کم و بیش ماہ بھر چلنے والا ۵؍ریاستوں کا اسمبلی الیکشن اختتام کو پہنچا۔ کل یعنی۱۱؍دسمبر کو نتائج آجائیں گے لیکن اس سے قبل جو قیاس آرائیاں ہورہی ہیںوہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔بیشترٹی وی چینل اورپرنٹ میڈیادونوں ہی صورتوں میں نریندر مودی اور بی جے پی ہی کو مضبوط بتا رہے ہیں جس سے گمان ہوتا ہے کہ وہاں (چینلوں پر)مودی کی مقبولیت ابھی بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔دونوں ہی صورتوں سے مراد یہ ہے کہ اگر کانگریس ہار جاتی ہے توکوئی بات ہی نہیں۔پھر تو پانچوں انگلیاں گھی میںہیںاور ۲۰۱۹ء کا عام چناؤ جیتنے سے مودی جی کو کوئی روک نہیں سکتا لیکن دوسری صورت میںاگر کانگریس کا پلڑا بھاری رہتا ہے تو بھی ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ میں مودی کے مقابل راہل گاندھی ٹھہر نہیں سکتے اور اسی لئے ایک سلوگن ایجاد کیا گیا کہ ’’نریندر مودی سے بیر نہیں وسندھرا تیری خیر نہیں ‘‘۔اگرچہ یہ سلوگن راجستھان کیلئے استعمال کیا گیا لیکن اس کا مقصد پورے ملک کو یہ پیغام دینا تھا کہ مودی سے کوئی ’’مسئلہ‘‘ نہیں ہے اور ہم یعنی عوام اگر چاہتے بھی ہیں توصرف ریاستوں میں تبدیلی چاہتے ہیںیعنی حکومت مخالف ہوا ہے تو وہ ریاست میں ہے نہ کہ پورے ملک میں۔اس طرح مودی جی نا قابل تسخیرہیں اور راہل جاگتے کا خواب دیکھ رہے ہیں! مگر ان ٹی وی والوں کو کون سمجھائے کہ حالات کافی بدل چکے ہیں اور یہ وہ زمانہ نہیں ہے جو ۲۰۱۳ء کادور تھا اور مودی جی نے بکاؤ میڈیا کا سہارا لے کر اپنی پی آرشپ بنائی اورٹی آر پی بڑھائی۔ان کا بنایا ہوا قلعہ اب چند دن کامہمان ہے۔ کیامودی جادو ٹوٹنے کا آغاز راجستھان سے ہوگا؟قرائن یہی بتاتے ہیں کہ بی جے پی کی ہار وہاں طے ہے اور وہ بھی ووٹوں کے ایک بڑے فرق کے ساتھ۔مودی، شاہ اور یوگی کی ریلیاں بی جے پی کو نہیں بچاسکیں گی۔اگرچہ یہاں سب سے اخیر میں ووٹ پڑااور آخری اقدام کے بطور ’’اگسٹا‘‘ کو بھی لایا گیالیکن لگتا ہے کہ کوئی نسخہ کام نہ آیا اور ایگزٹ پول پہلے سے بھی زیادہ کانگریس کی بھاری اکثریت کا قیاس کر رہے ہیں۔عوام کا بھاجپا مخالف غم و غصہ اس قدر شدید ہے کہ بی جے پی کا وہاں پتہ کٹ کر رہے گا۔راجستھان ہی میں یک جگہ مارواڑ ہے جہاں کے باسیوں کو مارواڑی کہا جا تا ہے۔ان کا پیشہ تجارت ہے اور یہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔عام بول چال میں اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ مارواڑی ا ور گجراتی دونوں بزنس کے کھلاڑی۔دونوں ہی بی جے پی کے کٹر حامی ہیں۔ گجراتیوں نے تو گجرات کے اسمبلی الیکشن میں راہل کو اپنا لیا تھا جو کہ کم تعجب کی بات نہیں۔دراصل کانگریس کی بازیابی کی شروعات وہیں سے ہوئی تھی اور راجستھان میں بھی مارواڑی ہی اس کا آغاز کریں گے کیونکہ تاجر طبقے کو بزنس چاہئے اور وہ سمجھ گئے ہیں کہ بھاجپاکے دورِ اقتدار میں بزنس ملنے سے رہا ۔وہ جانتے ہیں کہ کسی دھارمک بالا دستی سے پیٹ بھرنے والا نہیں ہے،اس لئے انہوں نے فیصلہ کن رول نبھاتے ہوئے ملک کو دکھا دیں گے کہ ملکی ترقی صرف کانگریس ہی لا سکتی ہے۔بی جے پی کی ترقی محض چھلاوا ہے۔
