے ناشتہ کروگے تو ہمیں اچھا لگے گا۔ بیرا چائے ناشتہ رکھ کے چلا گیا، مگر چائے پیتے پیتے بھی فردوس کی نگاہیں مسلسل میرا تعاقب کر رہی تھیں۔ اب وقت بھی کافی گزر چکا تھا اور اب میں نے اُن سے اجازت لی اور کام کے بجائے واپس اپنے گھر چلا گیا۔ میں اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا تو وقت بھی اپنی رفتار بھاگتا رہا، اسلئے کچھ ہی دنوں میں میں یہ واقع بھول گیا اور آج اتنی مدت کے بعد فردوس کو عمران کے سسرال میں دیکھ کر تذبذب کا شکار ہونا ایک فطری عمل تھا۔
میں کوئی نجومی نہ تھا اور نہ ہی فردوس کو زیادہ جانتا تھا مگر اسکا لہجہ اور چہرے کا حزن نہ جانے کونسی ایسی کہانی بیان کر رہا تھا جسکو جاننے اور سننے کے لئے اس سے ایک بار ملنا میرے لیے نہایت ضروری بن گیا۔ رہ رہ کر میرا دھیان صرف اسی کی طرف جا رہا تھا۔ اسی لیے آج میں عمران کو ساتھ لیکر ایک بار پھر اسکے سسرال چلا گیا۔
فردوس کا خدوخال بتاکر عمران کی ساس نے بتایا کہ بیٹا ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اسکا نام فردوس ہے، شاید وہ پچھلے ایک سال سے ہماری ہمسائیگی میں ایک نہایت ہی پرانے مکان میں کرایہ پر رہ رہی ہے۔ وہ ہمیشہ اندر سے گیٹ بند کر کے رہتی ہے۔ اسکا نہ کسی سے ملنا جلنا ہے اور نہ ہی وہ کسی سے بات کرتی ہے۔ وہ کافی گھمنڈی بھی ہے۔ نہ جانے ہماری دعوت کو کیسے قبول کیا تھا مگر پھر یہاں آکر بغیر کچھ کھائے پیئے ہی واپس چلی گئی۔
عمران کی ساس سے فردوس کے مکان کا پتہ، نمبر وغیرہ لیکر میں اسکے گھر کے گیٹ کے پاس پہنچا۔ بہت دیر تک کھٹکھٹانے کے بعد اس نے گیٹ کھولا وہ ایک طرف ہٹ گئ اور مجھے اندر آنے کا راستہ دیا۔ میں گیٹ سے صحن کے اندر داخل ہوا تو دیکھا ہر طرف سناٹے اور منہوسیت کا راج ہے۔ گھر باہر سے ہی بد روحوں کا ٹھکانہ لگ رہا تھا۔ میں نے فردوس سے کہا کہ کیا مجھے پانی کا ایک گلاس مل سکتا ہے؟ کیوں نہیں؟ وہ پانی کا گلاس لے آئی۔ پانی کا گلاس اسکے ہاتھ سے لیتے ہوئے برآمدے میں ہی رکھی ہوئی ایک زنگ آلودہ کرسی پر بیٹھتے ہوے میں نے اس سے کہا میں معزرت خواہ ہوں کہ میں بغیر کسی وجہ کے تمہارے یہاں چلے آیا۔ تمہیں ناگوار تو نہیں گزرا؟ فردوس نے اپنی نظریں جھکاتے ہوے کہا، نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
پانی کا پہلا گھونٹ پیتے ہوئے میں سوچنے لگا کہ اب بات کو کیسے شروع کروں؟ میرے لیے بات کا آغاز کرنا بڑا مشکل ہو رہا تھا۔ شاید فردوس میری خاموشی اور پانی پینے کے انداز کو سمجھ گئ تو وہ خود بول پڑی۔۔۔۔ اس حادثے کو یاد کرتے ہوے کہا، میں نے آج تک سرخاب جیسا شریف و شرمیلا لڑکا کہیں نہیں دیکھا۔۔۔۔ یہ میں نہیں میرے ابو اس حادثے کے بعد اکثر کہا کرتے تھے جبکہ میری امی اس بات کی تائید کرتی تھی تو میرا دل اندر ہی اندر چھلنی ہو جاتا تھا۔ تمہاری شکل آنکھوں کے سامنے آتے ہی میری آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔ تنہائی میں بیٹھ کر اکثر تمہیں یاد کرکے آنسوں بہاتی تھی۔ کیونکہ میں تمہیں پہلی نظر میں ہی دیکھ کر دل ہار بیٹھی تھی۔ تمہارا نام سنتے ہی، تمہارے نام سے پیار ہوگیا تھا۔ پھر فردوس اپنی جگہ سے اٹھی اور اندر چلی گئی۔ کچھ دیر بعد اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے پھر میرے سامنے بیٹھ گئی اور ایک بار پھر خود ہی بول پڑی۔ میں چاہتی تھی کہ امی ابو صرف تمہارے بارے میں دن بھر بات کرتے رہیں اور میں انکے سامنے بیٹھ کر سنتی رہوں۔
