گزشتہ سال ستمبر میںیکبارگی استعمال ہونے والے پالی تھین پر پابندی کے نفاذ کا جائزہ لینے کیلئے صوبائی کمشنر کشمیر کی صدارت میں ایک جائزہ اجلاس منعقد ہوا تھاجس میںتھوک و پرچون میں پالی تھین فروخت کرنے والے دکانداروں پر جرمانہ عائد کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا گیاتھا کہ پلاسٹک کااستعمال کرنے والوں پرپہلے100 روپے، اکتوبر میں 200 روپے اور نومبر میں 300 روپے جرمانہ عائد کیاجائے ۔
صوبائی کمشنر نے بلدیاتی اداروں اور میونسپلٹیوں کے افسران سے کہاتھا کہ وہ ہر ضلع میں پلاسٹک کے تھوک فروشوں اور ہول سیلروںکے خلاف کم از کم تین ایف آئی آر درج کریں جبکہ ایس ایم سی افسران سے کہا گیاتھا کہ وہ رواں ماہ کے دوران ایسے تاجروں کے خلاف 120 ایف آئی آر درج کریں۔عدالت عالیہ نے گزشتہ دنوںحکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ پالی تھین سے پاک جموں وکشمیر کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے نگرانی نظام مزید سخت کرے اور نہ صرف جموں وکشمیرمیں پالی تھین کی برآمد روکی جائے بلکہ جموںوکشمیر کے اندر بھی پالی تھین کا استعمال ختم کیاجائے۔یہ پہلی دفعہ نہیں تھاجب عدلیہ نے پالی تھین کے استعمال کو لیکر حکومت کی کھینچائی کی تھی بلکہ اس سے قبل بھی کئی دفعہ عدلیہ کی جانب سے حکومت کو کھری کھری سننا پڑا اور سچ تو یہ ہے کہ عدلیہ کے دبائو کے نتیجہ میں ہی حکومت کو پالی تھین پر پابندی عائد کرنے کیلئے قانون سازی کرنا پڑی تاہم یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پابندی کا اطلاق قانون کی کتابوں تک ہی محدود رہا جبکہ عملی طور متعلقہ حکام کی ناک کے نیچے جموںوکشمیرمیں پالی تھین کا استعمال شدومد سے جاری ہے اور کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔
مئی 2009میں پالی تھین لفافوں کے استعمال پر پابندی کا اعلان کیاگیا تھا۔یہ عجیب بات ہے کہ حکومت14 سال قبل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ پالی تھین لفافوں کو وادی میں برآمد نہیں ہونے دینا ہے اور اس کے استعمال پر پابندی کا اطلاق ہونا چاہئے ، اس ضمن میںکثیر رقومات خرچ کرکے عوام کیلئے جانکاری مہم شروع کی جاتی ہے، سمیناروں کا اہتمام کیا جاتا ہے، غیر سرکاری رضاکار تنظیموں کی مدد بھی حاصل کی جاتی ہے، لیکن اس سب کے باوجود 14 سال بعد حکومت آج بلا جھجھک یہ اعتراف کرلیتی ہے کہ پالی تھین لفافوں کا استعمال ہنوز جاری ہے۔ظاہر ہے کہ پالی تھین پر پابندیجموںوکشمیر میں ماحولیات کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں ایک قدم تھا۔ حالانکہ ماحولیات کا تعلق صرف پالی تھین سے ہی نہیں ہے بلکہ کئی دیگر باتوں سے بھی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے مسلسل ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تے آئے ہیں اور یہ سلسلہ شدو مد کے ساتھ جاری ہے۔ہماری جھلیں تباہ حال ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سکڑتی جارہی ہیں۔ ہمارے جنگلات لٹ رہے ہیں۔ ہمارا جہلم آلودہ ہو چکا ہے۔ ہماری بستیوں سے برآمد ہوجانے والا فضلہ آبگاہوں اور دریا ئوں میں چلا جاتا ہے۔
جموںوکشمیر میں سڑکوں پر دوڑنے والی لاکھوں گاڑیاں زہریلا دھواں چھوڑتی ہوئی چلی جارہی ہیںاور بدقسمتی سے محکمہ ٹریفک میں افرادی قوت کی قلت کے باعث لاکھوں گاڑیوں کی پولیس چیکنگ تقریباً ایک ناممکن بات بن گئی ہے۔ ہماری زرخیز زمینیں کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ غرض کہ ہمارے یہاں ماحولیات کی بربادی کی ان گنت وجوہات دیکھنے کو ملتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس کے تدارک کیلئے ایک ہمہ گیر ، موثر اور زوردارحکومتی پالیسی کی ضرورت ہے لیکن پالی تھین لفافوں پر پابندی کے ایک چھوٹے سے قدم کا حشر دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماحولیات سے جڑے دیگر منفی رجحانات کا تدارک کرنے میں کس طرح کے نتائج برآمد ہونگے۔پالی تھین مخالف مہم کا جو حشر ہوا ہے ،وہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ حکومت نے یہ مہم سنجیدگی کے ساتھ شروع نہیں کی تھی ۔ بہر حال اگر حکومت واقعی جموں کشمیر میں ماحولیات کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے تو اسکے لئے موثر اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
حکومت کو چاہئے کہ زبانی جمع خرچ کے بجائے ماحولیات کے تحفظ کیلئے ٹھوس پالیسی اپنائے تاکہ اسکے مطلوبہ تنائج برآمد ہوں۔فوری طور پرمتعلقہ حکام پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ پالی تھین لفافوں کو گاہکوں کے ہاتھوں میں تھمادینے والے دکانداروں اور خوانچہ فروشوں کے تئیں سختی سے پیش آئیں ، مارکیٹ چیکنگ سکارڈ کو متحرک رکھیں اور اُن لوگوں سے قانون کے مطابق ڈیل کریں جو اس غیر قانونی اورضر ررساں دھندے کو کسی نہ کسی صورت زندہ رکھنے کے درپے ہیں نیز عام لوگوں کی بھی فہمائش کی جانی چاہئے اور انہیں پالی تھین کے استعمال سے پیدا ہونے والے خطرات اور نقصانات کے بارے میں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے مزید واقفیت دلائی جانی چاہئے۔ان حوالوں سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی ذمہ داری میونسپل حکام پر اول تاآخر عائد ہوتی ہے۔اْمید کی جانی چاہئے اس بارے میں ہاتھ بٹانے کے لئے نہ صرف معاشرے کے باشعور افراد بلکہ تمام ماحولیات دوست قوتیں بھی اپنا کردار حتی المقدور ادا کریںگے۔