دوسری ریاست تلنگا نہ ہے جہاں چناؤ ہوئے۔کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی مدت سے ۶؍ماہ قبل ہی جب اسمبلی تحلیل کی تھی تو انہیں لگا تھا کہ وہ شہرت اور مقبولیت کی اونچی پائیدان پر ہیں لیکن اُنہیں کیا پتہ تھاکہ ٹی ڈی پی سربراہ چندر ا بابو نائیڈوکانگریس کے ساتھ مل جائیں گے اور ایک مہا گھٹ بندھن تشکیل دیں گے جو اُن کی نیندیں اُڑا لے جائے گا۔کے سی آر کی جیت کی سب قیاس آرائی کر رہے ہیں لیکن یہ جیت اتنی آسان بھی نہیں ہے اور آخری لمحے میں کچھ الگ بھی ہو سکتا ہے۔بہر کیف یہاں کانگریس کو اپنی کھوئی ہوئی حیثیت پانے کیلئے کچھ ایسے کام کرنے ہوں گے جو اس دفعہ نہ سہی آئندہ کیلئے مفید ثابت ہوں ۔
اگرچہ جگموہن ریڈی اب کانگریس کیلئے ایک خواب کی مانند ہیں لیکن کچھ سیاسی فیصلوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔متحدہ آندھرا پردیش میں کانگریس کی جو دُرگت ہوئی وہ جگموہن ریڈی کو نظر انداز کرنے سے ہوئی۔والد وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی حادثاتی موت کے بعدوہ اپنی ریاست کی وزیراعلیٰ شپ ہی تو مانگ رہے تھے نہ کہ کانگریس کی دلی سلطنت۔کانگریس نے اُن کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا ،انجام یہ ہوا کہ ریاست کے دو حصے ہونے کے بعد ایک طرف تلنگانہ میں سی آر اُبھر کر آئے اور دوسری طرف آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو۔کانگریس اور جگموہن دونوں کو کچھ نہیں ملا۔البتہ جگموہن،آندھرا میںٹی ڈی پی کے نائیڈو کے بعد دوسری اہمیت کے حامل شخص ہیں۔نائیڈو نے اپنے یہاں سے کانگریس کا پتہ تقریباً صاف کر دیا ہے اور اسے ’’ڈی‘‘پوزیشن پر پہنچا دیا ہے۔نائیڈو اور جگموہن سے بچنے کے بعد بھاجپا کا نمبر آتا ہے۔کانگریس کو سوچنا چاہئے کہ جہاں جہاں سے وہ اُکھاڑ ی گئی ، دوبارہ اپنا قدم جما نہیں سکی ۔اس کی مثال یوپی،بہار ، ادیسہ اور بنگال ہے اور ان تمام جگہوں میں مقامی پارٹیوں کا عمل دخل ہے ، ان سے بچتاہے تو بی جے پی۔اس لئے تلنگانہ میں اسے سچن پائلٹ اور سندھیا جیسے لیڈروں کو پیدا کرنا ہوگا اور آندھرا کوتو اب خواب ہی سمجھے۔
مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہوئے الیکشن میں کانگریس کی جیت کے آثار قوی ہیں ۔ یہی دو ریاستیں کانگریس کو بلندی پر پہنچائیں گی کیونکہ ان دونوں جگہوں پر بی جے پی ۱۵؍برسوں سے حکومت کر رہی ہے۔ان ریاستوں کو بھاجپا سے اقتدار چھیننے کا مطلب صاف ہے کہ نہ چوہان کی ہوا چل رہی تھی اور نہ رمن سنگھ کی بلکہ مودی کی ہوابھی نکل گئی، کیونکہ چھتیس گڑھ کے انتخابی پوسٹروں میں مودی جی غائب تھے اورصرف رمن سنگھ کی تصویرکو پیش کیا گیا تھا۔اس سے کیا پیغام جاتا ہے؟یہی نا کہ مودی جی کی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے لوگوں اور کاروباریوں کا حا ل برا ہو گیا ہے اور ان کی شکل دیکھنے کا بھی ووٹر روادار نہیں۔۔۔اور ہارنے کے بعد بھاجپا کی طرف سے یہ کہا جائے کہ ریاستی انتخابات مودی کیلئے ریفرنڈم نہیں ،تو عجیب سالگے گا ۔یہ دونوں ریاستیں ہندی بیلٹ میں ہیں جنہیں’ ’کاؤ بیلٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے،یہاں کانگریس کی جیت سے ملک بھر میں ایک واضح پیغام جائے گا اور ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ کیلئے ایک نئے کانگریس کا جنم ہوگا جو مودی سے ’’وَن ٹووَن‘‘ٹکر لے گی۔