اصل میں انسان اس عمر میں نادان بچے کی طرح ہوتا ہے۔ خود غرض ہوکر صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ دل دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور پھر دل سے ہی فیصلہ کرتا ہے، جن کا نتیجہ اکثر ڈراونا ہی نکلتا ہے۔ یہی غلطی مجھ سے بھی سرزد ہوئی، جسکی سزا آج تک بھگت رہی ہوں۔ فردوس مسلسل بولتے بولتے اچانک چپ ہو گئی۔ میں اسکی الجھی ہوئی باتوں کا مطلب ہی نہیں سمجھ سکا، اسلئے میں نے اس سے وضاحت چاہی۔ اُس نے ایک سرد اور گہری سانس لی پھر ایک ایسی کہانی سنائی جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔
شاید کچی عمر کی وجہ سے میں اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکی، اور تمہیں یاد کرتے ہوے اپنے دل کی بات ایک دن امی کو بتائی کہ کس طرح تمہیں لیکر میرے اندر بیچینی بڑھ رہی ہے۔ شاید میں سرخاب کے بغیر جی نہ پاؤں گی۔ میری بات سنتے ہی امی آگ بگولہ ہوگئ، میری بات انہیں زہر کی طرح لگی۔ انہوں نے چلا کے کہا، جی کر رہا ہے کہ تمہیں ابھی زمین کے اندر زندہ گاڑھ دوں تاکہ دوباره تمہارا منہ دیکھنے کو نہ ملے۔ پھر انہوں نے میرے اوپر سخت پہرے بٹھائے، جس وجہ سے آہستہ آہستہ میری پڑھائی بھی چھوٹ گئی۔ وہ مجھ سے کھانا پکانے سے لیکر گھر کا ہر چھوٹا بڑا کام کروانے لگی۔ ابو اور بھائی کو بتانے کی دھمکی دے دے کر میرا جینا حرام کردیا۔ کبھی خالہ تو کبھی باقی ننہالیوں کے سامنے ذلیل کرتی رہی۔ میں کافی تنگ آگئ اور پھر کافی سوچنے کے بعد ایک روز اتفاق سے جب گھر پر کوئی موجود نہ تھا موقع غنیمت جان کر میں نے گھر سے کچھ پیسے اور اپنے کچھ کپڑے بیگ میں بھر لئے اور گھر سے نکل گئی۔ شاید کچی عمر ہونے کی وجہ سے امی سے چھٹکارا پانے اور تم سے ملنے، تمہیں کھوجنے کے مسئلے کا حل صرف اور صرف گھر سے فرار ہونے میں ہی نظر آیا۔ مجھے نہ باہر کے ماحول کی خبر تھی اور نہ ہی راستوں، گلی محلوں کا علم تھا کیونکہ ابو کے پاس میرے جنم سے پہلے سے گاڑی موجود تھی۔ ڈرتے ڈرتے لوکل گاڑی میں سوار ہوئی، تمہارے بارے میں صرف اتنا جانتی تھی کہ تمہارا نام سرخاب ہے اور تم اس حسین وادی کے مشہور علاقے کے باشندے ہو۔ گاڑی کے آخری سٹاپ پر اتری اور دوسری گاڑی میں سوار ہوئی تو میں ہواؤں میں جھوم رہی تھی کہ اب منزل بہت قریب ہے اور اب تم سے ملوں گی اور ڈھیر ساری باتیں کرونگی۔ اسلئے خوشی خوشی دوسری گاڑی کے آخری سٹاپ پر اتری مگر کافی دیر ہوچکی تھی۔ بنا سوچے سمجھے اپنا بیگ کندھے پر لٹکا کے تیز قدم اٹھاتی ہوئ کافی آگے نکل گئی، نہ راستے کا پتہ تھا اور نہ ہی منزل کی خبر مگر تمہارا خیال دل میں آتے ہی دل کو مضبوط کر لیا۔
شاید یہاں کے حالات کچھ زیادہ ہی خراب تھے اسلئے سڑکوں سے انسانوں کے ساتھ ساتھ گاڑیاں بھی غائب تھیں۔ مگر تمہارا خیال ایک حوصلہ دے رہا تھا۔ چلتے چلتے تھک گئی اور سوچا کچھ دیر آرام کر لوں اسلئے اپنا بیگ نیچے رکھا۔ اس میں سے ایک سویٹر نکال کر پہن لی اور پھر بیگ پر ہی بیٹھ گئ۔ شدت کی بھوک اور پیاس ستا رہی تھی۔ نیند کا غلبہ بھی ہورہا تھا۔ اسکے ساتھ ہی میری آنکھ لگنے لگی۔ کسی نے میرے سر کو زور زور سے ہلایا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک انجان ادھیڑ عمر کا آدمی ٹارچ ہاتھ میں لیے میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں ڈر گئ۔ میں ایک دم کھڑی ہوئی اور پیچھے ہٹ گئی۔ اس آدمی نے کہا ڈرو مت۔ صرف مجھے یہ بتاو کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئی ہو؟ یہاں اس سنسان سڑک پر کس کا انتظار کر رہی ہو؟ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تو وہ خود ہی کہنے لگا یا تو تم کسی کے ساتھ بھاگ جانے کے غرض سے گھر سے نکلی ہو یا تمہیں کسی نے اپنی زندگی سے نکال کر پھینک دیا ہوگا۔ خیر جو بھی ہے تم اس وقت میری گاڑی میں بیٹھ جاو۔ میں اپنے گھر جا رہا ہوں۔ وہاں میری بیوی بھی ہے۔ تم رات بھر آرام کرو صبح ہم بات کریں گے۔ میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا۔ ویسے بھی میرے لیے ہر راستہ اور چہرہ انجان ہی تھا۔ رات گزارنے کے لئے کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا۔ اسلئے نا چاہتے ہوئے بھی میں اس شخص کی گاڑی میں سوار ہوئی۔ بیٹھتے ہی اس نے کہا عورت ذات ہو رات کا اندھیرا ہے، تمہیں خبر بھی ہے کہ یہاں آدمی آدمی کو کاٹ کر کھاتا ہے۔ کسی کو کان و کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ میں یہ نہیں جانتی تھی کہ آیا یہ آدمی واقعی میں اچھا اور نیک انسان ہے یا پھر صرف باتوں کا دھنی۔ خیر آدھے گھنٹے میں اس کے گھر پہنچے۔ اس کی بیوی ہم دونوں کو دیکھ کر چونک گئی۔ پھر اس نے تیز لہجے میں اس آدمی سے کہا آج کس کو اٹھا کر میرے گھر لاے ہو؟ اس آدمی نے جلدی سے الگ لے جا کر آہستہ آہستہ میرے بارے میں نہ جانے کیا بتایا کہ وہ جھٹ سے اٹھی اور اس نے مجھے گرما گرم کھانا کھلایا پھر میرے لیے نرم ملائم بستر بچھایا۔ پھر دوسرے دن میری کہانی سن کر یقین دلایا کہ جتنی جلدی ہوسکے ہم تمہیں سرخاب سے ملائیں گے۔ میرے پاس یقین کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔
کافی ٹائم گذرنے کے بعد مجھے شک سا ہونے لگا کہ وہ عورت اسکی بیوی ہے ہی نہیں بلکہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ میں ان دونوں سے اکثر پوچھتی رہتی تھی کہ کیا واقعی مجھے سرخاب ملے گا؟ تو وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر خاموش ہوجاتے تھے۔ جب میں انکی خاموشی کو کریدنے لگی تو اس شخص نے بتایا کہ ہم نے آس پاس کے پورے علاقے کو چھان مارا مگر یہاں دور دور تک سرخاب نام کا کوئی بندہ رہتا ہی نہیں ہے اور نا ہی اس نام کے کسی بندے کو کوئی جانتا ہے۔ تم اس طرح ہمارے گھر میں کتنے دن اور رہ سکتی ہو؟ میرا مطلب ہے کہ تم سرخاب کو ایک بُرا خواب سمجھ کر بھول جاو۔ ہم نے تمہیں پناہ دی، کھلایا پلایا، حفاظت سے بھی رکھا تم سمجھ گئی ہوگی کہ ہم سے بڑھ کر تمہارا کوئی ہمدرد ہوسکتا ہے کیا؟ اسلئے ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ عبدل غنی ایک اچھا آدمی ہے۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ وہ ایک اچھا انسان بھی ہے۔ وہ بہت بڑا ٹھیکیدار ہے۔ تم دونوں کی جوڑی خوب جمے گی۔ وہ عمر میں تم سے بڑا ہے مگر ہے پیسے والا آدمی۔ وہ تمہیں خوش رکھے گا۔ اس نے اپنے لہجے میں قند گھول کر مجھ سے کہا۔ میں حیران ہوگئ۔ غصہ بھی بہت آیا۔ سوچا کہ دونوں کی گردن دبوچ لوں مگر میں بڑی مجبور اور بے بس تھی۔ اسلئے اپنے غصے پر قابو پا کر میں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر اُن سے کہا کہ مہربانی کرکے مجھے واپس گھر جانے دیں۔ ورنہ میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی کیوں کہ کہیں نہ کہیں اب مجھے اپنی احمقانہ حرکت پر پچھتاوا ہورہا تھا۔ میری بات سنتے ہی اس شخص نے میری دونوں کلائیاں پکڑ لیں۔ پیچھے سے اسکی ساجھی نے میرے بال پکڑ کر کہا تم کس منہ سے واپس گھر جاو گی؟ بیٹی تو گھر اور خاندان کے وقار اور عزت کی ضامن ہوتی ہے۔ ماں باپ کے دلوں میں بیٹی کو لے کر ہزاروں خواب ہوتے ہیں۔ اگر یہی بیٹی کسی غلط قدم کے نیچے اپنے خاندان کی عزت کو روند دیتی ہے تو وہ اپنی بات اور اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ وہ بیٹی اپنے اوپر خود ہی اپنی عزت، خوشیوں اور گھر کے سارے دروازے بند کرلیتی ہے۔ انمول ہو کر بے مول ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی گھر سے بھاگ جانے کے بعد واپس بھی جاے تو اسے جیتے جی مار دیا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم زندہ رہو۔ میں نے بھی سخت احتجاج کیا مگر اس شخص کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے ایک کلہاڑی دکھا کر مجھ سے کہا اگر تم نے چیخا چلایا یا بھاگ جانے کی کوشش کی تو میں اس سے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چیل کوؤں کو کھلاؤں گا۔ ویسے بھی یہاں تمہارا کوئی پرسان ہے بھی نہیں۔ اس کا یہ روپ دیکھ کے میں کافی کمزور پڑ گئ۔ سوچا اگر واقعی یہ انتقامی کاروائی پر اتر آیا تو میں بے موت ماری جاوں گی۔اس ڈر سے میں نے حالات سے سمجھوتا کر ہی لیا۔ دو تین دنوں کے بعد صرف دو تین لوگوں کی موجودگی میں میرا نکاح عبدل غنی سے پڑھوا کر وہ اپنے گھر کا سامان سمیٹ کر لاپتہ ہوگئے۔ عبدل غنی نے پہلے دس پندرہ دن کسی انجان جگہ پر رکھا۔ وہاں آس پاس کے لوگ تانک جھانک کرنے لگے تو پھر وہ مجھے یہاں لے آیا۔ اس کے ساتھ رہتے ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا۔ مگر میں یہ نہیں جانتی ہوں کہ وہ کون ہے، کیا ہے، یہ گھر اسکا ہے یا نہیں؟ مگر اتنا جانتی ہوں کہ اُس نے ایک بڑی رقم دے کر مجھے خریدا ہے۔ اس کا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا سب کچھ باہر ہوتا ہے۔ باہر موجیں اُڑاکر ایک ہوٹل کے کمرے کی طرح رات کے ایک دو بجے تک گھر آتا ہے۔ اسکی آنکھوں میں میں نے آج تک صرف ہوس کی شدت دیکھی ہے اور کچھ بھی نہیں مگر اس کے باوجود اس کی ایک خوبی یہ ہے کی اس کی طرف سے میرے اپر کوئی بندش نہیں۔ کبھی باہر سے دروازہ بند کرکے نہیں جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فردوس نے اپنی باتوں کا رخ بدل کر کہا میں یہ بھی نہیں جانتی کہ میرے بعد میرے گھر کا کیا حال ہوا ہوگا۔ انہیں کس رسوائی سے گزرنا پڑا ہوگا۔ یہ سوچ کر میرا دم گھٹتا جارہا ہے۔ مگر اب میں کسی کا مان توڑنا نہیں چاہتی۔ دل کے اندر ڈھیر سارے دکھ ہیں۔ ان دکھوں میں سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ میری عمر کچی تھی اور میرے دل کے اندر نادانی کی آگ تھی مگر ماں کی عمر تو پکی ہوتی ہے نا۔ ماں کے اندر عقل اور سمجھ بھی ہوتی ہے۔ جب ماں کی دعاؤں میں طاقت ہے تو اس کے کہنے میں اثر کیوں نہیں ہوگا؟ کیا ماں اپنے لہجے اور رویئے سے اپنے نادان بچے کی غلط سوچوں کا رخ بدل نہیں سکتی؟ کبھی دوست بن کر، کبھی ایک سہیلی بن کر تو کبھی ماں بن کر۔ کہتے کہتے فردوس تھوڑی سی جزباتی ہوگئ۔ ایک بوجھ تھا دل پر تمہیں بتا کر تھوڑا سا ہلکا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی فردوس کی گہری آنکھیں لال ہوگئیں اور پورے بدن میں کپکپاہٹ شروع ہوگئی۔ پھر وہ اپنے گھر کے اندر چلی گئی اور اندر سے دروازہ بند کر دیا۔
���
پہلگام اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419038028