اپوزیشن کی صفوں میں کانگریس صدر راہل گاندھی کے لئے مزید جاذبیت پیدا ہوگی اور کانگریس اس پوزیشن میں آجائے گی کہ وہ اپنی باتیں ضرورت پڑنے پر منوا بھی سکے۔۲۰۱۹ء کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یوپی کا ہے۔بہن جی سے معروف مایاوتی کانگریس کو برائے نام سیٹیں دینا چاہیں گی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ خود لے سکیں۔ایسا کرتے وقت وہ یہ بھول جائیں گی یا بھلا دینا چاہیں گی کہ انہیں گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں صفر سیٹیں ملی تھیں ۔اگر سماجوادی کی ۵؍اور کانگریس کی ۲؍سیٹوں کا تناسب لیا جائے تب بھی کانگریس کو خاطر خواہ سیٹیں دینا پڑ سکتی ہیں۔۲۰۱۴ء کی بات جانے دیں اور ۹ا۲۰ء کی بات کریں تب بھی کانگریس کواکیلے ۲۱؍سیٹیں ملی تھیں اور سماج وادی اور بی ایس پی کو بالترتیب ۲۳؍ اور ۲۱؍۔اس لحاظ سے بھی اتحاد کی صورت میں کانگریس کوخاطر خواہ سیٹیں دینا ہوں گی جو بہن جی نہیں چاہیں گی اور کھیل اسی’’نا‘‘ سے بگڑسکتا ہے۔ اس لئے کانگریس کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔کچھ لوگ سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور بوقت ضرورت وہ بی جے پی کی گود میں بھی جا سکتے ہیں۔ایسے لوگوں سے نہ صرف ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے بلکہ انہیں پہلے ہی دور کر دیا جائے تو بہتر ہے۔ انتخابی اتحاد نہ ہونے کی صورت میںکانگریس کو یوپی کا الیکشن تنہا اپنے دم پر لڑنے کیلئے سب سے پہلے وہاں کوئی ایسا لیڈر کھڑا کرنا ہوگا جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔راج ببر سے یہ بات نہیں بنتی۔اب تو زیادہ وقت بھی نہیں ہے اور کانگریس کا کوئی لیڈر نہ سنائی اور نہ دکھائی دیتا ہے۔ کانگریس کو تو پتہ چل ہی گیا ہے کہ اب اپنے آپ کچھ ہونے والا نہیں ہے۔وہ زمانے لد گئے جب کانگریس کی اور لوگ جوق در جوق آتے تھے اور’’جونک‘ ‘کی طرح چمٹ جاتے تھے ۔پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ ہجوم کے مماثل اُس کی حیثیت ہے اور اس ہجوم میں وہ سب کو بہا لے جائے گی۔یہ حقیقت ہے کہ اکیلے راہل گاندھی سے سب کچھ نہیں ہوگا کیونکہ الیکشن مہم کوموثر بنانے کیلئے اور بھی لوگ چاہئیں اور ۲۰۱۹ء الیکشن کے دوران بہت زیادہ وقت اور موقع بھی تو نہیں ملے گا تاکہ سب جگہ پہنچا جا سکے۔ شمال مشرقی ریاست میزورم میں کانگریس مقامی پارٹیوں کی مدد سے حکومت بنا سکتی ہے لیکن اس نے اس تعلق سے خاطر خواہ محنت نہیں کی گئی ہے ۔ اگر ان ۵؍ریاستوںمیں کانگریس کی حالت بری ہوتی ہے تو وہ ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات کو بھول ہی جائے !کیونکہ راہل گاندھی کا کرئیر وہ کب تک بناتی رہے گی؟
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریر نو ،نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛ رابطہ:9833999883)
قارئین کرام سے
سوموار کا کالم ’’سب رس ‘‘منگلوار کوملاحظہ فرمائیں